Moulana Jafer Masud Hasani Nadwi
مولانا جعفر مسعود حسنی ندویؒ
ایک مخلص معلم، داعی اور فکر کا داغ جدائی
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
اللہ کی ذات خالق ومالک ہے،وہ حی و قیوم ، علیم وخبیر اوردانا ہے۔
ابھی تھوڑی دیر قبل یہ خبر بجلی کی طرح گری کہ مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رائے بریلی میں ایک مصاحب کے ساتھ جاتے ہوئے سڑک کنارے بائک روک کر مفلر باندھ رہے تھے، کہ اچانک ایک سوفٹ ڈیزائر نے پیچھے سے ٹکر ماردی،مار اتنی سخت پڑی کہ مولانا نے وہیں دم توڑ دیا، اس خبر نے دل ودماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس اندوہناک خبر کو سننے کے لئے کان ہر گز تیار نہیں تھے۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ دنیا کی اس سرائے مین کوئی انسان مقررہ مدت سے زیادہ ایک لمحہ بھی کوئی رہنے کا روادار نہیں۔
آپ کا تعلق مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی کے خانوادے سے تھا، مورخہ 13 ستمبر 1965 کو تکیہ رائے بریلی، اترپردیش میں آپ نے آنکھیں کھولیں، آپ کے والد ماجد مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سابق عمید اللغۃ العربیۃ و معتمد تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنو ، حضرت مولانا علی میاں ندوی کے حقیقی بھانجے اور عربی زبان کے نامور ادیب اور صحافی تھے ۔
مولانا جعفر مسعود حسنی نے حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم اپنے وطن رائے بریلی میں حاصل کی، اس کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ عربی زبان وادب میں بھی مہارت پیدا کی، ندوہ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد 1986 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں ایم اے کیا، بعد ازاں 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ "جامعة الملك سعود" کے زیر اہتمام ٹیچرز ٹریننگ کا کورس مکمل کیا۔
آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس وتدریس سے کیا ، آپ نخاس لکھنؤ میں واقع ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔آپ کا اصل موضوع تفسیر وحدیث اور فکر اسلامی تھا ، اب تک آپ نے بے شمار ادبی ، فکری وتاریخی مقالات ومضامین لکھے ہیں، اپنے والد ماجد کی مورخہ ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء رحلت کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ کے عربی ترجمان پندرہ روزہ عربی جریدہ " الرائد " کے مدیر اعلی ( رئیس التحریر ) کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے ، آپ نے عربی اور اردو میں کئی ایک تصنیفات اور ترجمے یادگار چھوڑے، جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
.1في مسيرة الحياة ( حضرت مولانا علی میاں ندوی کی خودنوشت "کاروان زندگی" کا عربی ترجمہ )
.2الشيخ محمد يوسف الكاندهلوي ؛ حياته ومنهجه في الدعوة (محمد الحسنی الندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ )
.3الامام المحدث محمد زكريا الكاندهلوي ومآثره العلمية ( حضرت مولانا علی میاں ندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ )
.4دعوۃ للتأمل والتفکیر (دعوت فکر ونظر )
.5بصائر ( حضرت مولانا علی میاں ندوی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ)
اپنے والد ماجد کی رحلت کے بعد آپ مستقل طور پر دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تدریسی خدمات کے لئے یکسو ہوگئے تھے، اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سابق ناظم ندوۃ العلماء کی مورخہ ۱۳ اپریل ۲۰۲۳ء رحلت کے بعد جب مولانا سید محمد بلال حسنی ندوی صاحب کو ناظم ندوۃ العلماء منتخب کیا گیا ،تو پھر ناظر عام کی حیثیت سے آپ کی تقرری عمل میں آئی تھی ۔
اللہ تعالی نے آپ کو اپنے خانوادے کے دیگر بزرگوں کی طرح زہد ، وتقوی، سنجیدگی وتمکنت اور علمی وادبی ذوق کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کردیا تھا، اور صحیح معنوں میں آپ اپنے عظیم اسلاف کےعادات واطوار کی نمائندگی کررہے تھے۔
آپ نے اپنے تایا حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ کی دختر نیک اختر کے ساتھ اپنا گھر بسایا تھا، اور کتنی حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ مولانا رابع صاحب کے تینوں داماد مولانا سید محمد عبد اللہ حسنی ندویؒ، مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندویؒ، اور اب آپ، یکے بعد دیگرے عمر کی ساٹھ کی دہائی پار ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، خاندان کے بڑے بزرگوں کی رحلت کے بعد حسنی خاندان کے بزرگ کی حیثیت آپ کو حاصل ہوگئی تھی، اب اس چراغ کی روشنی بھی گل ہوگئی ہے، دیکھئے اللہ تعالی کن خوش نصیب افراد کے ہاتھوں میں اس بابرکت حسنی خانوادے کی باگ ڈور دیتا ہے۔
مرحوم ناظم ندوہ مولانا سید بلال حسنی دامت برکاتھم کے دست وبازو تھے، ایک ایسے وقت میں جب کے بڑے اٹھتے جارہے ہیں، اس عظیم ادارے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اور اس خالی جگہ کو پر کرنے کے کے لئے اللہ تعالی اور کس کو منتخب کرتا ہے۔
مولانا کی ہم سے اس طرح دائمی جدائی پر دل مغموم ہیں،لیکن مومن کا شیوہ ہے کہ وہ رضائے الہی پر راضی رہے، لہذا زبانیں فیصلہ خداوندی پر خاموش ہیں، آج مولانا مقصد تخلیق کی راہ میں اپنی زندگی نچھاور کرکے خالق حقیقی سے جاملے ہیں، کل ہمیں بھی اسی طرح اس دنیا سے واپس جانا ہے، خوش نصیب ہے وہ جس کی زندگی کے آخری لمحات بھی مقصد تخلیق کی راہ میں نچھاور ہوں۔
مولانا جعفر مسعود مرحوم ایک خاموش مزاج انسان تھے، اپنے والد ماجد جس طرح خود کو مٹانے میں دلچسپی رکھتے تھے، انہیں بھی شہرت اور اسٹیج کی زینت بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لہذا مولانا سے ہمیں ملاقات کے شاذ ونادر ہی موقع نصیب ہوئے، اس کا ایک سبب آپ کا ندوے میں قیام پذیر نہ ہونا بھی تھا، حالانکہ ہمیں مولانا سے ۱۹۸۰ سے ربط وتعلق تھا، جب کہ آپ ابھی عالمیت کے درجات میں زیر تعلیم تھے، اور اس کی وجہ تقریب یہ بنی کہ جب ہم نے اکابر کی مجالس کی ریکارڈنگس جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو جن شخصیات سے پہلے پہل ان کی حصولیابی میں تعاون کی درخواست کی ان میں مخدومی حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ بھی تھے، آپ کی خدمت میں پیش کردہ درخواست مولانا واضح صاحب تک پہنچی، اور آپ نے ایک خورد کی ہمت افزائی ضروری سمجھ کر اپنے فرزند ارجمند مولانا جعفر مسعود صاحب کو ان کی فراہمی کے کام پر لگا دیا، اور آپ کے توسط حضرت مولانا کی بڑی نادر ونایاب مجالس ہمیں دستیاب ہونے لگیں، مولانا سے یہ تعلق دو تین سال تک جاری وساری رہا، پھر آپ عرفانیہ سےمنسلک ہو گئے، اس دوران ہمارا ندوے یا رائے بریلی جانا ہوتا تو خواہش کے باوجود آپ سے ملاقات کے موقعے شاید وباید ہی مل پاتے، گزشتہ نومبر میں مولانا دبی آئے تھے توبڑی اچھی ملاقات رہی تھی ،مدت بعد ملنے کے باوجود بڑی اپنائیت اور محبت کا سلوک کررہے تھے، انہیں وہ پرانی باتیں اچھی یاد تھیں،اس وقت بھٹکل کے سید خلیل الرحمن مرحوم بقید حیات تھے، آپ کے گھر پر بھی ایک خوبصورت ملاقات رہی تھی، مولانا نے ہم سےندوےآکر طلبہ سے کتب بینی اور ذوق مطالعہ اور ان جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کی خاص طور پر دعوت دی تھی، ان شاء اللہ اب کبھی ہمارا ندوے جانا ہوگا تو وہاں مولانا نہیں ہونگے، ایک احساس محرومی ضرور ستائے گا، مولانا کا اس طرح اچانک اٹھ جانا ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے بڑا سانحہ ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں پروہ نسلیں تیار ہوتی ہیں، جو ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں، مولانا بنیاد کا پتھر تھے، جو دکھائی نہیں دیتا، لیکن جب وہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے تو پوری عمارت چرمرانے لگتی ہے۔ ہم تو اب صرف یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کا نعم البدل عطا کرے، اور جن شخصیات کے لئے مولانا دست وبازو کی حیثیت رکھتے تھے، انہیں اس سانحہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطا کرے، اور مولانا کی خالی جگہ کو پر کرنے کے اسباب پیدا کرے، اسی کے ہاتھ میں کائنات کی قدرت ہے، وہی کارساز ہے، اللہ تعالی مرحوم کے اعمال صالحہ کو قبول کرے، اور صدیقین وصالحین کے جلو میں آپ کو جگہ دے، اور درجات بلند کرے، آمین
2025-01-15