Mout Kay Farishtay ka Ihtram . Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

02:51AM Tue 18 Jun, 2024

وسطِ فروری کا مہینہ ہے ۔ جرمنی کا علاقہ سارؔ، صنعتی کاموں کے لئے مشہور ہے۔ اس میں ۴۱ہزار کی آبادی کا ایک شہرنیون کرچینؔ ہے۔ جہاں گیس کے بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ اور ایک عظیم الشان گیس پیما (گیسومیٹر) ڈھائی سو فیٹ بلند لوہے کی چادروں کا بنا ہوا ہے، جس کے اندر ایک لاکھ ۲۰ہزار میٹر گیس کا خزانہ جمع ہے۔ صبح ہوئی، لوگ اُٹھے، اور اپنے روزمرہ کے کاروبار میں مشغول ہوئے۔ دوپہر ہوئی، سہ پہر آیا، اے لیجئے، شام ہونے لگی، دفتر والے اپنے اپنے دفتروں سے، اور کارخانہ والے اپنے اپن کارخانوں سے چھُٹی پاپاکر، گھروں کو روانہ ہوئے، گھروں کے اندر شام کے کھانے کی تیاریاں شروع ہوئیں، کہ ایک دَم سے بس یہ معلوم ہوا، کہ گویا اسرافیل نے صور قیامت پھونک دیا! وہی کانوں کے پردے پھاڑدینے والا شور وغل، وہی عقلوں کو خبط کردینے والا ہنگامہ، وہی پتّے پانی کردینے والی چیخ وپکار، وہی حمل والیوں کا حمل گرادینے والی دہشت اور بوکھلاہٹ ، وہی روز محشر والی نفسی نفسی اور بدحواسی!

گیس کا وہی بڑا مخزن یک بیک اور بالکل اچانک پھٹا۔ اور سارے شہر پر لکڑی کے تختوں، لوہے کی چادروں، بڑے بڑے وزنی پتھروں ، شیشہ کے ٹکڑوں اور آگ کے شعلوں اور انگاروں کی بارش شروع ہوگئی! گیس کا اتنا بڑا خزانہ کوئی معمولی بات تھی۔ رعد کو شرمندہ کردینے والی گرج، میل دومیل نہیں، پورے پچاس میل تک پہونچی، قریب والوں کے کانوں اور کلیجوں پر کیا گزری ہوگی، اس کا اندازہ خود کیجئے۔ فولاد اور لوہے کے ٹکڑے دودو میل کے فاصلہ پر پڑے ہوئے ملے۔ مخزن گیس کی آہنی چھت کا خالی قطر ۳۵فٹ کاتھا، اور وزن صدہا ہزارہامن کا، وہ اُڑ کرآدھ میل کے فاصلہ پر جاکر ریلوے لائن پرگری! مالی بربادی جو کچھ ہوئی، سو ہوئی۔ جان کے نقصان کے اعداد یہ ہیں، کہ ۱۰۰سے زائدلاشیں تو دوسرے دن ملبہ کے ڈھیر کے نیچے سے ، اور سڑکوں پر پڑئی ہوئی برآمد ہوئیں، اور دوسو سے اوپر تعداد اُن لوگوں کی ملی، جو بہت ہی سخت مجروح تھے( ان میں سے بھی خدامعلوم کتنے بعد کو ختم ہوگئے ہوں)اورایک ہزار سے اوپر وہ جو معمولی طور پر زخمی ہوئے تھے!……چند منٹ کے اندر یہ سب کچھ ہوگیا، اور یورپ کی سب سے زیادہ دانا وزیرک قوم (جرمن) ، فطرت کی ایک ادنیٰ جنبش کے سامنے ، ہلاکت وبربادی کے معملہ میں دنیا کی سب سے زیادہ نادان، پست ودرماندہ قوموں سے کچھ بھی بہتر ثابت نہ ہوسکی!

جرمن شہر، فرانسیسی علاقوں کے متصل واقع ہے۔ دونوں کی باہمی عداوت ضرب المثل کے درجہ تک مشہور ومعلوم ہے۔ اور اس وقت خود جرمنی کے اندر، نازیؔ اور کمیونسٹ (اشتمالی) دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہیں۔ جب جنازے اُٹھے، اور مُردے دفن ہونے لگے، تو دیکھنے والوں کا بیان ہے، کہ جرمن اورفرنچ ، نازی اور اشتمالی، سب یکساں شریک اور ایک دوسرے کے شریک دردوغم تھے!……جو بھی کل تک ایک دوسرے کی جان لینے کی فکر میں تھے، ایک دوسرے کی مَوت کے آرزومند تھے، جب موت کا وقت آیا، تو سب کے سب اپنی نفرتیں اور عداوتیں بھول بھال اس کے آگے مرعوت، مفلوج، لرزاں، ترساں، ہیبت زدہ اور بے دست وپاتھے! کیا موت کی ہیبت کا اعتراف ، اور مَوت کے فرشتے کا احترام، ’’صاحب‘‘ کو بھی کرنا ہی پڑتاہے؟