مردوں کی مسیحائی۔۰۳۔ یتیم کی جیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

11:00PM Mon 26 Sep, 2022

اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ اے رسول! آپ کو ہم نے خیر کثیر عطا فرمایا۔

بے بسی اور حکمت الہی جو زوروالے تھے، ان کا زور توڑنے کے لیے جو گھمنڈ والے تھے، انھیں نیچا دکھانے کے لیے، جو حکمت اور حکومت والے تھے، ان میں عبدیت کی شکستگی پیدا کرنے کے لیے اور سب سے بڑھ کر اپنی بے مثال قدرت و حکمت کا بے مثال نمونہ دکھانے کے لیے، انتخاب اس کا کیا جاتا ہے، جو نہ زر رکھتا ہے نہ اس کے جلو میں سوار اور پیادے ہیں اور نہ اسکی بغل میں علو م و فنون کی پوتھیاں ! ایک بے یارو مددگار یتیم بچہ جس کی ولادت سے قبل ہی اس کے باپ کو اٹھالیا جاتا ہے، عرب کی سرزمین پر نمودار ہوتا ہے اور اسے حکم ملتا ہے کہ اپنے خاندان اور اپنے قبیلہ ہی کی نہیں، سارے ملک کی نہیں، سارے عالم کی اصلاح پر کمر بستہ ہو جائے! عقلیں حیران، دماغ متحیر !

سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے قہقہے جنہیں اپنی تہذیب و شائستگی پر ناز تھا، انھوں نے قہقہے لگا ئے، جنھیں خطاب و سحر بیانی کا دعوی تھا، انھوں نے تالیاں بجائیں، جنھیں آج کل کی برہنہ تصویروں اور نیم برہنہ صورتوں کی طر ح اپنی برہنہ شاعری پر فخر تھا، انھوں نے آواز ے کسے، مال اور جتھے والوں کے تیور پر بل پڑے اور جو زور و قوت والے تھے، تن تن کر اور اکڑ اکڑ کر میدان میں نکل آئے ۔

نور و ظلمت کی آویزش مقابلہ زور اور ضعیف کے درمیان، جسے دنیا زور اور قوت سے تعبیر کرتی ہے اور جسے دنیا ضعیف وناتوانی کہہ کر پکارتی ہے، ایک طرف سامان کی فراوانی، دوسری طرف بے سروسامانی، اِدھر معاہدہ اور سازشیں، اُدھر تنہائی کی عبادتیں، یہاں ریاست وسرداری، وہاں فاقہ و نامرادی، اس طرف جاہ وتحمل، اُس طرف فقر وتوکل، جواکیلا اور دنیاکی نظروں میں بے یارویاور تھا، اس پر خوب جی بھر کے ٹھٹھے لگائے گئے اور جو شان کے اونچے اور جتھے والے تھے، انھوں نے پکار پکار کر کہا کہ ذرا سننا اور دیکھنا، اس تخیل کو تو دیکھنا کہ جسے جھونپڑا بھی نصیب نہیں، وہ محلوں کے خواب دیکھ رہا ہے اور جو اپنی بے بسی اور بے کسی کے دور کرنے پر قادر نہیں، وہ دنیا کو راہ ہدایت دکھانے کا دعویٰ اور خلق کو جادہ اصلاح پر لانے کا حوصلہ کر رہا ہے۔ یہ سب کرشمے وہ دکھاتا رہا تھا، جس نے نمرود کا بھیجا، ایک مچھرکے ذریعے سے پاش پاش کردیاتھا، جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی خوراک بنا دیا تھا اور آج بھی لارڈ کچز اور لارڈ ٹامسن کو دم کے دم میں ڈبوتا اور جلاتا اور زار روس اور زارینہ کو، آن کی آن میں مارتا اور ہلاک کرتا رہتا ہے۔

کفّار قریش کی جھوٹی مسرت قدرت اور حکمت کا تازہ ظہور یوں ہوتا ہے کہ خدائے واحد کے اس اکیلے پرستار کا اکلوتا اور لاڈلہ بچہ، اس کی آنکھوں کے سامنے جان دیتا ہے اور جو دشمن کی بھی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتا تھا، اس کا ننھا اور معصوم لخت جگر اسی کے آغوش شفقت میں دم توڑ کر رہتا ہے۔ اللہ اللہ !کیا شان بے نیازی اور کیا جلوہ حکمت آرائی ہے کہ باغیوں اور سرکشوں کی، اولاد اور در اولاد، پھل پھول رہی ہے اور جو اپنے رب کا نام جپنے والا ہے، اسے اس نعمت سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اس کے پاس نہ دولت تھی نہ حکومت، نہ اس کی کوئی بڑ ی پارٹی تھی، نہ اس کے معتقدین کا کوئی وسیع حلقہ، ہرطرف سے مخالفت کا ہجوم، ہر سعی اصلاح میں ناکامی، ہردعوتِ حق میں بے اثری، غرض ہر دنیوی نعمت سے محرومی چشم ظاہر کو پہلے ہی سے نظر آرہی تھی، لے دے کہ یہ جوآخری نعمت تھی، اب یہ بھی چھن کر رہ گئی۔ دنیا ایسے مواقع پر کیا رائے قائم کرتی؟ اس نے وہی رائے قائم کی جو اندھوں اور بے بصروں نے ہمیشہ قائم کی ہے، وہ ہنسی، وہ مسکرائی، وہ خوشی سے اچھلی اور کودی۔ عا ص بن وائل منکروں کا ایک سردار اور ناہنجاروں کا پیشواتھا، اس نے چمک چمک کر اور مٹک مٹک کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو، چھٹی ہو گئی، محمدﷺ کی نسل ختم ہوئی اور آگے نہ اس کے کام کو چلانے والا باقی رہا نہ اس کے نام کا لینے والا، دیکھا ہمارے دیوتاؤں سے بے ادبی کرنے کا یہ انجام، جنھوں نے محمدﷺ کو محض گوشت و پوست کا مجموعہ سمجھ رکھا تھا، وہ اس طنز میں شاید معذور بھی تھے، کوئی کس طرح دکھا دیتا کہ کس جسم عنصری کا لفافہ اپنے اندر کس روح مطہر کو ڈھانپے اور چھپائے ہوئے ہے۔ بہر کیف غیرت حق نے اس طعن کو سنا اور اب اس میں حرکت ہوئی، آواز آتی ہے جہاں نہ الفاظ کا گزر ہے نہ حرف کا پتہ، کہ یہ بے خبر اور بے بصر، یہ غافل اور جاہل، تیرے اوپر طعنہ زن ہیں، ان بدبختوں کو کیا خبر کہ ہم نے تجھے خیرکثیر دے رکھی ہے، بھلائیوں کے خزانے تجھے عطاکر رکھے ہیں، اِنَّا اَعْطَیْنٰک الْکَوْثَرَ ساری خوبیوں، ساری خوبیوں کا مالک تجھے بنا رکھا ہے، تیرے لیے کس چیز کی کمی ہوسکتی ہے، دنیا میں بھی عقبی میں بھی؟جسے دینے والے ہم ہوں، اس کی دولتمندی کا کوئی اندازہ کرسکتا ہے، جسے بخشنے والے ہم ہوں، اس کی نعمت اندوزیاں کس کے شمار میں آسکتی ہیں؟ جس پر مہر بان ہم ہوں اس کے جاہ وجلال، اس کے عز وکمال، اس کے حسن وجمال، اس کے مال ومنال اور اس کے اوج و اقبال کا احاطہ کرنا، کس کے بس کی بات ہے ؟ اِنَّا اَعْطَیْنٰک الْکَوْثَرَ خیر کثیر دینے والا تو ہوا،اور دیا کیا گیا؟ بہت اور بہت ہی بہت ’’کوثر‘‘ اس کوثر کی تشریح کون کرے اور کن الفاظ سے کرے؟ ارباب شرح و تفسیر میں سے سب نے اپنے اپنے مذاق کی پیروی کی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کوثر سے مرا د جنت کی نہرِ کوثر ہے اور کسی نے لکھا ہے کہ دوسرے انبیاء پر جوفضیلت و سربلندی دی گئی ہے، وہ اس سے مراد ہے بیشک یہ سب کچھ مر اد ہوگا لیکن لفظ کے مفہوم کی وسعت کو کیوں کر محدود کیجئے اور کیوں نہ اسے انہیں فراخیوں اور پہنائیوں کا حامل رہنے دیجئے جو بخشے والے اور عطا کر نے والے کی شان یکتائی کے شایان ہیں۔ اللہ اکبر ! جن نعمتوں اور جن بخششوں کو بے تکان اور بے اندازہ بخشنے والا ،خود ’’بہت‘‘ اور ’’بہت ہی بہت‘‘ فرمائے، ان کے رقبے کی پیمائش کے لیے، انسان بے چارہ کوئی پیمانہ کہاں سے لائے؟ اہلِ لغت نے بہت ہاتھ پیر مارے کوثر کی شرح مختلف عنوانوں اور متعدد پیرایوں سے کی، بالآخر یہی کہتے بنا کہ وَمَالا یحصی من الخیر وہ ان سب بھلائیوں پر شامل ہے جو شمارمیں بھی نہیں آسکتیں۔ اب مرادِ کلام واضح اور مفہوم متکلم ظاہر ہے۔

نسل یانام لیوا کے خاتمہ کا طعنہ یہ خبیث طعنہ زن ہے کہ تیری نسل ختم ہو رہی ہے اور تیرا سلسلہ منقطع ہورہا ہے۔ تیری نسل بھلا کبھی ختم ہونے والی اور تیرا سلسلہ کبھی قطع ہونے والا ہے؟ یہ بد باطن دیکھنے کو زندہ نہ رہیں گے لیکن ان کے جانشین دیکھیں گے، زمین و آسمان دیکھیں گے، جن و بشر دیکھیں گے، آفتاب و ماہتات دیکھیں گے کہ تیری نسل قائم اور تیرا سلسلہ دائم ہے؟ بادشاہتیں بنیں گی اور بگڑیں گی، حکومتیں قائم ہوں گی اور مٹیں گی، شہر بسیں گے اور اجڑیں گے، قومیں ابھریں گی اور فنا ہوں گی لیکن تیرا نام زندہ اور تیراکام پائندہ، قیامت تک قائم اور قیامت کے بعد بھی قائم! دنیا میں تیرے نام کی وہ عزت ہوگی جو نہ آج تک کسی بندے کی ہوئی نہ آئندہ ہوگی، اونچے اونچے مناروں سے تیرانام ہمارے نام کے ساتھ پکارا جائے گا، دشت وجبل، صحرا و دریا، بحر و بر، شہروں اور دیہاتوں، آبادیوں اور ویرانوں سمندروں اور پہاڑوں، وادیو ں اور گھاٹیوں میں سب کہیں تیرے نام کی منادی ہوگی۔ حجازؔ وعراقؔ، یمنؔ وشامؔ، حبشؔ ومصرؔ، ایرانؔ و تورانؔ، بخاراؔ و ہندوستانؔ، چینؔ و جاپانؔ، روسؔ و افغانستانؔ، جرمنیؔ و انگلستانؔ، فرانسؔ و امریکہؔ، دنیا کا گوشہ گوشہ اور ہماری وسیع زمین کا چپہ چپہ تیرے نام کی پکار سے گونجے گا۔ ذرّہ ذرّہ تیرے کام کی عظمت کی گواہی دے گا اور تیرانام ان ان کانوں تک پہنچے گا جو سوائے تیرے ہر دوسرے ہادی کے نام سے ناآشنا ہوں گے۔ آج تو ان کور بصروں کی نگاہ میں حقیر ہے، کل تو ہی بلند کیا جائے گا، کل تیر ی ہی عزت ہوگی اور اس وقت ہوگی جب سب کی عزتیں پامال اور سب کی شہرتیں خاک میں مل چکی ہوں گی، جو اپنی شامت سے تجھے مانیں گے نہیں، وہ بھی کم از کم جان ضرور لیں گے۔

معنوی اولاد اور تیری صلبی اولاد کے بدلہ ہم تیری معنوی اولاد کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر، انسان کے شمار واعدادمیں نہ سما سکنے والی تعداد میں قیامت تک ایسی پیدا کردیں گے جو تجھے اپنے والدین سے کہیں بڑھ کر عزیز و محبوب و مکر م ومحترم رکھے گی، جو اپنی نجات تیری رضاجوئی پر موقوف سمجھے گی، جس کا ورد زبان اٹھتے اور بیٹھتے، تیرا ہی نام اور تیرا ہی کلمہ رہے گا۔تیرے نام پر بے گنتی اور بے شمار درود پڑھا جائے گا اور تیرے نام کی تسبیحیں صبح اور شام، دوپہر اور سہ پہر، آدھی رات کو اور پچھلے پہر دن اور رات کے ہر لمحہ میں پڑھی جاتی رہیں گی۔ تیرے نام کو وہ ادب اور وہ احترام ہوگا جو کسی لڑکے نے اپنے باپ کا نہ آج تک کیا نہ آئندہ کرے گا، ہم نے بہتوں کو عزتیں بخشی ہیں، بہتوں کے مرتبے بلند کئے ہیں، بہتوں کو سرداریاں عطا کی ہیں لیکن جو مرتبہ تجھے عطا ہو رہا ہے، وہ بس تیرے ہی ساتھ مخصوص ہے۔

سیرت پاک کی عظمت تیرے منہ سے نکلے ہوئے بول ایک ایک کر کے جمع کیے جائیں گے اور شغف و اہتمام، تحقیق واسناد کے ساتھ جمع کیے جائیں گے کہ ان کی کوئی نظیر دنیا کی کوئی تاریخ، کوئی تذکرہ، کوئی ملفوظ، کوئی سوانح عمر ی نہ پیش کرسکے گی۔ تیری تاریخ اس تفصیل و جامعیت کے ساتھ دنیا کے حافظہ میں محفوظ رکھی جائے گی، جس کی مثال نہ کسی بادشاہ کشور کشا کی سیرت میں ملے گی، نہ کسی نبی و ولی کے تذکرہ میں، تیرے اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے، بولنے ہنسنے، سونے جاگنے، کھانے پینے، سب کا ایک ایک جزیہ محفوظ رکھا جائے گا، کروڑ ہا کروڑ اور اربہا ارب بندے اپنی نجات تیرے ہی نقش قدم پر چلنے سے وابستہ سمجھیں گے، بیسیوں اور سیکڑوں کتابیں تیرے ملفوظات اور تیرے معمولات پر تالیف کی جائیں گی اور ہزارہا ہزار شرحیں تیار ہوں گی اور خود تیری ذات تو بڑی چیز ہے جنھوں نے کبھی دیکھا، بلکہ جنھوں نے تیرے دیکھنے والوں کو دیکھا، انہیں بھی زندہ رکھا جائے گا، انھیں بھی ممتاز و سربلند کیا جائے گا، ان کے سیرتیں بھی تاریخ کے نگارخانہ میں من وعن محفوظ رکھی جائیں گی۔ دنیا بڑے سے بڑے فلسفیوں کو، بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھول جائے گی لیکن بھول نہ سکے گی تو اس اَن پڑھ اور فاقہ مست بدوی کو جس کی خصوصیت بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ تیرے دیدارجمال سے مشرّف ہو ا ہے ! داراؔ و سکندرؔ، چنگیزؔ و جولیسؔ سیز، نپولینؔ و مسولین ؔ، جالینوسؔ وبقراط، فثیاغورثؔ وسقراطؔ، ارسطوؔ و افلاطونؔ، نیوٹنؔ و اسپنسر، اپنے علم و عمل کے بڑے بڑے کارناموں، اپنی دانش پژوہیوں اور اپنی فتح مندیوں کی بڑی بڑی یادگاریں، اپنے نزدیک دنیا کے لیے چھوڑجائیں گے۔ ان سب کی یاد رفتہ رفتہ بھلادی جائے گی، یہ سارے نقش دیکھتے دیکھتے ماند پڑجائیں گے اور لوح دہر پر نقش قائم رکھا جائے گا تو تیرا اور تیرے غلاموں کا اور تیرے غلاموں کے غلاموں کا۔

رسول اللہ کی نام لیوا معنوی اولاد تو اَن پڑھ ہے اور حروف و کتاب سے ناآشنا لیکن تیری عظمت کی گوائی دینے والے وہ ہوں گے، جنھیں ناز اپنے علم وفضل پر اور دعویٰ اپنے کمال فن کا ہوگا، کچھ لوگ تیرے اقوال و ملفوظات کی جمع تحقیق اور ان کی شرح وتفسیر میں اپنی اپنی عمر بسر کردیں گے اور ’’بخاری ومسلم‘‘ ابن حجر و ابن جوزی کی طرح محدثین کے گروہ میں محشور ہونا، اپنے لیے باعثِ فخر سمجھیں گے، ایک گروہ تیرے بتائے ہوئے احکام کی جانچ پڑتال اور ان سے استنباط جزئیات کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دے گا اور ابوحنیفہؒ و شافعیؒ، مالکؒ و ابویوسفؒ، نخعیؒ ومزنیؒ کے مثل افتاء و تفقہ کو اپنے لیے باعثِ سعادت خیال کرے گا۔ ایک جماعت تیری باطنی تعلیمات کی دلدادہ ہوکر راہِ سلوک و مجاہدہ میں پڑ جائے گی اور کتنے ہی جنیدؒ وشبلیؒ، جیلانیؒ و اجمیرؒ تیرے ہی مشعل سے اپنے اپنے چراغ نسلاً بعد نسل جلاتے رہیں گے۔ رومی ؒوسعدیؒ، حافظؒ وسناؒئی، اکبرؒ واقبالؒ، اپنے شاعرانہ کمالات کو تیری غلامی پر نثار کردیں۔ ابو حامد غزالیؒ اور ولی اللہ دہلویؒ اپنی سربلندی تیرے ہی بتلائے ہوئے حقائق اور اسرار کی تشریح وترجمانی میں سمجھیں گے اور رازی ؔوطوسیؔ، فارابیؔ ابن سیناؔ کو عقل و دلیل کے طوفان میں اگر پناہ کہیں ملے گی تو تیرے ہی دامن کے سایہ میں، حدیث، اصول، فقہ، سلوک، تصوف، کلام،کتنے ہی فن مخصوص تیرے ہی سلسلہ کی خدمت کے لیے عالم وجود میں آئیں گے اور علوم و فنون کے کتنے ہی علمبردار، ہرملک اور ہر قوم اور ہرزمانہ میں اپنی تحقیق و کاوش کو تیری خدمت کے لیے وقف رکھیں گے۔ برلن اور پیرس اور لندن تیرے اور تیرے دین کے دشمنوں کے پایہ تخت ہوں گے لیکن تیرانام، ہمارے نام کے ساتھ ان شہروں میں بھی ہر روز اور ہرروز بھی پانچ پانچ وقت بلند ہوتا رہے گا اور ہمارے عطاء کوثر کی شہادت بہم پہنچاتا رہے گا۔

ظہور نتائج یہ سب کچھ آب وگل والی دنیا میں ہوگا اور ہوتا رہے گا اور اسے ناسوت والے اپنی مادّی آنکھوں سے برابر دیکھتے رہیں گے، باقی جو کچھ اس عالم کے خاتمہ کے بعد ہماری طرف مراجعت کے بعد ہوگا، اس کے فہم و ادراک کے لئے تو ان شامت زدوں نے اپنے پاس کوئی ادنی سا ذریعہ بھی باقی نہیں رکھا ہے۔ قرآن ونبوت کے اندر جو گہری اور حقیقی نعمتیں جھلک رہی ہیں اور شفاعت کبری لوائے حمد، حوض محشر و نہر جنّت کی نعمتوں کی قدروقیمت کا اندازہ تو اسی وقت ہوگا جب یہ حقیقتیں پردہ غیب سے نکل کر شہود میں آچکیں گی اور افسوس ہے کہ اس وقت کی حسرتیں اور ندامتیں، پشیمانیاں اور پریشانیاں، کچھ ان کے کام نہ آئیں گی لیکن اس مادی دنیا میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کے ظہور کے لیے تو زیادہ انتظارکی ضرورت نہیں، جلد اور بہت جلد، پردہ آنکھوں سے ہٹنے کو ہے اور سب کو نظر آجانے کو ہے کہ ایک اولاد صلبی کے عوض میں بے شمار وبے حساب اولاد معنوی تجھے دے کر، تیرے نام کو چمکا کر، تیرے کام کو پھیلاکر’’عطاء کوثر‘‘ کا مشاہدہ اسی دنیا میں کیوں کر کرادیا جاتا ہے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد

نمازاور قربانی غرص دینے والا وہ جس کا نہ کوئی ثانی نہ کوئی شریک، نہ کوئی مثیل، نہ کوئی عدیل اور دیاگیا وہ جو نہ پہلے کسی پانے والے کو ملاتھا اور آئندہ کسی خوش نصیب کے نصیب میں آئے گا لیکن لینے والا بھی کون تھا؟ وہ نہیں جو اس لطف و کرم، جود و عطا، فضل و بخشش سے بھول میں آکر غفلت میں پڑ جائے اور اپنے تعلق باللہ کو ذرابھی ماند پڑنے دے، اس کی طبع سلیم کا یہ فطری تقاضا ہے اور عین اسی کے مطابق اسے حکم بھی ملتا ہے کہ وہ برابر فَصَلِّ لِرَبِکَ وَانْحَرْ اپنے پروردگار کی یاد میں لگا رہے اس کے لیے نمازیں پڑھتا رہے اور قربانی کرتاہے۔ الفاظ میں تصریح صرف دو عبادتوں کی آتی ہے، ایک نماز دوسری قربانی۔لیکن یہی دوعبادتیں، خلاصہ ہیں ساری عبادت کا۔ حقوق اللہ کی ادائی کی ساری صورتوں کی جامع، نماز ہے اور حقوق العباد کا لب لباب قربانی میں آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت کرکے، امت کے لیے بھی یہ اشارہ کردیا گیاکہ جب فضل وکرم کی بارش ہونے لگے، تو ادائے شکر کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ادائے حقوق الہی و ادائے حقوق عباد میں اور زیادہ توجہ و التفات شروع کر دیا جائے نہ یہ کہ ان کی طرف سے غفلت برتی جانے لگے۔

یتیم مکہّ کی فتح مبین سرچشمہ حق وصداقت کی پیش گوئی کے ایک حصّہ کو پورا ہوتے دوست و شمن، سب ساڑھے تیرہ سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں لیکن دوسرا جزوبھی اپنی سچّائی میں کچھ کم اثر انداز نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے اور عین اس وقت کہ جوشِ مخالفت اور مخالفین کے اقتدار و قوت کا شباب ہے، بے دھڑک اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُ اور بلا جھجک ارشاد ہوتا ہے:۔ کہ بے نام و نشان رہ جانے والے تیرے دشمن ہی ہیں! آج ان کور باطنوں کو اپنی کثرت آل و اولاد پر غرّہ ہے، اپنی اقبال مندی اور کامرانی کا دعویٰ ہے، اپنے پھلنے پھولنے پرناز ہے، تیری اولاد کی وفات پرطعنہ زن ہیں کہ تو بے نام ونشان رہ گیا، بے نام و نشان رہ جانے والا تو نہیں، بلکہ یہ خود ہیں، بے سلسلہ رہ جانے والا تیرا کام نہیں، خود ان کا کام ہے، مٹ جانے والا نام تیرانہیں، اُن کا نام ہے، بجھ جانے والی روشنی تیری نہیں، ان کی ہے اور جن کی اولاد صلبی و معنوی نیست و نابودہو کر رہے گی، وہ تو نہیں یہ خود ہیں۔ یہ مٹ جائیں گے، ان کی اولاد برباد کردی جائے گی، ان کے گلشن تاراج کرکے رکھ دئیے جائیں گے، ان کی نسلیں خاک میں ملادی جائیں گی۔ یہ ناموری کے بھوکے ہیں، انھیں گمنام و بے نشان کردیا جائے گا، تاریخ ان کے نام پرلعنت بھیجے گی، انسانیت اپنا شجرہ نسب ان سے جوڑتے شرمائے گی۔ کوئی نہ ان کا نام لینے والا رہے گا، نہ ان پر فاتحہ پڑھنے والا۔ دنیا نے چند ہی روز کے بعد کیا نظارہ کیا؟ اس ساڑھے تیرہ سو برس کی مدّت میں کیا دیکھتی چلی آرہی ہے؟ ابو جہل ؔکی قبر کا بھی کہیں نشان ہے؟ ابولہب ؔکا’’مزار‘‘ کوئی آج تک تلاش کرسکا ہے؟ عاص بن وائل کی اولاد آج دنیا کے کسی خطہ میں آباد ہے؟ امیّہ بن خلف کے کارناموں کی داد آج تاریخ کے کون سے طلبہ دے رہے ہیں؟ ولید بن مغیرہ کے فضائل و مناقب کا چرچا آج کسی زبان پر ہے؟ عقبہ کی اولاد آج دنیا کے کسی گوشہ میں آباد ہے؟ رؤساء قریش کی ریاست اور سردارانِ مکہّ کی سرداری کہیں گرد تک بھی باقی ہے؟ روئے زمین کے کسی خاندان کو آپ نے پایا ہے جو اپنا شجرئہ نسب ان باغیوں اور طاغیوں سے جوڑ رہا ہو؟

درود و سلام انہیں بھی چھوڑیئے، ان کے بعد سے اِس وقت تک صدیوں کے طویل، عریض زمانہ کا جائزہ لے ڈالئے، ہر ملک اور ہردور کی تاریخ کو دیکھ ڈالیے، محمدؐ سے جس نے دشمنی کی اس کا کیا انجام ہوا؟ کس کی قسمت میں عزّت و ماموری آئی؟ جس کی مدح اللہ نے کی، جسے اللہ نے ’’مدح کیا گیا‘‘ کہہ کر پکارا، اس کی ہجو کو جو بھی اٹھا، خود لڑکھڑا کر گرا جو اس سے ٹکرایا، پاش پاش کر دیا گیا۔ جس نے اس سے گستاخی کی جرات کی اسے پامال کردیا گیا۔ جسے لاولدی اور لاولدی کی بناء پر گمنامی اور بے نشانی کا طعنہ دیا گیا تھا، دنیا دیکھ رہی ہے اور ہزار ڈیڑھ ہزار سال سے دیکھتی چلی آرہی ہے، کہ وہ سب سے زیادہ وسیع القلب اور کثیر الاولاد ہے، جس کی بے کسی و گم نامی پر ہنسی اڑائی گئی تھی، وہی ناموری کا سردار، شہرت والوں کا سرتاج ہے۔ جس کے نام کو مردہ سمجھ لیا گیا تھا، اسی کے نام پر درود و سلام ہیں، اسی کاتوسّل باعثِ نجات اور اسی کانام اللہ کے نام کے ساتھ بلند و ممتاز! ع تمہارے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد میور اور مارگولیسؔ، ولہاؔوسن اور سیلؔ مغرب میں اور ان جیسے ہزاروں اور لاکھوں بدبخت مشرق میں مل کر اکٹھے ہوکر بھی، اس عزت و ناموری کو حاصل کرسکتے ہیں؟ اور اپنے نام کو اور اپنے کام کو مردہ ہونے سے بچا سکتے ہیں ؟

اللہم صلیّ علے محمدّ وّعلی ال محمدّ وّبارک وسلّم http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/