مامتا کی یاد میں(۳) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ، بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:23PM Tue 13 Oct, 2020

اس وقت ہماری دنیا تکیہ محلہ تک محدود تھی ، تایا محی الدین منیری صاحب مرحوم ، زیادہ تر ممبئی میں رہتے ، قومی مصروفیات بھی ان کی زیادہ تھیں ، ان کا مکان بھی نوایت کالونی میں تھا ، جو اس زمانے میںشہر سے دور ایک الگ ہی بستی تھی ، آٹھ دس کلومیٹر کی دوری پر آپ کے مکان (غریب خانہ) تک پیدل ہی جایا جاسکتا تھا، ابھی نیشنل ہائی وے تعمیر نہیں ہوا تھا، چڑھائی آج کے مقابلے میں چھ فٹ زیاد ہ اونچی ہوا کرتی تھی ، لہذا شہر سے بس وغیرہ کی سواری زیادہ تر میسر نہیں ہوا کرتی تھی ، بس خوشی اور غمی کے موقعوں پر ان کے یہاں جانا ہوتا، وہ کبھی کبھار بھائی کے بچوں کو دیکھنے حافظ منزل آجا یا کرتے تھے ، منیری صاحب کے مزاج میں صلہ رحمی اور قرابت داروں کا خیال کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، لیکن اس وقت ہماری عمر اتنی نہیں تھی کہ آپ کی نظر ہم پر پڑتی ، جب خبریں مشہور ہوئی کہ اپنی شرارتوں سے گلی کا روڑا بن کر خاندان کی ناک کاٹنے کا سبب بن رہا ہوں تو والد اور تایاجان نے ممبئی سے وطن لوٹنے کے بعد اکٹھے مل کر خوب دھلائی کی ۔ اور والدہ کو ہدایت کی کہ مجھے غریب خانہ بھیجتے رہیں ، یادپڑتا ہے کہ جسمانی سزا کے رد عمل میں تایاجان سے دوری ہی کے جذبات اس وقت تک غالب رہے ، لیکن وہاں بھی بے بس ماں کی التجائیں پاؤں کی بیڑی بن گئیں ، اس کی ممتا کے سامنے ضد اور ہٹ دھرمی نے ہتھیار ڈال دئے ۔ اب ہفتہ ہفتہ اور چھٹیوں میں (غریب خانہ)جانے کا معمول شروع ہوا ،جس کے نتیجے میں ہمیں تایا محی الدین منیری مرحوم کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہوئی ، جو آئندہ زندگی میں ہمارے لئے مشعل راہ بن گئی ، اور بارہ گاہ خداوندی سے ملنے والا عظیم انعام بن گئی ۔منیری صاحب نے بھی ہمیں اپنی حقیقی اولاد کی طرح محبت دی ، جس سے زندگی کے مختلف پڑاؤ میں ہمیں کامیابی اور کامرانی نصیب ہوئی ۔ خاندانوں ، اعزاء و اقرباء کو جوڑے رکھنا ہماری والدہ کا طرہ امتیاز تھا ،وہ آپسی ملاپ ، محبت اور یگانگت فروغ دینے کے لئے اپنی آنکھ بند ہوتے تک کوشاں رہیں ، منیری صاحب بھی زندگی بھر ہماری والدہ کے اس وصف کے مداح رہے ، وہ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے، کبھی خاندانی معاملات میں اونچ نیچ ہوجاتی ،اور جوانی کے جوش میں ہماری جانب سے سخت رویہ سامنے آتا تو منیری صاحب اپنے بلندی اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ، ہماری والدہ کے پاس آتے اور کہتے کہ یہ خاندان ہماری زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔پرانی قدریں اب مٹ رہی ہیں ۔ ہماری زندگی میں ان پر آنچ آنے نہ دیں ۔زندگی کے آخری ایام میں اس موضوع پر وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوجایا کرتے تھے۔ ہماری والدہ کو زندگی بھر کبھی کسی کا احسان لینے ، کسی پر بوجھ بننے ، کسی سے کچھ طلب کرنے چاہے اپنی اولاد ہی سے کیوں نہ ہو خواہش نہیں ہوتی تھی ۔وہ ماں تھی اس کا کام اپنا سب کچھ نچھاور کرنا تھا ۔ ۱۹۶۹ء میری زندگی کا بڑا ہی طوفان خیز سال تھا، عمر کا تیرھواں چودھواں سال ، نفسیاتی طور پر ضد ، ہٹ دھرمی ، تعلیم سے بے رغبتی کا دوردورہ تھا ، جس کی وجہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ اخراج بھی ہوا،نتیجہ ظاہر ہے جامعہ کے نویں درجے ( عربی چہارم) میںتین پرچوں میں فیل ہوگیا۔ صورت حال یہ تھی ، مزید تعلیم جاری رکھنے کے اسباب دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے، ایک طرف والد صاحب کا حکم کے تعلیم چھوڑ نوکری چاکری سے لگ جاؤں، دوسری طرف ایک سال قبل ہونے والی ندوے کی اسٹرائک میں ہمارے بھی چند عزیز شریک تھے، میری شرارتوں کو دیکھتے ہوئے تایا مرحوم مزید بدنامی مول لینے تیار نہیں تھے، ویسے بھی عربی پنجم میں داخلے کے امکانات معدوم تھے، جس میں اسکالر شپ مل سکتی تھی، لیکن مزید تعلیم کی خواہش دل میں چھپی ہوئی تھی، ایسے میں منیری صاحب نے ہمیں اور والدہ کو بلایا کہ صورت حال سامنے رکھیں، وہ منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے، منیری صاحب غریب خانے کے ہال میں آرام کرسی پر بیٹھے تھے ، والدہ سامنے دائیں طرف نمازکے کمرے کے دروازے کے چوکھٹے پر کھڑی تھیں ، اور میں دبکا ہوا کھڑا اپنی قسمت کے فیصلے کا منتظر ، تایا مرحوم نے والدہ سے میرے اعلی تعلیم کے تعلق سے فیصلہ طلب کیا تو والدہ کا جواب تھا کہ مجھے اب اس بچے کے تنخواہ لاکر دینے کی ضرورت نہیںہے ، میں لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں گی ۔ ان کا یہی دوٹوک فیصلہ تھا، جس نے اس ناچیز کو آج اس مقام پر لاکھڑا کردیاہے ، آج بھی بار بار خیال ستاتا ہے کہ میں تو اس قابل نہیں تھا کہ زندگی میں کامیابیاں ملتیں ، نہ مدرسے میں دوران تعلیم محنت کی ، نہ عادات و اطوار ایسے رہے جو نیک بخت طالب علموں کے ہوا کرتے ہیں ، دوران تعلیم ساتھی طلبہ میں بھی اپنی کوئی نمایاں حیثیت نہیں تھی ، اسباب و وسائل کا فقدان تھا، اساتذہ کی شفقتوں اور محبتوں سے بھی محرومی اپنے حصے میں آئی تھی ، باوجوداس کے اللہ نے جس مقام تک پہنچایا اسے ناکامی ہرگز نہیں کہا جاسکتا ، یہاں ترقی کے ظاہر ی اسباب کے فقدان کے باوجود ایک بے بس اور مجبور لیکن اللہ پر توکل کرنے والی ماں کی آہ و مناجات سب پر بھاری نظر آئی ، کتنے خوش نصیب تھے ہم بھی جنہیں ایسی ماں ملی ۔ کیا کبھی اس کے احسانات کا بدلہ چکانا ہم سے ممکن ہوسکے گا؟، نہیں ہرگز نہیں،ایسی دس عمریں بھی مزید ملیں تب بھی نہیں ۔ آپ نے اس دنیا کی میں ستہتر بہاریں دیکھیں ، لیکن ہم نے آج سے پچاس سال قبل ان کی زندگی اور موت کی کشمکش کا ایک عجیب وغریب منظر بھی دیکھا ،آپ اس کی جو بھی توجیہ کریں ، لیکن یہ ہمارا چشم دید واقعہ ہے ۔ ۱۹۶۸ء میں آپ کو ایک عجیب بیماری لاحق ہوئی ، اکڑوں حالت میں آپ کا جسم جامد ہوگیا ۔ جبڑے بھی بند ہوگئے ، صرف ہونٹوں کے کناروں سےسوجی جیسی مائع اشیاء بطور غذا پیٹ میں جاسکتی تھیں ، بدن میں معمولی کاغذ اور ماچس کی تیلی تک پکڑنے کی سکت نہیں تھی ، اس وقت ہماری چچی زبیدہ مرحومہ حج سے واپس آئیں تھیں ، اور فورا ہی آپ کی مزاج پرسی کو آ پہنچی تھیں ، ہماری والدہ اشارے سے انہیں اپنی بے بسی بتانے جارہی تھیں کہ دیکھو کہ ایک کاغذ کا ٹکڑ ا تک اٹھایا نہیں جارہا ہے کہ فورا لڑھک گئیں ، آنکھوں کی پتلیا ںجم گئیں ، اور جسم ساکت ہوگیا ، کلمہ پانی ڈالا گیا اور بڑھی بوڑھیوں نے آپ کی موت واقع ہونے کا اعلان کردیا، اسے سن کر روتے دھوتے ہماری رشتے کے چاچا قاضی عبد القادر باشاہ خلفو پہنچ گئے ،مرحوم اپنے دور میں بھٹکل کے چنندہ عاملوں میں ہوا کرتے تھے ، آپ نے والدہ کو دیکھ کر آیتوں اوردعاؤں کا ورد شروع کیا ، تھوڑی دیر میں ہماری والدہ کو ہوش آگیا ، اس کے بعد وہ پچاس سال بقید حیات رہی۔ جہاں اب منیرآباد کو بڑی بڑی کوٹھیوں اور حویلیوں نے گھیر رکھا ہے وہاں ۱۹۷۰ء میں دس بارہ ایکڑ پرپھیلا ہوا میدان ہوا کرتا تھا، اس میں خال خال ناریل اور آم کے اور چہار ردیواری پر کاجو کے درخت لگائے گئے تھے ، لیکن عمومی طور پر زمین پتھریلی اورر بنجر ہونے کی وجہ سے اس قطعہ زمین پر بیابان کا شبہ ہوتا تھا، یہاں سے دائیں طرف مدینہ کالونی تک اور بائیں طرف قبرستان تک کا رقبہ جو کئی کلومیٹر پرپھیلا ہوا تھا ایک ویرانہ تھا،یہاں دن کی تمازت میں سانپ اور بچھو اپنے بلوں سے نکلتے تو رات میں جنگلی جانور گیڈر اور لومڑیوں کی آوازیں فضا کو خوفزدہ بنادیتیں ، کبھی راہ بھٹکتے شیر وں کا بھی یہاں سے گزر ہوتا تھا، یہاں ایک چھوٹی سی کٹیا میں جس کی چھت سر کو آلگتی تھی ، وہاں والدہ نے اپنے بچوں کے ساتھ اللہ کی حمد و شکر بجالاتے ہوئے چودہ سال گزارے ۔ ۱۹۷۵ میں جب میں جامعہ میں تدریس سے وابستہ ہوا تو تنخواہ کل {۲۰۰} روپئے ماہوار تھی ، اور کھانے والے والدین ، بہن بھائیوں سمیت جملہ {۹} افراد ، ننگی کیا پہنے گی کیا نچوڑے گی والی بات تھی ، ایسے میں اس کفایت شعار خاتون نے پورے کنبے کو کبھی بنیادی ضروریات سے محروم نہ ہونے دیا ، ہمیشہ کی طرح عزت مٹھی میں دبائے رکھی ، پھر اللہ نے ۱۹۷۹ء میں ہم پر دبی میں وسعت رزق کے دروازے کھول دئے ، اور آئندہ زندگی میں ایک پرسکون گھر میسر ہوا ، بچوں اور بچیوں کے گھر آباد ہوئے ، حج بیت اللہ اور عمرہ سے بھی نوازی گئیں ۔ تب بھی اس کے طرز زنگی اور رویہ میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ وہ دنیا کی طلب سے بے نیاز ہی رہیں ۔ کبھی اس نے اپنے بچوں سے اپنی ضرورتیں طلب نہیں کیں ، نہ اپنے لئے کبھی کچھ جمع کیا ، اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندہ رہنا اس کی اولین ترجیح تھی ۔ اللہ نے اسے صحت سے نوازا تھا ، شوگر ، کلوسٹرول جیسی بیماریاں زندگی بھر اس سے دور رہیں ۔ لیکن ابتدائی ایام میں مشین کی سلائی نے اس کی پاؤں کی رگوں میں درد پیدا کردیا تھا ، جس کا اثر زندگی کے آخر ایام تک رہا ، یہی ایک بیماری تھی جسے وہ جھیلتی رہیں ۔ وہ رات گئے کبھی جسم کے درد سے جاگتیں تو تلاوت اوراد اور نوافل و تہجد میں رات گزار دیتیں ، اس کی یہی شب بیداری اپنے ساتھ بے پناہ برکات اور دعائیں لے کر آئیں،جس نعمت سے آج ہم محروم ہوگئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اپریل اور مئی کی گرمی میں ایک چھتناور درخت جو دور دور تک ٹھنڈی چھاؤں دیتا تھا زمیں بوس ہوگیا ہے ، اور ہم دوپہر کی سخت تمازت بھری دھوپ میں کھڑے ہیں ۔ یہ قانون قدرت ہے ہر کوئی یہاں جانے کے لئے آتا ہے ، کوئی یہاں سے ایسے یہاں سے جاتا ہے کہ اس کا کوئی نام و نشان تک باقی نہیں رہتا ، لیکن کوئی دلوں پر ایسے نشان چھوڑ جاتا ہے جو دم واپسین تک جسم و روح میں پیوستہ رہتے ہیں ، آپ بھی انہیں برگزیدہ شخصیات میں سے تھیں ، کیسے ممکن ہے کہ زندگی کے پڑاؤ میں اس کی یاد نہ ستا ئے ، اور اس کے حق میں دست دعا بلند نہ ہوں ۔ وہ کوئی مشہورخاتون نہیں تھی ، لیکن اپنے کردار سے وہ عظیم تھیں ۔ اللہ اس کی مغفرت کرے اور اس کے درجات بلند کرے ۔ آمین 11-03-2017 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/