Moulana Amin Ahsan Islahi

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

01:17AM Sun 26 Nov, 2023

بات سے بات: مولانا امین احسن اصلاحی اور تدبر قرآن

تحریر: عبد المتین منیری

 

علم وکتاب گروپ پر ایک دوست کی جانب سے استفسار آیا ہے کہ:

((بندہ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تفسیر تدبر قرآن کے متعلق آپ کی راہ نمائی چاہتا ہے کہ یہ تفسیر کیا واقعی مولانا فراہی مرحوم کے قائم کردہ علمی اصولوں کے مطابق ہے؟))

ہماری رائے میں یہ سوال کسی ایک شخص کو مخاطب کرنے کے بجائے عمومی طور پر پیش کرنا زیادہ مناسب تھا، کیونکہ یہاں کئی   ایسے شہسوار ہیں جو ہم سے زیادہ علم اور تجربہ رکھتے ہیں، اور درس وتدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، اور انہیں ان امور سے ہم سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔

رہی بات مولانا امین احسن اصلاحی کی تو اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے دور میں تفسیر وحدیث کے دو چوٹی کے علماء مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا عبد الرحمن مبارکپوریؒ  (صاحب تحفۃ الاحوذی ) کے شاگرد تھے، لیکن انہیں فراہی کے شاگرد اور ترجمان کی حیثیت سے زیادہ پہچان ملی۔

جن علماء نے مولانا فراہیؒ کے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں تدریسی زندگی گذاری ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بجائے مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کو فراہی فکر کا نمائندہ مانتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ تدبر قرآن میں مولانا فراہیؒ کی فکر بھی پائی جاتی  ہے، لیکن اس میں جو کچھ ہے ان سب کوفراہی کی طرف منسوب کرنا اور اس کی بنیاد پر آپ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا درست نہیں، کچھ اسی طرح جیسے آج کل غامدی صاحب کے افکار کو فراہی اور اصلاحی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، غامدی صاحب کی بنیاد پر جس طرح اصلاحی صاحب پر کوئی حکم لگانا درست نہیں، اسی طرح اصلاحی صاحب کی بنیاد پر فراہیؒ پر کوئی حکم لگانا درست نہیں۔ ہمارے یہاں اس کی مثال میں انوارالباری کو پیش کیا جاسکتا ہے، مولانا احمد رضا بجنوری بڑے  جلیل القدر عالم دین ، مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے داماد اور مجلس علمی ڈابھیل کے رکن رکین تھے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود انوار الباری کے مندرجات کو شاہ صاحب کی طرف منسوب کرکے شاہ صاحب کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا، ہمارے مولانا شہباز اصلاحیؒ تدبرقرآن پر آج سے نصف صدی پیشتر اس وقت سے معترض تھے، جبکہ اس تفسیر کے ابھی چند اجزاء ہی چھپے تھے اور  اس کتاب کی چاروں طرف دھوم مچ رہی تھی،اوراس سے وابستہ علمی وفکری تنازعات کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔

ہماری یہ بساط نہیں کہ فراہی کے علم میں مین  میخ نکالیں، ہماری زبان سے یہ باتیں چھوٹے منہ بڑی بات ہوگی، لیکن اتنا کہنے میں حرج نہیں کہ ہمارے دل میں فراہی کا رعب ودبدبہ علامہ شبلی کی بعض تحریروں کی وجہ سے بڑی کم عمری ہی میں پڑا تھا، جمہرۃ البلاغہ پر علامہ کا تبصرہ بہت شاندار ہے، اس نے ہمیں پہلے پہل علم فراہی کا گرویدہ بنادیا تھا، کچھ مزید شعور آیا تو مولانا فراہیؒ کی جملہ تصانیف اس وقت کے ناظم دائرہ حمیدیہ اور ترجمان فکر فراہی مولانا بدر الدین اصلاحی مرحوم کے توسط سے منگوائیں، قرآنیات کے سلسلے میں آپ سے مراسلت بھی ہوئی، چونکہ جمہرۃ البلاغہ لیتھو پرنٹ پر چھپی تھی، لہذا بڑی مرعوبیت کے ساتھ کچھ سمجھے اور کچھ نہ سمجھے اسے پڑھ ڈالی،لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے جائزۃ القرآن الدولیۃ دبی نے اس کا بڑا خوبصورت اور شاندار ایڈیشن پیش کیا ہے،اسے پڑھنے کے بعد کتاب کے بارے میں ہمارا وہ تاثر باقی نہیں رہا ہے، جو علامہ شبلی کے تبصرے سے قائم ہوا تھا۔

۔ ہمارے حلقوں میں مولانا فراہی اور ان کے تلامذہ کی عربی دانی کی بڑی شہرت ہے، کبھی کبھار اس میں مبالغہ آرائی کا احساس ہوتا ہے،

یہ بات مولانا امین حسن اصلاحی پر بھی صادق آتی ہے،لیکن اسی حلقے کے ایک بڑے عالم دین مولانا جلیل احسن اصلاحی ندویؒ نے جنہوں نے پوری زندگی درس وتدریس میں گذاری ہے، مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کی طرح جنہیں بھی وہ شہرت ومقام نہ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے، مولانا جلیل احسن ندویؒ نے تقسیم سے قبل مصباح اللغات کے مصنف کے ساتھ مصباح العلوم بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا، مدرسۃ الاصلاح اور جامعہ الفلاح نے آپ سے برسوں فیض اٹھایا، زندگی رامپور میں آپ نے تدبر قرآن کی لسانی غلطیوں کا مواخذہ شروع کیا تھا،لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی مصنف اللہ کو پیارے ہوگئے، یہ نقد وتبصرہ  (۱۷۰ ) صفحات پر مشتمل ہے، اور سورہ اعراف تک کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اسے فراہی فکر کے ایک اور ترجمان مولانا نعیم الدین اصلاحی استاد تفسیر جامعۃ الفلاح نے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔

۔ مولانا امین احسن اصلاحی ، جماعت اسلامی کی تاسیس کے وقت سے اس جماعت کے ساتھ تھے، اور بھی کئی بڑے علماء ابتدا میں اس جماعت سے وابستہ ہوئے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ان شخصیات کی تھی جو بانی تحریک کی کسی ایک فکر سے متاثر ہوکراس میں شامل ہوئے تھے، لیکن ان کا پس منظر ،ماحول اور گھریلو تربیت آپ  سے مختلف تھی، لیکن مولانا امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی چند شخصیات ایسی بھی تھیں جو اپنے مزاج ، پس منظر اور فکر کے لحاظ سے جماعت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھیں،لہذا جب یہ جماعت سے الگ ہوئے تو اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے انہیں بڑے جتن کرنے پڑے، لہذا آئندہ زندگی میں جماعت اور بانی جماعت ان کی فکر پر مسلط رہے، کچھ اسی طرح کہ جب برصغیر تقسیم ہوگیا تو مملکت خداداد کے سیاست دانوں کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پاکستان کیوں ناگزیر تھا؟، سیدھے سادھے عوام کے ذہن میں یہ تاثر ڈالنا پڑا کہ تقسیم ہند کے بعد تو  پڑوس میں اسلام ختم ہوگیا ہے، جو مسلمان وہاں بچ گئے ہیں وہ تو اب  وہاں غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں، چونکہ تدبر قرآن لکھنے کا زمانہ جماعت سے علحدگی سے قریب کا زمانہ ہے لہذا اس میں جگہ جگہ تفسیر سے زیادہ رد عمل کا احساس ہونے لگتا ہے، اس سے تفسیر میں جگہ جگہ طوالت اور تکرار بھی ہوگئی ہے، حقیقت میں جب علمی اور فکری تحریروں میں رد عمل آجاتا ہے تو پھر اس میں اثر اور جوش  تو پیدا ہو جاتا ہے، لیکن ایسی تحریریں پائیدار نہیں ہوا کرتیں، جلد ہی اپنا وزن کھودیتی ہیں، کچھ یہی حال  عربی کی ایک تفسیر فی ظلال کا ہے، ہماری ملاقات ان  پرانے لوگوں سے ہوئی ہے جو اس کے مصنف کو اس زمانے سے جانتے تھے جب کہ یہ ابھی پابند سلاسل نہیں ہوئے تھے، اور مصطفی الباب الحلبی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اس تفسیر کو لکھنا شروع کیا تھا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فی ظلال  کے ابتدائی اجزاء کا اولین ایڈیشن علمی وفکری معیار اور سنجیدگی کے لحاظ سے زیادہ بلند ہے، بعد میں جیل کی کال کوٹھری نے رد عمل اور جذبات کی شدت پیدا کرکے جس نے اس کے علمی معیار اور سنجیدگی کو متاثر کیا ہے۔

۔ مولانا اصلاحی نے حدیث شریف ایک عظیم محدث سے پڑھی ہے، لیکن آپ کے فہم حدیث پر خود ساختہ درایت حاوی ہوگئی ہے، جس نے انہیں منکرین حدیث سے قریب تر کردیا ہے، کتنے تعجب کا مقام ہے کہ الشعر الجاہلی جس کے استناد پر شک کے بادل چھائے ہوئے ہیں، یہ اشعارمولانا کے یہاں کہیں کہیں ثابت شدہ احادیث سے زیادہ معتبر نظر آتے ہیں۔

۔ ایک عالم دین کے  لئے مطالعہ اور کتب بینی کے  ساتھ ساتھ عملی زندگی سونے پر سہاگہ کا کام دیتی ہے، اور دعوت دین کے طریقہ کار کوسمجھنے کے لئے ایک عالم دین کی کھلی آنکھوں کے ساتھ مختلف اجتماعی  وجماعتی کاموں میں شرکت مفید ہوا کرتی ہے، جو حضرات صبح وشام صرف درس وتدریس اور کتب بینی کے ماحول میں بند رہتے ہیں، اوربال بچوں، اڑوس پڑوس اور معاشرے سے کٹے ہوئے رہتے ہیں، وہ انسان کی نفسیات کو بھر پورانداز سے احاطہ نہیں کر پاتے، ان کے اقوال زرین کی حیثیت زیادہ تر خوبصورت نظریات  کی حدوں تک رہ جاتی ہیں، عملی زندگی سے ان کا سروکار نہیں ہوا کرتا، اجتماعی کاموں اور نظریاتی جماعتوں سے ایک محدود حد تک وابستگی تجربات اور مشاہدات کے در کھولتی ہے، یہاں ہمیں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل سے سابقہ پڑتا ہے، جن میں دین کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہوتا ہے، ان کا اپنا  ایک جدا ماحول اور نفسیات ہوتا ہے، جنہیں ہم درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے، دعوت دین اور اس کی نفسیات کو وہی لوگ جامعیت کے ساتھ سمجھ پاتے ہیں، جنہیں اجتماعی زندگی  سے بھی سابقہ پڑا ہے۔

ہمارے ایک بزرگ تھے، مولانا نثار احمد مرحوم، مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں تھے، لیکن جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، ان کے درس قرآن کے موضوعات دعوت دین اور تزکیہ نفس کے اطراف گھومتے تھے، سیدھے سادھے انداز میں ایسا درس دیتے تھے جو دل پر اثر کرتے، وہ کہا کرتے تھے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ''دعوت دین اور اس کا طریقہ کار'' اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے، مولانا دوبارہ ایسی کتاب نہیں لکھ سکتے، تدبر قرآن پڑھتے وقت اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ قرآن کتاب دعوت ہے، اور اس موضوع پر مولانا نے اس تفسیر میں جو موتی بکھیرے ہیں، یہ اپنی مثال آپ ہیں، خاص طور پر اس زاوئے سے آپ نے کتب سابقہ سے جو عبارتیں اور شواہد پیش کئے ہیں، اس کا جواب نہیں، مولانا اصلاحی کے علاوہ دوسرے علماء ومفسرین نے بھی کتب سابقہ سے استفادہ کیا ہے، ان کے پیش کرنے کا انداز خالص علمی یا تحقیقی ہے، لیکن مولانا اصلاحی نے کتب سابقہ کی آیات کو جس انداز سے پیش کیا ہے، وہ  جیتا جاگتا لگتا ہے۔

یہاں ایک بات یاد آئی کہ قرآنی موضوعات پر کئی ایک فہرستیں آئی ہیں، جن میں فرنسی مستشرق جول لابوم کی تفصیل آیات القرآن الکریم کافی مشہور،اور اپنے موضوع پر بہت ہی مفید، کہتے ہیں شیخ محمد عبدہ جب تفسیر قرآن بیان کرتے تھے  تو ایک موضوع سے متعلق آیات قرآنی  کو یکجا بیان کرتے تھے، جس سے سامعین آپ کے حافظے پر عش عش کر اٹھتے تھے، بعد میں پتہ چلا کے شیخ محمد عبدہ یہ کتاب جو اب تک صرف فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی پیرس سے لے آئے تھے، اس سے دوسرے علماء ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے۔علمی وتحقیقی موضوعات کے لئے تو یہ کتاب ٹھیک ہے، لیکن جب دعوتی موضوعات کی بات آئے گی، تو چونکہ مرتب کا قرآن اور اس کی دعوت پر ایمان ہی نہیں ہے، تو یہ کتاب بالکل پھیکی نظر آئے گی، اس کے مقابلے میں تفہیم کی ایک فہرست موضوعات قرآنی کے نام سے چھپی ہے، مرتب ہیں عرفان خلیلی اس میں دعوت سے متعلق موضوعات کو دیکھئے، اور اس قسم کی دوسری فہارس کا موازنہ کیجئے، اس زاوئے سے  ان میں بین فرق نظر آئے گا۔ یہی بات حدیث کی ایک عظیم موضوعاتی فہرست مفتاح کنوز السنۃ کے ساتھ بھی وابستہ ہے، ڈچ مستشرق وینسک اس کا مرتب ہے، لیکن دعوتی موضوعات کی روح اس میں بھی ناپید ہے۔

۔ ہماری رائے میں الکمال للہ والی بات تمام کتب تفسیر کے ساتھ لگی ہوئی ہے، ایک طالب وعالم کو ان میں اپنی مطلوبہ تمام چیزین یکجا نہیں ملتیں، سر چھپتا ہے تو پیر کھل جاتا ہے، پیر بند ہوتا ہے تو سر کھل جاتا ہے، ہر مشہور تفسیر میں کچھ ایسے ضروری نکات مل جاتے ہے، جو دوسرے میں نہیں ملتے، لہذا تدبر ہو یا کوئی اور تفسیر ہر ایک سے ایک ایک صاحب فہم اور عالم دین کو استفادہ کرنا چاہئے، لیکن کسی ایک تفسیرکے مطالعہ پر انحسار نہیں کرنا چاہئے، موازناتی مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے، اس سے بات ذہن میں نہایت پختہ ہوجاتی ہے۔

۔ پہلے ہم نے کسی کالم میں تذکرہ کیا ہے کہ دبی میں ہمارا ایک اسٹدی سرکل ہوا کرتا تھا، آج سے چالیس سال قبل اس میں ہمارا مطالعہ تفسیر کا ایک حلقہ تھا،جس میں پہلے یہاں صرف تفہیم کا مطالعہ ہوتا تھا، پھر ہم نے اسے ایک موازناتی مطالعہ میں تبدیل کیا، جس میں ساتھیوں کے ہاتھ میں ایک ایک تفسیر ہوا کرتی تھی، اور ساتھی ایک ایک آیت کی تفسیر ان کتب تفاسیر سے بلند آواز سے پڑھتے، اس کا بہت فائدہ ہوا، ایک ہی آیت کی تفسیر مختلف انداز کی تفسیروں سے، ترجمے کا فرق اور تسامحات کا اندازہ بہ آسانی ہوجاتا تھا،سنا ہے اسے بعد میں کئی ایک جگہوں پر اپنایا گیا ہے،  ہمارے طلبہ اور علماء میں اس طرح کے مطالعہ تفسیر کے حلقے منعقد کرنے چاہئیں۔ واللہ ولی التوفیق۔

2023-11-25