مردوں کی مسیحائی۔۰۲۔ یتیم کا راج۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

10:00PM Mon 26 Sep, 2022

تمدن کی نمائش گاہوں سے دور کچھ کم چودہ سو برس کا زمانہ گزرتا ہے کہ تمدن کی نمائش گاہوں سے کوسوں دور، تہذیب کے سبزہ زاروں سے الگ، ایک ویران و بے رونق بستی میں چلچلاتی دھوپ والے آسمان کے نیچے خشک اور پتھریلی سرزمین کے اوپر، ایک شریف لیکن اَن پڑھ اور بے زر خاندان میں، ایک بچہ عالِم آب و گل میں آنکھیں کھولتا ہے۔

دعوی کی دلیل صرف خدا کا سہارا شفیق باپ کا سایہ پہلے ہی سے اٹھ چکتا ہے، ماں بھی کچھ روز بعد سفر آخرت اختیار کرلیتی ہیں۔ تربیت کے جو ظاہری قدرتی ذریعے ہیں۔ وہ یوں گم ہوجاتے ہیں، بوڑھے دادا اپنے آغوش تربیت میں لے لیتے ہیں لیکن بچہ کا بچپن ابھی ختم نہیں ہونے پاتا کہ وہ بھی ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہیں۔گھر میں نہ نقد ہے نہ جائیداد نہ حکومت ہے نہ ریاست، خانہ ویرانی کا یہ عالم ہے کہ نہ ماں ہے نہ باپ، نہ دادا نہ دادی، نہ بھائی ہیں نہ بہن، تن تنہا بے سازو سامان، بے یارو مددگار ایک نوعمر اللہ کا بندہ ہے جسے سہارا ہے تو اسی نظروں سے اوجھل مولا کا اور آسرا ہے تو اسے نگاہوں سے غائب مالک کا!

عربوں کی حالت ملک کی حالت یہ کہ شرک کی گھٹائیں ہر طرف چھائی ہوئی، ساری قوم مخلوق پرستی میں ڈوبی ہوئی، بدکاری فیشن میں، انسانی ہمدردی کے مفہوم سے دماغ ناآشنا، ہر قسم کے فسق وفجور کی گرم بازاری، بات بات پر لڑنا اور پشتہا پشت تک لڑتے رہنا، یتیموں کی حق تلفی، غریبوں کے ساتھ بے دردی، اخلاقی وبائیں اور روحانی بیماریاں گھر پر مسلّط، یہ حد سے گزری ہوئی حالت تو خاص اسی قوم کی اور اس کے ملک کی۔

دنیا کا رنگ باقی جتنی ہمسایہ قوتیں ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی زندگی، پاکی وپاکیزگی کے معیار پر نہیں، مصرو ایران، چین وہندوستان، مشہور تھا کہ یہ تمام ملک ایک زمانہ میں علم، تہذیب وتمدن کے گہوارے تھے لیکن اس وقت سب کے سب اخلاقی گندگیوں اور روحانی ناپاکیوں کے رمنے بنے ہوئے تھے، توحید وخدا پرستی جو سارے اخلاقی نشونما کی جڑ ہے، سرے سے وہی کٹی ہوئی۔خالق کی یاد دلوں سے غائب اور طرح طرح کے وسیلوں اور واسطوں کی پرستش، ہر دل میں رچی ہوئی، متفرق طور پر کہیں کہیں اصلاح کرنے والے بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن سیلاب کے رَو میں کس کے قدم جم سکتے ہیں؟

ظہور قدسِی فضائے ملک، بلکہ فضائے عالم کی اس تیرگی میں یہ نوعمر یتیم کھڑا ہوتا ہے اور اپنی پاک وپاکیزہ ،کتاب زندگی کے ہر ورق کو کھول کر رکھ دیتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک کامل ومکمل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرکے حوصلہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کوبھی اپنا جیسا بنایا جائے، ایک طرف ساز وسامان سے محرومی ہے، ہر پہلو سے بے کسی اور بے بسی ہے، ہر اعتبار سے بے اختیاری ہے اور دوسری طر ف ملک وقوم کی اصلاح کی امنگیں ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ساری کائنات انسانی کے سدہارنے کے حوصلے ہیں لیکن ’’اصلاح قوم‘‘ آج کل کے مفہوم میں نہیں۔ اس لیے نہ کسی انجمن کی بنیاد پڑتی ہے، نہ کوئی پارٹی بنائی جاتی ہے، نہ کسی کمیٹی کے لیے فنڈ کھولا جاتا ہے، بلکہ سارا وقت اور ساری قوت اپنے آپ کو تیّار کرنے میں صرف ہوتی ہے! یہ نوعمر، حسین وخوشرو ہے، نوجوانی کا خون اس کی رگوں میں بھی گردش کرتا ہے، ملک میں گھر گھر فحش وبے حیائی کے چرچے ہیں لیکن اس کی نیچی نظروں پر خود حیاداری قربان ہو جاتی ہے۔ مئے ناب کے ساغر ہر طرف چھلک رہے ہیں، پیمانہ چاروں طرف گردش میں ہے لیکن اس کے دامن تقوی پر فرشتے تک نماز پڑھنے کے آرزو مند ہیں۔ لوگ لڑرہے ہیں، یہ صلح کرارہا ہے۔ قوم چھیننےمیں مصروف ہے، یہ بانٹنے میں۔ دنیا تحصیل وفراہمی میں لگی ہوئی ہے اور یہ عطا وبخشش میں۔ عالمِ مخلوق، مخلوق پرستی کی لعنت میں مبتلا ہے، ایک اس کے دل میں خالق کی لَو لگی ہوئی ہے۔

اصلاح کی جڑ خدا پرستی و توحید ساری اصلاحوں کی بنیاد توایک ہی اصلاح ہے، یعنی بندہ کا مالک سے تعلق پیدا ہوجانا، اس ٹوٹے ہوئے رشتے کا جُڑ جانا اور شرک کی بھول بھلیاں سے نکل کر توحید کی شاہراہ پر آجانا۔ یہاں بھی دھن تھی تو اسی کی اور فکر تھی تو اسی کی۔ رات کی نیند، دن کی مشغولی، ہر شے اسی کی نذر تھی۔

تڑپ اور وحی آفتاب اور ماہتاب کی گردشیں اپنی اپنی میعاد پوری کر رہی ہیں، بچے جوان ہوتے ہیں اور جوان ادھیڑ ہورہے ہیں۔موتی صدف کے اندر لعل وجواہر کانوں میں نشونما پارہے ہیں۔ عالم قدس کا یہ دُرِّ یتیم چالیس برس کی سن میں اپنی پختگی کو پہنچتا ہے۔ عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ راہِ ہدایت پانے کا جوش و ولولہ بھی ترقی پر ہے اور ’’یافت‘‘ کی تڑپ روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نوبت یہ پہنچتی ہے کہ آبادی کے شور و غل سے الگ، انسانوں کے مجمع سے دور، ایک غار کے سکون و خلوت میں ہفتوں کے ہفتوں اسی سوچ بچار، اسی گرہ کی کشائش کے نذر ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت ایک غیبی سہارا دستگیری کرتا ہے اور منصب ارشاد خلق و ہدایت عالم پر سرفرازی کا پروانہ ملتا ہے۔

کٹھن کام کھٹن کام اب شروع ہوتا ہے، ایک طرف ملکِ حجاز کی قوت و جمعیت ہے اور دوسری طرف تن تنہا ایک فرد اصلاح و ہدایت کا کام ہاتھ میں لینے والا، صدیوں کی پڑی ہوئی خصلتوں کا چھڑانا سیکڑوں برس کے زنگ دلوں سے دور کرنا، ایک دو شخص نہیں، ایک دو خاندان نہیں، ایک قبیلہ نہیں، سارے ملک کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنا، پھر زندگی کی کوئی ایک صنف نہیں، ہر صنف اور ہر شعبہ زندگی کو نئے سرے سے بدلنا! اور یہ پیام پہنچانا کہ اپنی زندگی بالکل نئی کرلو، مال دولت کی محبت چھوڑدو، بخل اور کنجوسی کو چھوڑ دو، حرصِ حکومت و ہوس جاہ کو چھوڑدو، اپنی جھوٹی شاعری اور موسیقی کو چھوڑدو، رشوت و سود خوری کو چھوڑ دو، خیا نت اور بد معاملگی کو چھوڑ دو، جوے اور شراب کو چھوڑ دو، بے حیائی اور بدکاری کو چھوڑدو، عورتوں اور غلاموں پر ظلم کرنے کو چھوڑدو، لڑکیوں کے زندہ دفن کردینے کو چھوڑ دو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے معبودانِ باطل کو چھوڑ دو۔ اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ گویا ایک نازک ولطیف شیشہ کی ٹکّر ایک ٹھوس اور سخت چٹان سے لگی، ساری شیطانی اور طاغوتی قوتوں نے اکٹھے ہو کر اس زمزمہ سرائے توحید پر یلغار کردیا، کنبہ والے بگڑے کہ سارے کنبہ سے یہ انوکھی بات کیسی زبان سے نکالی، برادری والے رُوٹھے کہ باپ دادا کی ریت رسم کو کس منہ سے بُرا ٹھہرایا۔ بستی والے اُلجھے کہ امن و چین کی زندگی میں یہ خواہ مخواہ ایک تفرقہ وفساد کھڑا کردیا۔ غرض خاندان مخالف، برادری مخالف، شہر کی ساری آبادی مخالف، وطن کے درو دیوار مخالف اور چشم ظاہری میں تو یہ نظر آنے لگا کہ وہ جو اس بزم ہستی کا صدر بنا کر بھیجا گیا، زمین کے ذرّے اس کے مخالف، آسمان کے تارے اسکے مخالف، وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر رکھا ہے۔

بلندی ذکر کی بشارت ایک طرف ادائے فرض کا احساس، دوسری طرف مخالفتوں کا یہ ہجوم بے پایاں! عین اس وقت جب کہ عالم بشریت میں سامانِ تسکین وتشفی ممکن نہ تھا، یہ صدائے غیب کانوں میں آتی ہے کہ اے ہمارے پیارے اور فرمانبردار بندے گھبرانے اور ہمّت چھوڑنے کی کوئی بات نہیں۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ہم نے تیرے اوپر وہ لطف وکرم کیا ہے جو کبھی کسی بندہ پر نہیں کیا، موسی کلیم اللہ کو ہم سے ہمکلامی کے بعد بھی شرح صدر کی آواز باقی رہی، انہوں نے اس نعمت کے لیے دعا کی، تجھے یہ نعمت عظمی ہم نے بلا طلب عنایت کی، تیرے سینے کو اپنی معرفت کے لیے کھول دیا، اسے اپنی نورانیت سے لبریز کر دیا اور اپنی آیات و دلائل کو تیرے اوپر واضح و روشن کردیا۔ اصلاحِ خلق کے لیے ہم تیری تڑپ دیکھ رہے تھے، یہ فکر تجھے ہلاک کیے ڈالتی تھی کہ لوگوں کو کیوں کر راہ راست پر لایا جائے، مراسم شرک سے تجھے شروع سے نفرت رہی ہے۔ وہ ہماری نظر سے چھپی ہوئی نہیں، اصلاحِ خلق کے لیے تیری دھن، خود راہ ِراست دکھانے کی فکر کا بار۔ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ۔ تیری پشت کو توڑے ڈالتا تھا، ہم نے اپنے فضل و کر م سے اس بارسے تجھے نجات دے دی اور یہی نہیں کہ وحی کی روشنی دے کرخود تجھے راہ راست پوری کی پوری دکھادی، بلکہ اس نعمت سے بھی سرفراز کردیا کہ دوسروں کو بھی راہ ہدایت دکھاتا رہ۔ مخالفین کے منصوبوں اور شرارتوں سے تنگ دل نہ ہونا، تو ہماری حفاظت میں ہے، یہ تیرا کچھ بھی نہیں کر سکتے، آج یہ نالائق اپنے نزدیک تجھے مٹادینے کی فکر میں ہیں لیکن ہم نے تیرا ذکر بلند کر رکھا ہے پھر جس ذکر کو ہم بلند قرار دیں، کون بشر اس کی بلندی کا پورا اندازہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کرسکتا ہے۔ یہ مخالفتیں اور یہ سازشیں تجھے کیا میٹ سکیں گی، مخالفین اور سازش کرنے والے خود ہی مٹ جائیں گے اور تیرانام ان سب کو پست وسرنگوں کرکے خود ممتاز و سربلند رہے گا۔

کایا پلٹ یہ آواز اس وقت دنیا کے سامنے بلند ہوئی تھی جب اسلام کے خلاف دولت، امارت وحکومت کی ساری قوتوں کا ایکا تھا، جب اسلام محدودتھا، تنگدستوں اور بیکسوں، ضعیفوں اور شکستہ حالوں کی ایک مختصر سی جماعت میں جب اللہ کا نام زبان پر لانے کا انعام ملتا تھا، گالیوں اور ذلتوں، تازیانوں اور عقوبتوں سے، مگر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ چند ہی روز میں کیسی کایا پلٹ تھی! قریش کے زور آور سردار خاک میں مل گئے، ان کے حلیف اور حمایتی مٹ کر رہ گئے، دولت مند یہود کا تخت الٹ گیا اور جن کی عقل و فہم پر، قوّت و اثرپر، دولت و سرمایہ پر، زمانہ کو ناز تھا، ان کے نام تک صفحہ روز گار سے مٹ گئے۔ ساڑے تیرہ سو برس کی مدت میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، عقل و دانش کی کتنی منزلیں، حد وحساب سے باہر، عددو حساب سے خارج، طے ہو چکی۔ الحاد و مادّیت کی قلمرو کتنی وسیع ہو چکی پر، پر آج خالق کے نام کے ساتھ جس مخلوق کا نام زبانوں پر آتا ہے، اللہ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے وہ کسی قیصرو کسری کانہیں کسی زار وفغفور کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر وادیب کا نہیں، کسی حاکم و فلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کانہیں، کسی رِشی کا نہیں، یہاں تک کے کسی دوسرے پیمبر کا بھی نہیں، بلکہ عبد اللہ کے لخت جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاک بطحا کے اسی بے کس، بے بس یتیم کا جسے قریش کے زور آور ،جھل و نخوت کے نشہ میں اپنا ہی جیسا محض ایک مشت خاک سمجھ رہے تھے۔ کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیو ں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیوں کی چوٹیوں میں، گنگا کی ودایوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، بخارا میں، مصر میں، ایران میں، عراق میں، شام میں، فلسطین میں، ترکی میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں اور ان سب مہذب، نیم مہذب ملکوں کو چھوڑ کر خاص ناف تمدن ومرکزِ تہذیب لندن ‘ پیرس اور برلن کی آبادیوں میں، ہر سال نہیں، ہرماہ نہیں، ہر ہفتہ نہیں، ہر روز بھی پانچ پانچ مرتبہ بلند مناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ، فضامیں گونجتی ہے، وہ اسی ایک سچّے اور اچھے کا نام ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانہ میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا۔

رفعت ذکر کی تفسیر یہ معنی ہیں ’’یتیم کے راج‘‘ کے یہ تفسیر ہے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کی۔کسی ایک صوبہ پر نہیں، کسی ایک ملک پر نہیں، کسی ایک جزیرہ پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے دلوں پر، آج حکومت ہے تو اسی یتیم کی، راج ہے تو اسی اُمّی کا روشن خیال مصری دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسی کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوا، خوش عقیدہ افغانی پناہ ڈھونڈتا ہے تو اسی اسم پاک کی، جانباز ترک دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسی کے نام کا کلمہ پڑھتا ہوا اور مراکش کا مجاہد سینہ پر گولی کھا کر گرتا ہے تو اسی کے نام کی بلندی کی گوائی دیتا ہوا! شاعر اگر ان مشاہدات کے بعد بے خود ہو کر پکار اٹھے، کہ ’’ہمسفر نام الہی نام تست‘‘ توکون اسکی زبان پکڑ سکتا ہے ! اَلَلہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلَیْہِ۔

انعامات خداوندی کا نزول، ہرسختی کے ساتھ آسانی اس پر قوت بشارت، اس سچی پیش گوئی کے ساتھ جو صرف سچے ہی کی زبان سے ادا ہوسکتی تھی، قانون الہی کی یہ دفعہ بھی سنا دی گئی کہ ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ شرح صدر ہو چکا، سینہ مبارک کو فَاِنَّ مَعَ اَلعُسْرِ یُسْراً، اِنَّ مَعَ العُسْرِیُسْرًا۔ انوارِ معرفت و سکنیت سے بھرا جا چکا۔ وحی کی روشنی مرحمت کی جاچکی، پھر بھی عسر و یسر، تنگی و کشائش کا قانون دائمی اور ناقابل تبدیل ہے۔ مفسرین میں سے بعض کا قول ہے کہ پہلی کشائش سے اسی دنیا کی نعمتیں اور دوسری کشائش سے آخرت کی راحتیں مراد ہیں اور پھر ایک جماعت اس جانب بھی گئی ہے کہ ایک کشائش سے اشارہ عہدِ رسالت ﷺ کی فتح مندیوں کے طرف ہے اور دوسرے سے عہدِ خلفائے راشدین کے دور اقبال کی جانب یہ سب مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس تکرار سے درسِ ہدایت پر زور دینا رسول ﷺ اور امت دونوں کے معنی میں الگ الگ مقصود ہو۔ یعنی جس طرح اس عبدِ کامل کو عسر کے بعد یسر حاصل ہوا، ٹھیک اسی طر ح اس یتیم کے پیروؤں کے لیے بھی راستہ کھلاہوا ہے، تنگی کے بعد کشائش انکی نصیب میں بھی آنی یقینی ہے۔ آخر میں یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اب جبکہ ہم نے تم کو اس بار سے ہلکا کردیا ہے، جب اصلاح امت کا کام بجائے اسکے کے تم اپنی عقل وفکر کے ذمہ رکھو، ہم نے اپنی وحی کے ماتحت کردیا ہے، جب اس فکر و تدبیر کے کام سے ہم نے تمہیں فارغ و سبکدوش کردیا ہے تو بس اب تم بھی پوری طرح ہماری احکام کو پہنچانے۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَاَنْصَبَ وَاِلی رَبِّکَ فَاَرْغَبَ فرائض رسالت کے انجام دینے، خلقت کو راہِ ہدایت دکھانے میں لگ جاؤ اور راستہ میں ہر تکلیف اور محنت کو برداشت کرو اور جس پروردگار نے تمہیں اس مرتبہ سے سرفراز کیا ہے جس نے تمہارے لئے ہجوم مشکلات میں یہ کشائش پیدا کردی ہے، جس نے تمہارے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر تمہارے ذکر کو یوں ہمیشہ کے لئے بلند کردیا ہے، تمام تر اسی کی طرف لَو لگائے رہو، سب سے بے پرواہ بے نیاز، ایک اسی کے نام کا چرچہ کرنے میں، ایک اسی کی پاکی پکارنے میں، ایک اسی کی بڑائی کے پھیلانے میں، جان ودل سے لگے رہو۔!

یتیموں کا والی غلاموں کا مولی مکّہ کا وہ یتیم آج خود ہی سب سے سر بلند اور ساری دینا کا سرتاج نہیں، بلکہ کارساز مطلق کی اس شان کریمی کی بالائیں لیجئے کہ اس مکّی یتیم کے طفیل میں آج دنیا کے سارے یتیم، غریب سے غریب، بے کس سے بے کس یتیم اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑیوں، یتیم خانوں کی کوٹھریوں میں، بازار کی گلیوں میں، محل کے رہنے والے امیرزادوں اور شہزادوں سے کہیں زیادہ سربلند اور کہیں زیادہ معزز ہیں !وہ خوش نصیب پاک بندے جن کے لیے اس ناسوتی زندگی کی قید سے رہا ہونے کے بعد چین ہی چین ہے، ان کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مسکینوں اور یتیموں کو محض اپنے پروردگار وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلی حُبَِّہِ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا کی رضا جوئی کے لیے خلوص کے ساتھ، نہ کسی نمائش وریا کی غرض سے کھانا کھلاتے رہتے ہیں! اور جن بدنصیبوں کو یہاں اور وہاں ذلّت کی سزا بھگتنی ہے، ان کا خاص جرم یہ بتادیا گیا ہے کہ وہ یتیموں کے کلَّا بَلْ لَا تُکْرِمُوْنَ اَلیَتِیْم۔ساتھ خواہ کوئی خاص بدسلوکی نہ بھی کرتے ہوں، توبھی کیا کم ہے کہ ان کی پوری عزت اور خاطرداری نہیں کرتے! شرفِ انسانیت کی سب سے بلند گھاٹی بغیر اسکے طے ہی نہیں ہوسکتی، انسانیت کے مرتبہ کمال تک رسائی ممکن ہی نہیں، جب تک قیدیوں اور غلاموں کو آزاد کرانے اور بھوک کے وقت یتیموں کو کھانا کھلانے کا شعار نہ بنالیا جائے، وَمَا اَدْرَاکَ مَااَلعَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ اَوْ اِطْعَامٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ یَتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ۔اتنا ہی نہیں، بلکہ اصلی دین یہی ہے کہ یتیم کی خاطر مدارات عزت وتوقیر کی جائے اور جو بدنصیب یہ نہیں کرتا، وہ خواہ بہ ظاہر کیسا ہی نمازی ہو لیکن اَرَاَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن ط فَذٰالِکِ الَّذِیْ یَدُعُ الْیَتِیْمَ اگر یتیم کے حق کو نہیں پہچانتا تواپنی دینداری کے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اس کی ساری مذہبیت مصنوعی اور نامقبول ہے۔ آج ہے دنیا کا کوئی مذہب، جس نے یتیموں کو یہ مرتبہ دیا ہو؟ جس نے یتیمی کو بجائے ایک باعث ننگ داغ سمجھنے کے، اس قابلِ رشک درجہ، شرف واحترام پر پہنچا دیا ہو؟ آج ہے دنیا کا کوئی ایسا مذہب بجز اس ایک اکیلے، سچّے دین کے، جو ایک یتیم کا لایا ہوا ہے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/