مردوں کی مسیحائی۔ ۰۶۔۔ سیرت نبوی اور علمائے فرنگ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

02:01AM Tue 27 Sep, 2022

          انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں جارج فنلے، برطانیہ میں ایک ممتاز مؤرخ گزرا ہے۔ جرمنی کی گوٹنگن یونی ورسٹی میں تعلیم پائی۔ ایم، اے اور اِل اِل ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں، فن مخصوص تاریخ یونان تھا۔ یونان اور یونانیات کے محقق نے ۱۸۲۶ء؁ سے لے کر ۱۸۴۴ء؁ تک تاریخ یونان، سیاسیات یونان وغیرہ پر انگریزی اور یونانی میں، تصانیف و رسائل کا انبار لگادیا۔ ۱۸۴۴ء؁ میں ایک کتاب یونان ’’رومیوں کے عہدِ حکومت میں‘‘ Grrce Under The Romans کے عنوان سے شائع کی، جو مدتوں اپنے موضوع پر مستند سمجھی گئی۔ ظہورِ اسلام تاریخ کے اسی عہد میں ہوا ہے جس وقت رسول اللہﷺکی بعثت ہوئی ہے۔ رومہ کی حکومت یونان تک وسیع تھی، اور یونان اس کے ایک صوبہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ عہد صحابہ میں مسلمانوں اور رومیوں میں جو آویزشیں ہوئیں، یونان ہی کے واسطہ سے ہوئیں۔ اس لیے اس تصنیف میں اسلام و شارع اسلام کا تذکرہ آجانا لازمی تھا۔

          مصنف کو اسلام سے کوئی عداوت یا تعصب نہیں اور نہ کتاب اسلام کے رد میں لکھی گئی ہے لیکن بہر حال ہے ایک فرنگی تصنیف۔ صفحات ذیل سے اندازہ ہوگا کہ جن علمائے فرنگ کو کوئی خاص عناد اسلام سے نہیں ہے، وہ بھی کس کس طرح واقعات کو مسخ کرکرکے پیش کرتے ہیں اور خواہ ضمناً ہی سہی، سیرت نبویؐ کو کیسی کیسی تلبیسات و تحریفات کا ہدف بناتے رہتے ہیں۔

چند افراد کی ہدایت کے لیے بے تابی

          عرب میں آفتاب رسالت کے طلوع سے قبل، جو دھندلی روشنی کہیں ایک دو افراد کو نظر آگئی تھی، اس کا نقشہ یہ مؤرخ اپنے قلم سے یوں کھینچتا ہے کہ گویا عرب میں خود ہی اصلاح کی تشنگی اور انقلاب کی تڑپ پیدا ہوچکی تھی۔

          ’’یہ امر قابل لحاظ ہے کہ اہلِ عرب، چھٹی صدی عیسوی بھر اپنے اخلاق و سیاسی تمدن میں تدریجاً ترقی ہی کرتے رہے اور ان کے مذہبی خیالات میں بہت زائد تغیرات ہوگئے تھے، ان کی تجارت کی جو خود انہیں کے ہاتھ میں تھی،اہمیت، مضبوط ہمسایوں کے کمزور پڑجانے سے بڑھ گئی تھی، اور اس کی ترقی سے وہ خود اپنی نظر میں بہت اہم ہوگئے تھے اور اتحاد قومی کے وہ خیالات ان میں موجزن رہنے لگے تھے، جو اس کے قبل نہیں ہوئے تھے۔ ہرقل کی تخت نشینی سے قبل والی صدی میں، یہ اسباب ساری عرب آبادی پر زبردست اثر ڈال چکے تھے اور یہ نہ نظر انداز ہونا چاہیے کہ محمدؐ کی ولادت، جسٹن دوم کے زمانہ میں اور تربیت اسی قومی جوش کے درمیان ہوئی۔‘‘

...باب ؛ ۴ فصل؛ ۵-ص؛ ۳۲۲، مطبوعہ ڈنٹ اینڈ سنز، لندن...

          انتشار جو اس کا اس سے بہتر نمونہ ملنا دشوار ہے۔مصنف کے سامنے شارع اسلامؐ کی معجزانہ کامیابی بہ طور واقعہ موجود ہے، اور وہ بے چارہ مبہوت ہے کہ اس کی اہمیت کو کیوں کر گھٹائے، اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بعثت رسولؐ کو مذہبی جامہ میں پیش کرے یا محض سیاسی رنگ میں! خلط مبحث کرکے وہ مجبوراً ایسے الفاظ لکھ جاتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا حضورﷺکا اصلی مشن سیاسی تھا، یعنی قبائل عرب کو متحد کرنا اور ملک میں ایک قومی اتحاد قائم کرنا اگر یہی مراد ہے، تو اس سخن فہمی کے قربان جایئے۔

توحید پر اس قدر زور دینے کی ضرورت

          مقصد اگر سیاسی تھا، تو اس توحید خالص پر اس قدر زور دینے، بت پرستی کے مٹانے، اس کی خاطر جہاد و قتال کرنے، ایک مخصوص نظام عقائد اور متعین ضابطہ عبادات پیش کرنے کی خدا معلوم کیا ضرورت تھی، اور پھر فنلے صاحب تو چشم بد دور مؤرخ ہیں، اگر اتحاد سیاسی و قومی کی تحریک عرب میں ظہور اسلام سے قبل پھیلنی شروع ہوگئی تھی، تو کاش اس تحریک کے دو ہی چار علم برداروں کے نام گنا دیے ہوتے!

پھر اگر مؤرخ موصوف کی یہ مراد ہے کہ تحریک تھی تو مذہبی ہی اصطلاح کی، لیکن اس حیثیت سے بھی تحریک کی بنیاد قبل سے ہو چکی تھی، تو کاش ایسے ہی مصلحین دین کے کارناموں کی ذرا بھی تصریح کردی گئی ہوتی، جس سے معلوم ہوجاتا کہ فلاں فلاں حدود تک کام قبل سے ہوچکا تھا اور اس کے بعد اسلام نے اضافہ کیا۔ ابن ہشام وغیرہ میں لے دے کے چار ایسے شخصوں کے نام لیے گئے ہیں، جو شرک و بت پرستی کے آبائی مذہب سے بے زار ہوکر، دین ابراہیمی کی تلاش میں در بدر ملک ملک پھرنے کو نکلے تھے۔ ان میں سے دو آخر کار عیسائی ہوگئے۔ ایک آخر تک بھٹکتا اور رنگ بدلتا رہا اور صرف چوتھے کی قسمت میں مسلک توحید پر قائم رہنا آیا۔

          کیا اسی کا نام زمین کی تیاری ہے؟ ایسے اِنے گنے، چند افراد، کس قوم میں اور کس زمانہ میں ہدایت یافتہ نہیں نکلتے رہے؟ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ آیا ان چند افراد کا، یا مسیحیت کا، یا یہودیت کا، یا کسی مذہب کا کوئی اصلاحی اثر عرب نے قبول کیا تھا؟ اس کا جواب نفی میں، صرف مسلمان مؤرخ ہی نہیں، بلکہ میور صاحب بھی دے چکے ہیں۔ لکھتے ہیں:۔

          ’’محمدؐ کی نو عمری کے زمانہ میں عرب کی حالت نہایت جمود کی تھی۔ اصلاح کی طرف سے اتنی مایوس کن حالت شاید پیشتر کبھی بھی نہ رہی ہو۔ بعض اوقات ایک واقعہ کے ہو چکنے کے بعد اس کے عجیب عجیب اسباب گڑھ لیے جاتے ہیں۔

          محمدؐ کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی سارے عرب میں ایک نئی اور ایمانی روح دوڑ گئی۔ اس سے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ عرب اس وقت تبدیلی کے لیے جوش میں تھا، اور اس کے قبول کرنے کو بالکل آمادہ تھا۔ یہ قیاس، تاریخ قبل اسلام کے واقعات کے بالکل منافی ہے۔‘‘

...مقدمہ سیرۃ محمدیؐ، باب؛ ۲، ص: ۹۶-۹۷، مطبوعہ جان گرانٹ، ایڈنیرا....

بے سر و سامان اسلامی لشکر اور روم کی شکست

          اسلامی لشکر کے ہاتھ سے ہرقل، رومی شہنشاہ کی شکست، تاریخ کا ایک عجیب ترین واقعہ ہے، ایک طرف ہر طرح کا ساز و سامان پشتہا پشت کا جنگی تجربہ، دولت و علم، کثرت افواج و اسلحہ اور دوسری طرف تعداد بھی قلیل اور سامانِ جنگ بھی کچھ یوں ہی سا۔ علوم و فنون سے بیگانگی اور ساز و سامان کی ناداری، کامیابی اور نمایاں کامیابی، اس آخری فریق کو نصیب ہوتی ہے، اس واقعہ کی تصویر اس مرقع میں یوں نظر آتی ہے۔

          ’’جہاں ایک طرف ہرقل کی کوشش یہ رہی کہ مشرقی سلطنت کی کھوئی ہوئی عظمت واپس آجائے اور اس اتحاد مذہبی کے نفاذ کی دھن سوار رہی، جو ذہن بشری کے لیے ہمیشہ ایک عظیم ترین مغالطہ رہا ہے، وہاں دوسری طرف محمدؐ نے نوع انسان کے جذبہ توحید کا صحیح تر اندازہ کرکے ملک عرب کو ایک حکومت قرار دے دینے اور سب سے ایک مذہب اختیار کرالینے میں کامیابی حاصل کرلی۔‘‘ ...ص: ۳۴۱-۳۴۲....

          سبحان اللہ و بحمدہ، ہرقل ایک عظیم الشان سلطنت کا تاج دار ہے، حکومت مدتوں سے اس کے خاندان میں چلی آرہی ہے، زر و جواہر کا خزانہ رکھتا ہے، اہل علم و خرد ارد گرد موجود ہیں، اس کی ساری مساعی اتحاد ناکام رہیں اور اس ناکامی کی بناء پر نفس کی یہ کوشش ہی ذہن بشری کا ایک عظیم ترین مغالطہ قرار پاجائے، لیکن جب بادیہ عرب کا ایک اُمی، تہذیب و شائستگی کی اقلیموں سے دور، تہی دست و فاقہ مست، چند سال کے اندر، دیکھتے دیکھتے، ملک کے ملک کی کایا پلٹ کردے اور سب کے دلوں کے عقائد ہی نہیں، زندگیوں کے اعمال بھی بدل دے تو اس کے عقب میں نہ کسی نصرت غیبی کا اعتراف کیا جائے، نہ کسی ملکوتی قوت کی امداد تسلیم کی جائے، بلکہ محض یہ کہہ کر دل کو سمجھا لیا جائے کہ آپ کو فطرت بشری کا صحیح تر اندازہ تھا۔ یہ مورخانہ واقعہ نگاری ہے! اس کا نام محققانہ روشن خیالی ہے!

کمال تلبیس

          یورپ کو اسلام و شارع اسلام کے معاملہ میں جو کمال تلبیس حاصل ہے، اس کا دل چسپ نمونہ یہی اقتباسات بالا ہیں۔ لکھنے والا کوئی پادری نہیں، مسیحی مناظر نہیں، ایک مؤرخ ہے، صاحبِ علم، اہل قلم ہے۔ موضوع تصنیف تردید عقائد اسلامی نہیں، تاریخ یونان ہے۔ اسلام و شارعِ اسلام کا تذکرہ محض ضمناً آجاتا ہے۔ پڑھنے والا بے چارہ بالکل خالی الذہن ہوکر پڑھ رہا ہے، پڑھتے پڑھتے یک بیک رسولؐ اسلام کا نام آتا ہے۔ کسی ظاہری ہجو و تنقیص اور لفظی توہین کے ساتھ نہیں، بلکہ اعتراف عظمت کے ساتھ، لیکن حیثیت جو ظاہر کی جاتی ہے، وہ نبی برحق کی نہیں، صاحب وحی کی نہیں، کسی مقدس و برگزیدہ ولی کی بھی نہیں، بلکہ محض ایک با تدبیر و کامیاب لیڈر کی اور پیمبرانہ کارناموں کی داد یہ کہہ کر ختم کردی جاتی ہے کہ آپؐ نے فطرت بشری کا خوب اندازہ کرلیا۔ اب سادہ دل مسلمان طالب علم، جو مصنف کی بے تعصبی، رواداری اور قوت تحقیق کا کلمہ پہلے سے پڑھ رہا ہے، جب اچانک ایسے موقع پرپہنچتا ہے تو عموماً خلوئے ذہن کے ساتھ وہ اس باب میں بھی، مصنف کے بیان سے اسی طرح متاثر ہوجاتا ہے، جس طرح مصنف اس پر اثر ڈالنا چاہتا ہے اور بے اختیار، وہ نبیؐ کو محض ایک کامیاب قائد، ایک اولوالعزم فاتح، ایک نامور مدبر کی حیثیت میں، دیکھنے سمجھنے اور ماننے پر قانع ہوجاتا ہے۔ مسیحی مشنری اور پادری کے حملے، کم از کم سامنے کے ہوتے ہیں، ’’فرنگی محقق‘‘ کے وار ہمیشہ یوں ہی پشت کی طرف سے، بے خبری کے عالم میں، اچانک ہوتے رہتے ہیں۔

غزوات کی فتح مندیاں مستقل معجزات

          غزوات میں فتح مندیاں، حضورؐ کا ایک مستقل معجزہ ہیں اور منکروں پر ایک مخصوص حجت، کافروں کی طرف سے بار بار مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی فرقان مبین کیوں نہیں نازل ہوجاتا۔ یہ فرقان مادی آنکھوں سے نظر آجانے کے قابل، معجزانہ فتح مندیوں کی شکل میں ظاہر ہوکر رہا۔ ان آنکھوں کی خیرہ کردینے والی کامیابیوں اور کامرانیوں سے انکار کسی بڑے سے بڑے منکر کے لیے بھی ممکن نہیں۔البتہ آج کا پڑھا لکھا منکر کرتا یہ ہے کہ واقعات کو مان کر ان کی توجیہ و تاویل کے لیے بہانے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ پرانے ملحد معجزات کی تاویل، سحر سے کیا کرتے تھے، جدید منکرین کو روشن خیالی کی چند اصطلاحیں ہاتھ آگئی ہیں، وہ ان سے اپنے دل کو تسکین دے لیا کرتے ہیں۔ فتوحات اسلامی کی تمہید میں ڈاکٹر فنلے فرماتے ہیں:۔

          ’’خسرو و ہرقل کے ماتحت، ایران و رومہ کی سلطنتوں میں جو حیرت انگیز انقلابات ہوئے، وہ سب کے سب اس عظیم الشان اثر کے آگے ماند ہوجاتے ہیں، جو ان کے معاصر، محمدؐ پیغمبر عرب نے ان ممالک کی سیاسی، معاشری اور مذہبی زندگیوں پر ڈالنا شروع کردیا، جن پر تسلط جمانے کی ان سلاطین کو اس قدر آرزو رہا کرتی تھی۔‘‘ ...باب؛ ۵، فصل؛۲، ص: ۳۵۲....

          گویا حضورؐ کی معجزانہ طاقت کا اعتراف ہے، اس کا اقرار ہے کہ جو انقلاب اس ذات مبارک نے دیکھتے دیکھتے پیدا کردیا، اس کی نظیر پیش کرنے سے رومہ و ایران کی پر قوت سلطنتیں مع اپنے تمام وسائل و خزائن کے عاجز ہیں، لیکن..... اور یہیں سے گمراہی کی بنیاد پڑتی ہے..... اس کی وجہ یہ نہیں کہ نبی اپنے دعویٰ نبوت میں سچا تھا، بلکہ صرف یہ کہ وہ بڑا عقل مند اور نکتہ رس تھا۔ فرماتے ہیں:۔

          ’’محمدؐ کی کامیابی بہ حیثیت شارع کے، ایشیاء کی قدیم ترین اقوام میں اور ان کے قائم کیے ہوئے اداروں کی پائیداری نسلہا نسل تک اور ہر طبقہ معاشرت میں ثابت کرتی ہے کہ یہ غیر معمولی انسان، ملائی کرگس اور اسکندر دونوں کا ایک نادر مجموعہ تھا۔‘‘

جامعیت کا کمال

          دوسرے لفظوں میں یہ تسلیم ہے کہ حضورﷺ کی شخصیت عام انسانوں سے مافوق تھی، یہ بھی تسلیم ہے کہ حضورﷺکے اصلاحی کارنامے حیرت انگیز ہیں لیکن یہ ماننے کا گویا امکان ہی نہیں کہ ایسا شخص اپنے دعووں میں سچا تھا بلکہ ان معجزانہ کامیابیوں کا راز صرف یہ تھا کہ آپ کی ذات میں بڑے سے بڑے فاتح، اور بڑے سے بڑے مدبر و مقنن کے ’’اوصاف نادرہ‘‘ جمع ہوگئے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ابو جہل جب معجزات و مادی آیات سے عاجز و لاجواب ہوجاتا تھا، تو آخر میں یہی کہہ کر اپنی کھسیاہٹ مٹالیا کرتا تھا کہ ...نعوذ باللہ... یہ شخص بڑے غضب کا ساحر ہے۔ آج کے روشن خیال کا انکارِ نبوت، کیا ابوجہل کی ذہنیت سے کچھ بہت مختلف ہے؟

اس کی نظیر کہاں ہے؟

          دنیا میں کس سکندر، کس نپولین، کس چنگیز نے اتنی بے سر و سامانی کے ساتھ ایسے عظیم الشان فتوحات حاصل کیے ہیں؟ کس فوجی جنرل کے سپاہ نے اپنے اخلاقِ حسنہ کا اتنا زبردست نمونہ پیش کیا ہے؟ کس فاتح کشور کشا لشکر کے پیادے ایسے حق پرست، ایسے متدین، ایسے نیک سرشت، گزرے ہیں؟ کس فوج کے سپاہیوں نے دن بھر روزے رکھ رکھ کر اور راتوں کو تہجد میں گزار گزار کر، محض جنت کی خاطر، اللہ کے ہاں پروانہ مغفرت حاصل کرنے کے لیے، اپنے سے کئی کئی گنے لشکر کا مقابلہ کیا ہے؟ کس مقنن نے فطرت بشری کو اس درجہ ملحوظ رکھ کر، دنیا کے ہر گوشہ کے لیے، بنی آدم کی ہر نسل کے لیے، معاشرت و تمدن کے ہر طبقہ کے لیے، عالم گیر قوانین وضع کیے ہیں؟ کس قانون ساز نے، حق و انصاف، امانت و دیانت، عفت و شرافت، اصلاح نفس و تزکیہ باطن کو تمام وقتی مصالح و ہنگامی خواہشوں پر مقدم رکھا ہے؟ وہ پاک و پاکیزہ ملکوتی شخصیت، جو ایسی پاک و پاکیزہ ملکوتی تعلیم کی سرچشمہ ہو، اسے دنیا کے ملک گیر فاتحوں اور قانون سازوں کی قطار میں شمار کرتے، مصنف کو کچھ بھی غیرت نہ آئی؟ اگر یہی نمونہ علم و تحقیق ہے تو خدا معلوم جہل کسے قرار دیا جائے گا؟

          آگے چل کرحضورﷺکی شخصیت اور کارناموں کا پھر اعتراف ہے، لیکن جیسے لکھتے لکھتے کوئی چونک پڑتا ہے کہ کہیں اس سے تصدیق نبوت نہ ہونے لگے۔ یہ بھی ارشاد ہوجاتا ہے کہ:۔

          ’’محمدؐ کی پیدایش ایسے وقت میں ہوئی، جب دنیائے متمدن کے طبقہ حکمراں و طبقہ امراء میں نمایاں عقلی انحطاط تھا۔ اس وقت عموماً دنیا جس سطح معاشرت پر تھی، اس سے بہتر کی طلب پیدا ہوچکی تھی اور حالات عصریہ سے بے اطمینانی تقریباً ہر ملک میں پھیل چکی تھی۔ عرب میں مذہب شرک و بت پرستی سے کسی بہتر مذہب کی ضرورت محسوس ہورہی تھی اور ایران، شام ومصر کے لوگ بھی، مزوکیہ، یہود، اور مسیحیوں کے نزاعات سے تنگ آکر ایک بہتر دین کی جستجو میں تھے۔‘‘ ...ملخصاً، ص: ۳۵۳....

کیا طلب کا یہی ثبوت ہے

          گویا ’’بہتر دین‘‘ کی طلب و تلاش تو سب کو تھی، لیکن جب وہ ’’بہتر دین‘‘ پیش کیا گیا، تو سارا عرب، مقابلہ و مقاتلہ کو تیار ہوگیا اور ملک کا بچہ بچہ تک، اس بہتر دین کے لانے والے کے خون کا پیاسا ہوگیا۔

          کیا طلب و تلاش کا یہی ثبوت تھا؟ کیا یہ طلب و تلاش، اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ سالہا سال تک اس دین کے لانے والے کے خلاف، سخت سے سخت خونریز لڑائیاں جاری رہیں اور مقاطعہ کرکے اس دین برحق کے داعی پر زندگی تنگ کردی گئی؟

          عرب و مضافات عرب اگر ایسے ہی، ایک نئے دین کے لیے بے قرار تھے تو کیوں نہ اس پیمبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور سب کے سب نہ سہی تو آخر کیوں نہ ایک بڑی جماعت معاً اس دعوت پر لبیک کہنے کو اٹھ کھڑی ہوئی؟

          اس سے بھی قطع نظر کرکے اگر نفس دعوت جدید ہی کامیابی کی ضامن ہوسکتی تھی، تو عین اس زمانہ میں، مسیلمہ اور اسود عنسی بھی تو وحی نبوت ہی کے دعوے لے لے کر اٹھے۔ پھر آخر کیوں نہ کامیاب ہوئے؟ انہیں کیوں نہ سرسبزی نصیب ہوئی؟

          ڈاکٹر فنلے صاحب اس کھلے ہوئے اعتراض سے غافل نہیں ہوسکتے تھے، ضمیر نے خود خلش محسوس کی لیکن جو جواب سوچا، وہ اس قابل ہے کہ یا تو اس پر خوب ہنسا جائے، اور یا محض رویا جائے۔ کہتے ہیں:۔

          ’’عرب کے ذہن عامہ کے جس جوش نے محمدؐ کو پیدا کیا۔ اسی نے بہت سے اور پیمبر بھی انہیں کے زمانہ میں اٹھا کھڑے کیے لیکن محمدؐ کی اعلیٰ قابلیت اور انصاف کے صحیح تر اندازہ، بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سچائی نے ان لوگوں کے سارے منصوبوں کو برباد کردیا۔‘‘ ...ص: ۳۵۳...

          گویا اور ہر شے کا اعتراف ہوگا، رسولؐ کی قابلیت، فہم و ذکا، نکتہ رسی و دور اندیشی، ذاتی صداقت و امانت سب کا اقرار ہوگا، لیکن جس شے کے تسلیم کرنے سے درجہ احتمال میں بھی گریز ہوگا، وہ صرف یہ ہے کہ یہ سچا اور قابل شخص اپنے دعوت نبوت میں بھی سچا تھا اور ہر کوشش اسی کی جاری رہے گی کہ پڑھنے والا کسی ہیر پھیر سے، گھوم گھما کر بھی، اس عقیدہ کے قریب نہ آنے پائے۔

کارلائل کی سیرت نگاری

          ٹامس کارلائل، مؤرخ نہ تھے، ادیب تھے، ان کا شمار انیسویں صدی کے مشہور ترین اہلِ قلم اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں اپنی کتاب ’’ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ‘‘ ...بطل اور بطل پرستی... پر شائع کی۔ مختلف ابواب میں مختلف مشاہیر تاریخ کو لے کر انہیں کسی نہ کسی حیثیت سے بطل ...ہیرو... قرار دیا ہے، مثلاً شاعروں میں شیکسپیئر اور دانتے، فرماں رواؤں میں کرامول اور نپولین وقس علی ہذا اور ان سب کی زندگیوں پر تبصرہ کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک باب حضورﷺ سے متعلق بھی ہے۔ حضورؐ کو پیمبروں میں ہیرو مانا ہے اور اسی حیثیت سے حضورؐ کی زندگی اور اسلام پر تبصرہ ہے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/