Mohammad Miran Sada - ek Mukhlis Dai Wa Karkun

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

02:30PM Sat 28 Oct, 2023

 مورخہ ۱۱ اکتوبر کی صبح ویلفیر اسپتال میں جناب محمد میراں سعدا سے ملنا ہوا تھا،اس وقت وہ مکمل طور پر ہوش وحواس میں تھے، وہ ہمیں بتارہے تھے کہ ڈینگو بخار آکر چلا گیا ہے، اب بخار کے بعد کی کچھ کمزوری باقی رہ گئی ہے، ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گی، ان کی باتوں سے کہیں سے بھی معلوم نہیں ہورہا تھا کہ موت ان کے اتنے قریب آگئی ہے، اور وہ ہم سے اتنی جلد ہمیشہ کے لئے رخصت ہونے والے ہیں،اس دوران ہمارا چار پانچ روز دہلی واطراف کا سفر ہوا، واپسی پر معلوم ہوا کہ منگلور اسپتال میں داخل کئے گئے ہیں، ابھی ملاقات کے لئے جانے کا ارادہ بن ہی پارہا تھا کہ ۲۳ اکتوبر کی صبح اس خبر پرآنکھ کھلی کہ میراں سعدا صاحب اب ہم میں نہ رہے، وہ اس آخری سفر پر روانہ ہوگئے تھے، جہاں سے کوئی اس دنیا میں واپس نہیں لوٹتا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ نے اس دار فانی میں عمر عزیز کی ( ۷۸) بہاریں دیکھیں۔

میراں صاحب سے ہمارے تعلقات  (۴۳ ) سال پر محیط تھے۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات دبی میں سنہ ۱۹۷۹ء میں ہوئی تھی، جب ہمارا تلاش معاش کے لئے وہاں جانا ہوا تھا، اس وقت وہ راشد اسپتال دبی میں فائلنگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ تھے، خوش پوشاک اور خوش اندام، وہ اپنی عمر سے بہت کم نظر آتے تھے،اس زمانے میں ان کے ایک اور عزیز محمد قاسم سعدا مرحوم بھی انہی کے شعبے وا بستہ تھے، اور یہ دنوں دوست سے زیادہ اپنی وضع قطع میں بھائی لگتے تھے۔ دونوں دعوتی اور فکری مزاج کے مالک تھے۔

یہ دبی میں ہمارے مشفق صدیق محمد جعفری مرحوم کا دور شباب تھا، اس وقت برصغیر کے دینی و سماجی حلقوں میں آپ کی بڑی دھوم تھی، آپ کے تعلقات کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا، جعفری صاحب کے تعلقات دبی اوقاف کے سابق ڈائرکٹر جنرل شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم سے بڑے گہرے تھے، جنہوں نے اردو دانوں میں مختلف دینی دعوتی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے مدرسہ احمدیہ ، الراس دبی کی پرانی عمارت میں آپ کی فرمائش پر ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا،جس میں ایک دارالمطالعہ قائم کیا گیا تھا، جہاں روزانہ انقلاب بمبئی، جسارت کراچی اور خلیج ٹائمز وغیرہ اخبارات آتے تھے، اور علاقے کے بھٹکلی اور دوسرے اردو داں حضرات استفادے کے لئے یہاں آتے تھے، یہاں ہفتہ وار درس قرآن واجتماعات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اور کتابوں کی ایک لائبریری بھی تھی، اس نظم کو جمعیت تربیت اسلامی کا نام دیا گیا تھا۔

ابتدائی دنوں میں ہمارا قیام بر دبی میں جعفری صاحب کے اسٹاف روم میں ہی میں تھا،انہوں ہی نے شیخ عبد الجبار الماجد سے ہماری ویزا کا بندوبست کیا تھا، اس طرح جعفری صاحب کے ذریعہ اس حلقے سےہمارے تعلقات استوار قائم ہوگئے، اور یہ تعلق ۱۹۸۸ء تک قائم رہا،  اور جب ہم نے محسوس کیا کہ اپنی جدو جہد کو کسی مخصوص نظریاتی حلقے تک محدود کرنے کے بجائے اسے عمومی ہونا چاہئے تو پھر اس نظم سے ہم نے علحدگی اختیار کی۔

لیکن میراں صاحب اور دوسرے بعض احباب  سے ذاتی تعلقات باقی رہے، وطن حاضری پر ان سے ملاقات کا سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹنے پایا۔

یہاں یہ بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دبی آنے سے پہلےہماری زندگی  کے پانچ سال جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس میں گذرے ، اس دوران مصر وغیرہ سے ایسے مجلات آتے تھے جن میں چوٹی کے عرب خطیبوں کے کیسٹوں کے اشتہار ہوتے تھے،ہماری خواہش ہوتی تھی کہ اس قسم کا کوئی سلسلہ اردو میں بھی ہونا چاہئے،  ۱۹۷۶ء میں حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد پر چار بیانات ہوئے تھے، جنہیں ریکارڈ کرنے اور ان میں سے مکتب جامعہ کے سنگ بنیاد کے بیان کو تحریر کی شکل میں لاکر اسے اخبارات میں دینے کا شرف اس ناچیز کوحاصل ہوا تھا،پھر دبی آنے کے بعد یہاں کے بعض ایسے دینی مراکز میں جانے کا موقعہ ملا ، جن سے عرب نوجوان وابستہ تھے،اور یہاں سے ہر ہفتہ ہزاروں تقاریر کے کیسٹ ریکارڈ ہوکر تقسیم ہوتے تھے، اس سے اس تمنا کو مزید مہمیز ملی، اور ہم نے میراں صاحب سے اس کا تذکرہ کیا اور ہمارے درمیان طے پایا کہ دینی وعلمی مجالس کی حصولیابی، ان کی ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ کی ذمہ داری اس ناچیز کی ہوگی، البتہ مارکیٹنگ اور پھیلانے کی ذمہ داری ہم سے  ممکن نہیں ہوگی، تو آپ نے ہمت دلائی کہ یہ دوسرا کام میں اپنے ذمہ  لیتا ہوں، اس طرح پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے نام سے دینی وادبی اردو کیسٹوں کے سلسلے کا ۱۹۸۰ء میں آغاز ہوا،چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا، اور ہمارے پاس مواد کی کمی تھی، لہذا *ہم نے اس زمانے میں دنیا بھر کی شخصیات اور اداروں سے مراسلت شروع کی، مولانا قاری محمد طیبؒ اور مولانا سید ابو الحسن ندویؒ جیسی شخصیات کوان کی ریکارڈنگس کی فراہمی کے لئے  خطوط لکھے، اس سلسلے میں خصوصیت سے ندوۃ العلماء لکھنو سے مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ سے بڑی ہمت افزائی اور تعاون ملا*، مولانا خلیل احمد حامدیؒ مدیر ادارہ معارف اسلامی لاہور نے جب ہمارے کام کو دیکھا توانہیں یہ بہت پسند آیا اور اپنا ایک ادارہ الابلاغ لمیٹڈ  کے نام سے قائم کیا اور وہاں سے پیغام قرآن کیسٹ سیریز کا سلسلہ جاری کیا، جوانی کے دن تھے، کام کرنے کی ایک دھن تھی، رات گئے دو دوبجے تک کام کرتے تو وقت کا پتہ نہیں چلتا تھا، اسی زمانے میں شیخ علی باجابر، شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی، اور شیخ عبد الرحمن السدیس نے  پہلے پہل حرم مکی میں تراویح اور صلاۃ اللیل کی امامت شروع کی تھی، بھٹکل ریسٹورنٹ کے سامنے ایک عمارت کی تیسری منزل پررمضان کے آخری عشرے میں ٹیلیویژن سے ان کی روح پرور امامت کی ریکارڈنگ کے لئےرات دو بجے ہم ساتھ بیٹھتے،اور ان کی رکارڈنگ کرتے، اس طرح محنت کرکے اس ریکارڈنگ سے مصحف مرتل کی شکل میں اجزاء کو ترتیب دیا گیا ، ہماری معلومات کی حد تک اس زمانے میں سعودیہ میں بھی نمازوں سے تلاوت محفوظ کرکے مکمل مصحف کی شکل دینے کا تصور نہیں تھا، *اس طرح ۱۹۸۸ء تک اس ناچیز نے پیغام اسلام کیسیٹ سیریز کے ابتدائی چار سو دس  (۴۱۰ )کیسٹ ترتیب دئے،ان تمام کیسٹوں میں تاریخوں کے اہتمام کے ساتھ ہماری اناؤنسمنٹ اب بھی سنی جاسکتی ہے*۔ اس وقت ہمارے ایک کرم فرما عرب دوست شیخ ابو بکر مدنی نے آڈیو ایڈیٹنگ کے لئے ایک قیمتی شارپ کا ڈبل کیسٹ ریکارڈر فراہم کیا تھا، اور ہم لوگوں نےجمعیت بچت اسکیم میں جمع شدہ  پونجی  سے اسپیڈ رکارڈنگ مشین کی خرید کی گئی تھی، اس زمانے میں محتشم عبد الرحمن جان صاحب ہمارے رفیقوں میں تھے،اور ان چیزوں کی ہمت افزائی کرتے تھے، آپ کے توسط سے ہانگ کانگ سے سونی کی سپیڈ رکارڈنگ مشین ۱۲ ہزار درہم میں منگوائی گئی تھی، جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔

مورخہ ۲ اگسٹ ۱۹۸۲ء مولانا محمد یوسفؒ سابق امیر جماعت کی دعا سے پیغام اسلام ویڈیو کیسٹ سیریز کا آغاز ہوا، ان کے حصول کے لئے بھی وہی کوششیں ہوئیں جو آڈیو کیسٹوں کے حصول کے لئے کی گئی تھیں، *اس سلسلے کے ابتدائی ایک سو ( ۱۰۰) ویڈیو کیسٹ بھی اس ناچیز کے تیار کردہ ہیں*، اس زمانے میں ویڈیو کیسٹوں کی نمبرنگ ایک مشکل کام تھا، اس کا حل اس طرح نکالا گیا کہ ایک خوبصورت کیلنڈر منتخب کیا گیا، جس کی چوکھٹ بڑی بڑی خوبصورت تھی، درمیان سے عبارتوں کا حصہ کاٹا گیا، اللہ سلامت رکھے ہمارے دوست محمد ناظم محتشم منڈے ،  مارکر سے ہر ویڈیو کیسٹ کے لئے تین تین ٹائٹل لکھتے تھے، ایک دیوار پر اس کیلنڈرکی چوکھٹ کو چسپان کیا جاتا، اورتحریر کردہ ٹائٹل اس میں داخل کیا جاتا، جس سے چوکھٹ کے درمیان صرف ٹائٹل نظر آتا، اور پھر اسے ویڈیو پر ریکارڈ  کرکے پوس کیا جاتا، ٹائٹل کومزید دلچسپ بنانے کے لئے پس منظر میں ایک عربی نظم  (قرآننا نور یضیء طریقنا ) کے ابتدائی اشعار شامل کئے جاتے، اس زمانے میں جب آلات دستیاب نہیں تھے، جس خوبصورت انداز سے ان ویڈیوز کوتیار کیا گیا تھا انہیں دیکھ کرآج حیرت ہوتی ہے۔ اس سلسلے کے ابتدائی ایک سو ویڈیوز پر جہاں بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے پیغام اسلام ویڈیو سیریز پر یہ ٹائٹلس نظر آتے ہیں، یہ سبھی ہمارے ترتیب کردہ ہیں۔

اس کام کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لئے،ہم نے جمعیت کو اوقاف دبی میں رجسٹرڈ کروانے کی کاروائی کی، پھروزارۃ الاعلام سے بھی اس کے لئے لائسنس لیا گیا، لیکن ہماری علحدگی کے کچھ عرصہ بعد یہ جمعیت ختم ہوگئی، اور ہمارے ترتیب کردہ جملہ آڈیوز اور ویڈیوز میراں صاحب کی تحویل میں رہ گئے،جسے انہوں نے ذاتی طور پر حفاظت سے رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ اور جب مرکز اسلامی ہند کے نام سے ایک حلقہ قائم ہوا تو اس سے وابستہ ہوکر یہ کام جاری رکھا۔بھٹکل آنے اور نظم سے علحدگی کے بعد انہوں نے انفرادی طور پر ایک یوٹیوب چینل بھی قائم کیا، جس میں ہماری ترتیب کردہ اور اپنی کوششوں سے اضافہ کردہ ویڈیوز بھی شامل کیں۔

جمعیت سے وابستگی کے دوران ہمیں شدید احساس تھا کہ ہمارے لکھنے پڑھنے کا وقت کیسٹوں کی نذر ہورہاہے، تو پھر ہم نے ہمارے تعلیمی معیار میں جو خامیاں رہ گئی تھیں انہیں دور کرنے پرزیادہ توجہ دی،اجتماعی زندگی سے بھی وابستہ رہے، علماء و مشاہیر پروگراموں کی ریکارڈنگ ،آڈیوز اور ویڈیوز اکٹھا کرنے کا سلسلہ مزید چند سال جاری رکھا، *میراں صاحب اس دوران ہمارے ریکارڈ کردہ کیسٹ ہم سے لیتے رہے*، ان میں سے اچھے خاصے کیسٹ آپ کے چینل پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن *جب ہم نے ۲۰۰۲ء میں بھٹکلیس ڈاٹ کام شروع کیا تو ڈبلیکیشن سے بچنے کے لئے ہمارے ان ترتیب کردہ ان میں سے دو چار ہی کیسٹ بھٹکلیس پر شامل کئے*، چونکہ ایک دینی حلقہ دوسرے حلقوں سے  اپنے دینی ودعوتی مواد کی اشاعت کو پسند نہیں کرتا،اسے دعوت کی اشاعت سے زیادہ کریڈٹ لینے کی فکر رہتی ہے، اور چونکہ ہمارے پاس اتنا مواد موجود تھا جسے ہم بیس سال سے مسلسل اپلوڈ کرنے کے باوجود اب بھی ختم نہیں کرسکے ہیں تو پھر جمعیت کے دور میں ہمارے تیار کردہ کئی سارے مواد کو بھٹکیس سے ڈیلیٹ کرنا ہی مناسب سمجھا۔

 محمد میراں مرحوم ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ایک زمانے میں بھٹکل مزارات کا مرکز ہوا کرتا تھا، قاضی محلہ میں آپ کے گھر میں خود ایک پایا جاتا تھا، یہ سعدا خاندان کا پشتینی گھر تھا، آپ کے والد منگلور بندر پر اپنے بھائیوں کے ساتھ تجارت میں شریک تھے، ان کی وہاں دکانیں تھیں، جب بٹوارہ ہوا تو آپ کے والد کے حصے میں یہ گھر آیا تھا۔

آپ کے والد ماجد پرانی طرز کے بڑے مذہبی انسان  تھے، اطمئنان و سکون سے نماز پڑھنے کے تعلق سے مذہب شافعی کی طرف جو مسائل منسوب کئے جاتے ہیں، آپ اس کا نمونہ تھے، اس انداز سے وضو کرتے اور نمازیں پڑھتے بارہا ہم نے دیکھا ہے۔

بھٹکل میں رائج نظام کے تحت محمد میراں مرحوم کی ابتدائی قرآنی قاعدہ اور ناظرہ کی تعلیم گھر کے مقابل واقع مدرسہ صالحہ میں ہوئی تھی، جہاں ایک زمانے میں مولانا محمد اسماعیل اکرمی ( دھاکلو بھاؤ خلفو)، اور مولانا ابوبکر خطیبی (اوپا خلفو ) مرحوم پڑھایا کرتے تھے۔ بقیہ اسکول اور کالج کی تعلیم آپ نے منگلور میں پوری کی، چونکہ اس زمانے میں کامرس کی اعلی تعلیم کا نظام سنیٹ ایلوشیش کالج میں ہی  تھا، تو آپ نے یہاں سے بی کام مکمل کیا، اور پھر اپنے والد کے کاروبار سے کچھ عرصے کے لئے وابستہ ہوگئے، اور تریچور تا ممبئی نیشنل ہائی وے  (۱۷ ) کے نتیجے میں منگلور بندر کی تجارت جب ماند پڑگئی، تودوسرے لوگوں کی طرح آپ کے والد کا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا۔  

۱۹۷۰ء کے آغاز تک منگلور بندر کا علاقہ بھٹکلی تاجروں کا ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا، ان کی بہت ساری دکانیں یہاں پر قائم تھیں، اب ان کا وجود ختم ہوگیا ہے، اس زمانے میں یہاں کی کچھی میمن مسجد ایک اہم دینی مرکز ہوا کرتی تھی، پہلے اس کے امام مولانا محمد یوسف ہوا کرتے تھے جن کا تعلق ارض دکن سے تھا، ان کے انتقال کے بعد آپ کے شاگرد مولانا سید یوسف صاحب نے اس مسجد کی امامت اور خطابت کا منصب سنبھالا، آپ کا تعلق قریبی علاقے مڈبدری سے تھا، آپ فکری طور پر جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے، ہمارے استاد احمد نوری ماسٹر مرحوم وغیرہ آپ کے رفقاء میں تھے، کچھی میمن مسجد اردو زبان کی سرگرمیوں کا مرکز تھی، مولانا محمد یوسف ( مڈبدری) کی کوششوں سے کئی ایک بھٹکلی نوجوان جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہوئے، کرناٹک کے کنڑی زبان کے حلقوں میں جناب ابراہیم سعید وغیرہ نے جماعت کے کام کو جس طرح آگے بڑھایا اس میں مولانا سید محمد یوسف مرحوم کی تربیت کا بڑا اثر رہا ہے۔

محمد میراں مرحوم کو بھی ابتدائی زندگی ہی میں آپ کی صحبت مل گئی، اور ایک مشنری کالج میں تعلیم پانے کے باوجود ان کی زندگی میں خاندانی دینی روایات اور تحریک اسلامی کے اثرات پیوستہ ہوگئے، جو آخری عمر تک آپ سے جڑے رہے۔

جن لوگوں نے تحریک اسلامی کی پرانی شخصیات کو دیکھا ہے، وہ شہادت دیتے ہیں کہ ان میں اخلاص، نام ونمود سے بیزاری، معاملات کی درستگی، اور حلال وحرام کی تمییز، لٹریچر کی اشاعت کی جنون کی حد تک فکر نمایاں اوصاف ہوا کرتے تھے، میراں صاحب کا پالا بھی ابتدا میں ایسی ہی شخصیات سے پڑا تھا، اور ان کی زندگی میں بھی یہی اوصاف آخری حد تک سرایت کرگئے تھے۔

وہ ایک عبادت گذار اور کفایت شعار شخصیت رکھتے تھے، اپنے درون خانہ بھی آپ نے اسلامی تربیت کا خصوصی خیال رکھا، مالی دیانت اور معاملات میں شفافیت کے وہ آخری حد تک پابند رہے۔

ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ جب بھٹکل میں مقیم ہوئے تو آپ نے خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کے جنرل سکریٹری اور پھر سرپرست کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، وہ جماعت اسلامی ہند کے امیر حلقہ بھی منتخب ہوئے، لیکن جب اپنے وابستہ حلقے میں انہیں بے ضابطگیوں کا احساس ہوا تو انہوں نے جماعت کے نظم سے مکمل علحدگی اختیار کی، اسی دوران آپ نے اپنے ذاتی صرفہ اور کوششوں سے اپنے پاس محفوظ صوتی اور مرئی ذخیرے کی اشاعت کے لئے ایک چینل بھی شروع کیا۔ اب وہ اپنی رائے میں کہاں تک درست تھے اس کا فیصلہ کرنا ہماری ذمہ داری نہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک صاف وشفاف شخصیت کے مالک تھے، ایک ایسی شخصیت جن کا وجود تحریکات کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، اور طوفان باد وباراں کیسا ہی ہو وہ ان تحریکات کا قدم آگے ہی کی طرف لے جاتے ہیں۔

جس نظم سے ہم ۱۹۸۰ء کے عشرے میں آپ کے ساتھ وابستہ تھے، اس رفاقت کے چھوٹنے کو انہوں نے ہمیشہ محسوس کیا، لیکن آپ سے ہمارے ذاتی تعلقات میں اس دوران کوئی فرق نہیں آیا، اب جب کہ وہ دائمی سفر پر روانہ ہوچکے ہیں، گاہے بہ گاہے ان کی یاد آتی رہے گی، اور دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھتے رہیں گے،اور ایک داعی اور کارکن کا جو اعلی نمونہ ہماری نظروں سے گذرا ہے اسے آنکھیں تلاش کرتی رہیں گی۔ اللہ آپ کی مغفرت کرے، اور جنت کے اعلی مقامات میں انہیں جگہ دے۔ آمین۔

2023-10-28