Moulana Shah Qadiri Syed Mustafa Rifai Nadwi(02)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

10:36PM Sun 2 Mar, 2025

ابتدائی تعلیم

گھر کے بعد آپ نے میٹرک تک کی  تعلیم اپنے یہاں کے مقامی اسکول میں مکمل  کی۔

دینی تعلیم کے لئے سنہ  1963 میں  مدرسہ باقیات صالحات ویلور میں آپ کا داخلہ ہوا، جہاں آپ نے تین سال فارسی نصاب مکمل کیا،  یہاں آپ نے گلستان بوستان ، مالا بد منہ وغیرہ ضروری کتابیں پڑھیں،یہاں  آپ کے اساتذہ میں مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاریؒ، شیخ التفسیر مولانا عبد الجبارؒ، مولاناجعفر حسین عرف چاند حضرت( نواسہ بانی مدرسہ) ، مولانا نثار احمد فدوی باقوی، مولانا رئیس الاسلام باقوی شامل ہیں، آپ کے تجوید کے استاد قاری شیخ عرب تھے۔

غالبا آپ کے والد ماجد نے ناظم مدرسہ شیخ آدمؒ سے اپنے بچے کے لئے کالی پوشک پہننے  کی اجازات لے لی تھی، اور اس وقت کے  طالب علموں میں آپ کالےپیر کے نام سے مشہور ہوگئے تھے، لیکن بعد میں  آنے والے ناظم مدرسہ نے طلبہ میں مساوات برقرار رکھنے کی غرض سے اس امتیازی لباس کی مزید  اجازت نہیں دی۔    

باقیات میں مولانا سید صبغہ اللہ بختیاریؒ کا آپ پر بڑا مشفقانہ ہاتھ رہا، مولانا بختیاریؒ بڑے موسوعی قسم کے عالم دین تھے، مطالعہ بہت وسیع تھا،  حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے گرویدہ تھے، ان  کی ذات  میں تزکیہ نفس اور تصوف  گھلے ملے تھے۔ آپ نے مولانا رفاعی کی مناسب تربیت اور رہنمائی کا خاص خیال رکھا، بختیاری صاحب  دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوری کے بھی رکن تھے، اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے رفیق درس اور آپ سے مخلصانہ تعلق رکھتے تھے، آپ نے مولانا رفاعی کو مشورہ دیا کہ باقیات میں فارسی درجات کی تکمیل کے بعد ندوے میں داخلہ لیں، وہاں آپ کی عربی صلاحیت بہت بڑھے گی۔ آپ نے حضرت مولانا علی میاںؒ کے نام ایک پرزور سفارشی خط لکھا، جس میں رفاعی صاحب کے خاندانی پس منظر، اور حضرت شاہ عبد القادر جیلانی کی نرنیہ اولاد میں ہونے کا ذکر بھی کیا تھا، اور اپنی خاص نگرانی میں آپ کو لینے کی گذارش کی تھی۔

ندوۃ العلماء لکھنو کے شب وروز

 1965ء میں آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء  لکھنو میں داخلہ کے لئےبنگلور سے روانہ ہوئے، اس زمانے میں لکھنو کا سفر کوئی آسان نہیں تھا، اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے تھے، آپ یہاں سے نکل کر پہلے کٹپاڈی اسٹیشن پر اتر ے اور پرنامپٹ میں حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ کے خلیفہ اجل  مولانا محمد بشیر علیہ الرحمۃ سے دعا لینے کے لئے پہنچے، ، مولانا بختیاری کو آپ سے خلافت  حاصل تھی۔ یہاں سے مدراس اور جھانسی ہوتے ہوئے ایک لمبے سفر کے بعد لکھنو پہنچے۔

یہ مولانا ابو العرفان جونپوری ندوی کا دور اہتمام تھا، پنج سالہ  خصوصی درجے میں داخلہ ہوا، جس کے لئے انگریزی کا امتحان مہتمم صاحب نے خود لیا تھا۔

ندوے میں اس وقت کرناٹک کے طلبہ میں  سے بھٹکل کے چند طالب علم پائے جاتے تھے، جن میں مولانا محمد فاروق قاضی ندوی(سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ ) نمایاں تھے، وہاں ان دونوں کی خوب جوڑی جمی، دوسرےبھٹکلی رفقاء میں مولانا عبد المجید ملپاندوی، مولانا محمد اقبال گیما ندوی، مولانا محمد تقی قاضی ندوی، اور بنگلور  وآس پاس کے طلبہ میں مولانا محمد بشیرندوی، اور مولانا محمد یوسف بن شہاب الدین ندوی قابل ذکر ہیں، ایک سال بعد مولانا محمد اقبال ملا ندوی(سابق چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل) ، مولانا محمد غزالی خطیبی ندوی، مولانا محمد صادق اکرمی ندوی، مولانا محمدمحسن ندوی بھی  اس قافلے میں شامل ہوئے۔

یہ مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ کی دور نظامت کے ابتدائی ایام تھے، اور ندوےنے تبلیغی کام پر زیادہ توجہ دینی شروع کی تھی، مولانا فاروق کے ساتھ آپ نے یہاں پر تبلیغی دوروں میں کافی وقت لگایا اور  بڑی محنتیں کیں،

آس پاس کے علاقوں میں علماء واکابر کی خدمت میں حاضری بھی ہوتی رہی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی، مولانا عبد الباری ندویِ مولانا منظور نعمانی،مولانا عبد الماجد دریابادیؒ،  مولانا ابرار الحق ؒ(ہردوئی) ، مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ جیسے اکابر کی خدمت میں حاضری کا بھی خوب موقعہ ملتا، حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ  کی صحبت میں بھی کچھ وقت گذارا، اور ماہ رمضان المبارک آپ کی رفاقت میں گذارنے کا اہتمام کیا۔

اس دوران حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے سلسلے کے ایک بزرگ مولانا عبدا لرب صوفی(اناؤ) نے،  جو کہ انگریزی و ہندی کے بڑے ماہر اور  برطانوی دور کے گولڈ میڈلسٹ تھے ، حضرت مولانا علی میاںؒ سے فرمائش کہ کہ وہ ایک فارسی تصنیف حق الیقین کا اردو میں ترجمہ کرنے کے خواہشمند ہیں، لیکن ان کی عمر اور ضعیفی اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے، آپ کے پاس اگر کوئی فارسی جاننے والا طالب علم ہو تو اسے بھیجدیں، اس کام کےلئے حضرت مولانا نے آپ کو منتخب کیا، تو آپ اس کام کے لئے جمعرات کی شام اناؤ جاتے جو بس پر ڈیڑھ گھنتے کا راستہ تھا، اور سنیچر کی صبح وہاں سے لوٹتے، اور ان دیڑھ دنوں میں صوفی صاحب کو آپ فارسی کتاب کی عبارت سناتے، اور آپ اسے سن کر اس کا ترجمہ اردو میں لکھتے جاتے۔

ندوے میں آپ کو شیخ الحدیث مولانا عبد الستار اعظمیؒ، مولانا عبد الحفیظ بلیاوی(مصنف مصباح اللغات)، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی،استاد تفسیر مولانا سید نور الحسن، مولانا برہان الدین سنبھلی، مولانا ناصر علی، اور مولانا وجیہ الدین جیسے اساتذہ وقت سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔

آپ کے والد ماجد اس وقت تک دیوبند وندوے کے سلسلے میں بہت سخت معاندانہ موقف رکھتے تھے، وہ  ندوے والوں کو کافر سمجھتے تھے، اور آپ کے یہاں تعلیم پانے پر نالاں تھے، لیکن جب آپ نے یہاں کا ایک بار دورہ کیا، اور یہاں کے بزرگوں حضرت مولانا علی میاں وغیرہ سے ملاقات کی تو ان کا دل صاف ہوگیا، اور آپ سے وہ راضی ہوگئے۔

مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاریؒ اور مولانا ابو السعود احمد باقویؒ جب مجلس شوری کے اجلاسوں میں شرکت کی غرض سے ندوے تشریف لاتے تو ان کی خدمت کرنے کا آپ کو بھر پور موقعہ ملتا تھا۔

 1970ء میں ندوے میں ایک بڑی اسٹرائیک ہوئی تھی ، جسے ممبئی کے بیس طلبہ نے شروع کیا تھا، اور شہر کے چند شرپسندوں نے اسے ہوا دی تھی، اس میں لکھنو کے اخبارات نے اسٹرائیک  کی ہمنوائی کی تھی، اس موقعہ پر مولانا فاروق کےساتھ آپ نے بھی ان طلبہ کو سمجھانے اور اسٹرائیک سے روکنے کی بھر پور کوشش کی، ندوے کی مسجد میں اسٹرائیک کرنے طلبہ کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں ان دونوں حضرات نے بھی انہیں سمجھانے کے لئے تقریریں کی تھیں، جس کی مخبرین نے منتظمین کو جاکر خبر دی کہ یہ دونوں ان شر پسندوں کی قیادت کررہے ہیں، جس پر ان دونوں کا نام اس وقت ندوے سے خارج کردیا گیا تھا، لیکن اسٹرائیک ختم ہونے پر ان طلبہ سے پوچھ گچھ ہوئی اور حقیقت حال سامنے آئی تو پھر بڑے باعزت طریقہ سے ان دونوں کو ندوے میں واپس لے لیا گیا، اور اکابرین ندوہ کا ان پر اعتماد اور تعلق پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا۔

 1972ء میں آپ نے ندوے سے فضیلت مکمل کی، اور اس کے لئے شیح احمد الرفاعی پر عربی میں مقالہ تحریر کیا، جس کے لئے آپ کے رفیق مولانا فاروق صاحب نے جو اس وقت شام میں زیر تعلیم تھے، امام رفاعی پر دستیاب جملہ عربی مواد ارسال کیا تھا۔ یہ مقالہ بعد میں کویت میں سلسلہ رفاعیہ کے بزرگ اور موقر وزیر کی شیخ ہاشم یوسف الرفاعی کے ساتھ مشترکہ طور پر شائع ہوا۔ (جاری)