مامتا کی یاد میں(۲) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ، بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:26PM Fri 9 Oct, 2020

ابھی ان کی عمر کی (14) بہاریں بھی پوری نہیں ہوئی تھیں کہ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں ، زوجین کے نام کی مناسبت پربھی حیران نہ ہوں ،رقیہ اور عثمان کی جوڑی ، کتنا بابرکت نام خلیفہ راشد ذی النوریں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شریک حیات ، ہجرت حبشہ میں رفیق بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی تو رقیہ ہی تھا۔ شادی کے ایک سال کے اندر ہی اس بچی پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، والد ماجد کا سایہ عین جوانی میں سر سے اٹھ گیا ، مرحوم باپ نے اپنے پیچھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں یاد گار چھوڑیں ۔ بڑے بیٹے قاسم کی آنکھیں اسی سال جاتی رہیں ، بڑی بہن کی خانگی زندگی بھی ناآسودہ رہی ، چھوٹا بیٹا عبدا لرحمن چار سال سے بھی کم عمر کا اپنے والد کو شعور کی آنکھوں سے دیکھنے سے محروم رہا ، بھروسہ صرف اللہ کا ،آس پاس رشتہ داروں اور عزیزوں میں ایسا کوئی نہیں جو سرپر چادر ڈھانک دے ، رنج و الم اور بے بسی سے چور، کسی ظاہری آسرے سے محروم اس کنبے کے کون آنسو پوچھتا؟۔ کسی دنیاوی سایہ سے محروم ان بچوں کو نوعمر بیوہ ماں شہر بانو نے اپنی باہوں میں چھپا لیا ، خد اکے بعد وہی ان کے لئے سب سے بڑا آسرا بن گئی ۔ جس طرح چیل کے حملے سے بچانے کے لئے مرغی اپنے بازؤوں میںاپنے چوزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ بیوہ ماں بڑے ہی صبر وشکر کے ساتھ ان یتیموں پر سایہ فگن رہی ، کبھی عزت نفس کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ،نہ کبھی حرف شکایت زبان آنے دی ، نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ، گھر کا پرانا سامان بیچ باچ کر یا اڑوس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں کی چولیاں اپنی انگلیوں سے سی کر اور ان میں زری کاڑھ کر آنہ دو آنہ جمع کرکے خود آدھے پیٹ سو کر اپنے یتیم بچوں کا پیٹ پالتی رہی ، اس دور کی بپتا جب یاد آتی ہے تو ذہن و دماغ پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے ، اور اسے بیان کرتے ہوئے خود اپنی صداقت بیانی پر شک سا ہونے لگتا ہے ، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ایک ایسے بے آسرا کنبے کا کسی دن خالی پیٹ نہ سونا کیا کوئی کرامت نہیں ہے ؟ اس نیک بخت بی بی کو ہم سے رخصت ہوئے {۳۴} سال بیت رہے ہیں ، لیکن آج بھی جب اس کی یاد آتی ہے تو دعا کے لئے ہاتھ بلند ہو جاتے ہیں ، اور آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں ۔ شادی شدہ زندگی نے اس بچی کو کوئی زیادہ آسودگی نہیں بخشی ، خوش حالی اس وقت بھی دو قدم دور ہی رہی ، آج سے نصف صدی پیشتر بھٹکل کا ماحول کچھ ایسا ہی تھا، یہاں پر خوش حالی چند افراد تک محدود تھی ، ورنہ غربت اور بے کاری ہر طرف سایہ فگن تھی ، ایسے میں کوئی کسی کی کیا مدد کرتا ۔سبھی کا حال یکساں تھا، بھٹکل کے وہ محلے جو ندی سے قریب اور قصبے کے آخری سرے پر واقع تھے ، خاص طور تکیہ محلہ اور شاہد لی محلہ وغیرہ میں بسنے والوں کی حالت تو اس وقت کچھ زیادہ ہی خستہ تھی ، ایسے میں کوئی اپنے گھر ہی کو سنبھال پائے یہی غنیمت تھا ۔ بی بی رقیہ کے بطن سے نسل آدم فروغ پاتی رہی ، لیکن نان شبینہ نہ دارد ، ایسے میں اس خاتون نے بھی اپنی والدہ ماجدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، عزت نفس کی چادر اوڑھ لی ، اس عصمت مآب بی بی نے بھی اپنی اماں کے نقش قدم پر کبھی حرف شکایت سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا ،نہ ہی اپنے ناگفتہ حالات کی عزیز و رشتہ داروں کو کبھی خبر ہونے دی ، پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کیا کرتی رہیں ،کبھی اڑوس پڑوس کی ضرورت مند بیبیوں کو پردیس سے آنے والے خطوط سنا نے اور انہیں لکھنے کے کام آتیں،اس سے دو ایک آنے مل جاتے۔ پھر خود ہی سے دوسروں کو دیکھ دیکھ کر سینا پرونا سیکھا ، دو ایک محلے پار کرکے جامعہ محلہ میں اپنی ایک ہمدرد سکھی کے یہاں جاتیں اور اس کی سلائی مشین پر اڑوس پڑوس کے کپڑے سی دیا کرتیں، یہیں اس عزیز ہ کے شوہر کے دل میں انہیں اتنی دور سے سلائی کے لئے آتے دیکھ کرہمدردی کا جذبہ ابھر آیا، صدیق اسٹور کمٹہ سے ایک سستی سی سنگر سلائی مشین غالبا پچھتر روپئے کی قسطوں پر لاکر دی ، جس کا قرضہ انہوں نے پائی پائی کرکے چکا دیا ۔ خداہی جانتا ہے کہ اس قرض کی ادائیگی اور بچوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے انہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہونگے، کتنی ہی جان توڑ محنت انہیں کرنی پڑی ہوگی ، اس دور میں بھٹکل میں بجلی نئی نئی داخل ہوئی تھی ، اور یہ صرف مالداروں اور خوش حال گھروںتک محدود تھی ۔ محلے کے عام گھروں میں پچیس والٹ کے دو بلب بھی لگانا دسترس سے باہر تھا، حالانکہ الکٹرک بل ڈیڑھ دو روپیہ ماہانہ سے زیادہ نہیںآتا تھا، گھروں میں عموما گھپ اندھیرا رہتا ، ان میں روشن قمقموں کے بدلے مٹی کے تیل سے جلتی بجھتی بتی کی باریک لو ــ مدھم سی روشنی دیتی ، اسی میں سلائی کڑھائی بھی ہوتی اور سوئی کے باریک سوراخ میں ٹوٹے ہوئے دھاگے بھی پروئے جاتے ۔ {حافظ منزل } کوئی بڑی حویلی نہیں تھی ، بس مشترکہ دیواروں کے درمیان ایک معمولی سا مکان تھا ، جس میں اس وقت چھ کنبے آباد تھے ، ہر کنبے کے پاس دس بیس فٹ مربع دو دو کمرے تھے ، جن میں سے ایک میں باورچی خانہ اور سطح زمین پر سونے کا کمرہ ، اور دوسرا کمرہ جوڑوں کے سونے کے لئے ، جس میں صرف ایک چارپائی اور ایک کرسی یا ٹیپائی رکھنے کی گنجائش ہوتی ، نہانے کے لئے ایک حمام سب کنبوں کے لئے مشترک تھا ، کپڑے دھونے کے لئے عموما ایک کلومیٹر دور شاہدلی ندی کے کنارے جانا بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا تھا ،ندی تک جانے کے لئے پچھواڑے میں واقع قبرستان سے گذر کر ناریل کے دو باغات پار کرکے جانا پڑتا ،گھر کے پچھواڑے میں ابھی قبرستان پر چار دیواری نہیں اٹھائی گئی تھی ، ندی کنارے محلے کے ایک خوش حال تاجر شمس الدین باشا شابندری پٹیل مرحوم نے مستورات کو کپڑے دھونے کی سہولت کے لئے پتھر کی سیڑھیاں بناکر دی تھیں ۔ تکیہ محلہ اور اطراف کے علاقے کو قدیم دستاویزات میں (بوبن کیری) لکھا جاتا ہے ، مقامی کنڑی زبان میں (بوب)کا مطلب ہے(چلانا) اور کیری کا(محلہ)۔ مطلب واضح ہے(شور و شرابہ والا محلہ)، اس وقت یہ علاقہ اپنے نام کی ہو بہو تصویر تھا ۔ جہاں یہ محلہ ختم ہوتا ہے ، وہا ں سے قدیم قبرستان کا علاقہ شروع ہوتا ہے، کبھی یہ ایک ایک ہی طویل وعریض قبرستان رہا ہوگا،غالبا برطانوی دور میں اس کے درمیان سے دو سڑکیں نکالی گئیں تھیں، اور ایک قبرستان تین میں منقسم ہوگیا،تکیہ محلہ سے جو سرک نکلی اس کا نام غوثیہ محلہ رکھا گیا، جہاں ندی کنارے بھٹکل کی ایک قدیم غوثیہ مسجد پائی جاتی ہے،یہی ندی بھٹکل کو مسلم علاقہ کو غیر مسلم علاقے سے الگ کرتی تھی، دوسرے کنارے پر منڈلی اور نستار کے علاقے پڑتے تھے ،اس پار زیادہ تر روزانہ محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کمانے والی آبادی بستی تھی، جو غیر مسلم تھی ،انہیں قصبے میں روزگار کے لئے داخل ہونے کے لئے ا یک تنگ پل سے گزرنا پڑتا تھا، یہاں سے پیدل یا سائیکل سوار مزدور قصبہ میں داخل ہوتے ، اس وقت ان مزدوروں کے تلاش معاش کے لئے قصبہ میں داخل ہونے کا یہی واحد راستہ تھا ،ابھی چوتنی سے بندرگاہ تک جانے والی پختہ سڑک نہیں بنی تھی ، لہذا صبح و شام غیر اقوام کے مچھلی بیچنے والوں ، تعمیراتی مزدوروں ، پتھر تراشوں ، چھت بننے والوں ، معماروں ، کا ایک تانتا بنا رہتا ، جس کے ساتھ ساتھ شورشرابے کا بھی ایک ماحول رہتا ، اس زمانے میں چوتنی کے علاقے میں شراب کی ایک دکان کھلی تھی، اس کے لئے ناریل کے درختوں سے نکلنے والی تاڑی، جسے (نیرا) کہا جاتا ہے کے مٹکے سرپر اٹھائے مزدور وں کی صبح کے وقت ایک قطار لگی رہتی ، اور شام کونشے میں دھت لڑکھڑاتے اور لڑائی جھگڑا کرتے مزدوروں کی ، ان میں سے کئی ایک کے جسم خون آلود ہوتے ، اور ان کی درانتیوں پر خون کے نشان بھی ہوتے ۔انہیں دیکھ کر جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑتی ، یہ شام سے رات گئے تک کا روزانہ کا معمول تھا۔اس ماحول میں نونہالوں کی کتنی ہی حفاظت کیوں نہ ہو، گلی کے بچوں پر اس کے اثرات کیوں نہ پڑتے ؟ ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تلاش معاش میں والد اپنے بچوں کو اہلیہ کے سپرد کرکے سال دو سال کے لئے پردیس میں رہتے ہوں، وہاں کہاںتک نونہال گالی گلوج اور بری عادتوں سے بچ سکتے ہیں؟ ۔ تنگی اور مصیبتوں میں گھری ہماری نانی بی بی اور والدہ کی زندگی کا شاید یہ سب سے بڑا امتحان تھا ، جو کہ جو تلوار کی دھار پر چلنے کے مانند تھا ، جسے انہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ عبور کیا ، خالی ہاتھ اور بے بسی کی حالت میں ان دونوں نے جس طرح اپنے بچوں کو اڑوس پڑوس کے منفی ماحول سے بچائے رکھا، اس احسان کا قرض شاید ہم کبھی نہ اتار پائیں ۔ وقت کی ستائی ان دونوں ماں بیٹی کا مذہب سے گہرا لگاؤ تھا ، تلاوت اور نماز کی پابند تھیں ، یہ اس زمانے کا عام ماحول تھا،نماز فجر کے بعد گھر کی چلمن کی آڑ سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تلاوت قرآن کی آوازہر محلہ میں سنائی دیتی تھی ، ان دونوں نے بے مائیگی کے باوجود اپنے بچوں کو چوری چکاری ، جھوٹ اور گالم گلوچ اورکسی کے آگے دست طلب پھیلا نے سے روکنے کی بساط بھر کوشش کی ۔ اس زمانے میں شاذلی ندی بڑی گہری ہوا کرتی تھی،یہ تیراکی کے شیدائیوں کی اولین پسند تھی ، ندی کے پار آم ، اور اسٹار فروٹ ، جامن وغیر ہ کے بھرے پرے درخت ہوا کرتے تھے ، ان سے کیریاں اور مختلف قسم کے پھل فروٹ توڑ لانا تیراک بچوں کا بڑا محبوب مشغلہ تھا ، لیکن کبھی ہماری ہمت نہیں ہوئی کہ انہیں لاکر گھر کی دہلیز سے آگے بڑھیں ۔ اس زمانے میں تربیت کا انداز یہ بھی تھا کہ طالب علم کی چمڑی اور ہڈی والدین کی ، باقی استاد کا ، اساتذہ بھی اپنے اس حق کا خوب استعمال کرتے تھے۔ اس انداز ترتیب کے مفید اور منفی دونوں پہلو تھے ، لیکن ہماری ذات پر اس کے منفی پہلو وںنے اثرکچھ زیادہ ہی ہوا ، دل سے مارکھانے کا خوف ، اور جسمانی سزا سے ڈر کر شرارتیں چھوڑنے کا تصور دل میں باقی نہ رہا۔ ایسے میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب پردہ نشیں ماں پر بچے کی تعلیم وتربیت کی پوری ذمہ داری ہو اور مدرسہ میں بچہ شفقت کو ترس جائے تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ؟ چھوٹی عمر ہی میں اس ناچیز میں باغیانہ رویہ پنپنے لگا تھا ۔ گھر کی تربیت میں گالی دینی تو سیکھی نہیں تھی ، گالی کا جواب ہاتھ اور پتھر نے لے لئے تھے ، اس کے نتیجہ میں جھگڑے اور شرارتیں، محلہ کے لونڈوں سے مار کٹائی روز کا معمول بن گئے ۔ایسے میں چند ایسی شرارتیں بھی سرزد ہوئیں جس سے سارے محلے کی تھوتھکار ہمارے حصہ میں آئی ، اور اڑوس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں کی صلواتیں پڑنے لگیں ۔ اس وقت ممتا کی اس مورت کے چہرے پر زخم خوردہ ہرنی کی وحشت اور بے بسی چھا جاتی تھی، اس کی آنکھوں سے ابلتے ہوئے گرم آنسو اور لرزتے ہوئے لب اور اس سے نکلنے والی دعاؤں کا منظر جب یاد آتا ہے تو آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے آپ سے شرمندگی کا سا احساس ہونے لگتا ہے ۔ہم نے تو اس کے غموں کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ، لیکن وہ ممتا کی مورت اس کے بدلے میں اپنی بے پناہ شفقتیں ہی نچھاور کرتی رہیں ۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/