مامتا کی یاد میں(۱) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ، بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:52PM Thu 8 Oct, 2020

( یہ مضمون والدہ ماجدہ کی رحلت پر تین سال قبل لکھا گیا تھا، اس کی اشاعت کا ارادہ نہیں تھا، لیکن ہمارے گذشتہ مضمون پر احباب کے تاثرات نے اس کی اشاعت پر آمادہ کیا ) دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ماہ گزرگئے ، ۱۴ ؍ فرروی ۲۰۱۷ء کو رات گئے اپنے ہاتھوں سے ہماری والدہ ماجدہ کے جسد خاکی کو لحد میں لٹا کر اسکی چھ فٹ گہری قبر کو مٹی سے بھر دیا گیا تھا، ہر انسان کے ساتھ اس دنیا میں آخر ایسا ہی ہوتا آیا ہے ، کسی نہ کسی دن اسے دائمی سفر پر روانہ ہوتاہے ، یہی قانون قدرت ہے ،رضائے الہی پر راضی ہونے اور عبدیت کے اقرار کا یہی لمحہ ہوتا ہے جب دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہاتھوں سے چھن جاتی ہے ، اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ طوفان باد باراں میں سر پر سے چھت اڑگئی ہو ، والدہ کی رحلت کا حادثہ بھی ہمارے لئے کچھ ایسا ہی تھا ۔ جب اپنے ہاتھوں سے دنیا کی اس سب سے چہیتی ہستی کو سپرد خاک کر کے لوٹ رہا تھا تو دل و دماغ پر ایک طوفان برپا تھا ، کبھی دل میں خیال آتا کہ ہم خوش قسمت تھے کہ مرحومہ کا آخری دیدار نصیب ہوا ، یہ خیال اس وقت پراگندہ ہوجاتا جب محسوس ہوتا کہ ہم بھی کتنے کٹھور دل تھے کہ جس ماں نے نوماہ تک اپنی کوکھ میں سات پردوں میں دنیا جہاں سے چھپا کر ہمیں محفوظ رکھا ، جس نے ہمارے سکھ اور چین کے لئے نہ دن کو دن سمجھا اور نہ رات کو رات ، جسے ہمارے خوشی کے لئے اپنے دکھوں اور غموں کا کبھی احساس نہ رہا ، ہمارے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ، آخراپنے ہی ہاتھوں منوں مٹی کے نیچے اسے دبا آئے ۔ فقہائے شوافع میں سے امام نووی جیسے جلیل القد ر ائمہ نے تدفین کے آداب میں لکھا ہے کہ میت کو دفن کرکے قبر کو مٹی سے ڈھانپتے وقت اپنے ہاتھوں تین مٹھی مٹی قبر پر ڈالیں اور اس آیت خدوندی کا ورد کریں کہ { منھا خلقنا کم ، وفیھا نعیدکم ، ومنھا نخرجکم تارۃ اخری } ہم نے اس مٹی سے تمہیں پیدا کیا ، اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے ، اور دوبارہ اسی سے تمہیں نکالیں گے ۔اس کی حکمت آج سمجھ میں آئی کہ خوشی ہو یا غمی ہر موقعہ پر اپنی شان بندگی کو نہ بھولیں ، پیدا کرنے والے کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھیں ، اور یہ بات ذہن میں ہمیشہ تازہ رہے کہ ماں ہمارے لئے اس لئے بڑی نعمت ہے کہ پیدا کرنے والے نے اسے یہ مقام دیا تھا، اس کی قدردانی کے لئے اس دنیا میں ماں کا درجہ دے کر اسے بھیجدیا ، پھر اس نے اپنی امانت واپس لے لی۔ مرحومہ نے اسی روز صبح کے وقت اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی تھی ،ان کی روح کے پرواز ہونے کے آخری لمحات کو جان کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ آیت خداوندی { یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ} کچھ ایسی ہی پاک روحوں کے بارے میں اتری ہوگی۔ انتقال سے دور روز قبل فون پر جب آپ سے بات ہوئی تھی تو ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ ان کے چل چلاؤ کا وقت اتنا قریب آچکا ہے ۔ اور سایہ عاطفت سے محرومی کی گھڑی اب سر پر کھڑی ہے ، دنیا کی یہ عظیم ترین نعمت اب ہمیشہ کے لئے ہم سے چھن جانے والی ہے ۔وہ ماں تھیں ، اسے اپنے بچوں کو دکھ دینا ، انہیں فکر مند کرنا کبھی پسند نہیں تھا،وہ تو زندگی بھر دوسروں کا دکھ بانٹتے آئی تھیں ، اب اس آخری وقت میں وہ اپنی زندگی بھر کی عادتیں کیسے بدل دیتیں؟ اب بھی وہ یہی احساس دلاتی رہیں کہ یہ بدن کا پرانا درد ہے ، علاج معالجہ سے ٹھیک ہوجا ئے گا ۔ جب ہم نے اصرار کرکے کہا کہ جمعرات کو منگلور تشخیص کے لئے چلے جائیں ، میں بھی دبی سے وہاں پہنچ رہاہوں تب انہوں نے بڑی مشکل سے اس کی ہامی بھر ی ، منگل کی شام طبیعت اچانک بگڑنے لگی ، تو فیصلہ کیا گیا کہ جمعرات کے بجائے بدھ ہی کی صبح گاڑی سے منگلورلے جایا جائے ، اس وقت نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی آپ نے یاد کرکے مغرب اور عشاء کی نمازیں ہاتھ کے اشارے سے اداکی ، جب منگلور لے جانے کا وقت آیا تو حالت دگر گوں ہوچلی تھی ، اور ابھی یہاں پہنچنے بھی نہ پائی تھی کہ بلاوا آگیا ، زندگی کی کلفتوں ، بیماریوں اور تکلیفوں سے آزاد ہوکر یہ تھکی ہاری مسافر {۷۷} سال اس دار فانی میں گزار کر خاموشی سے دائمی سفر پر روانہ ہوگئی ، وہ جب تک اس دنیا میں رہی کبھی کسی کو اپنی ذات سے تکلیف نہیں دی ، روزکی تکلیفوں اور مصیبتوں کو خود جھیلتی رہی ۔ جب یہ سب کو چھوڑ کر جانے لگی تو اپنے اطراف ہجوم کو جمنے نہ دیا ، اپنی آخر ی بیماری کی اطلاع تک خویش و اقارب کو دینے سے روکے رکھا، حالانکہ وہ کئی ایک خاندانوں کی بزرگ تھی ،اس کے بچوں کے علاوہ بھی اسے ماں کا احترام دینے والے کئی ایک تھے ، خوشی اور غمی کے موقعہ پر اس کی موجودگی کنبے میں لازمی سمجھی جاتی تھی ، اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی ، اس سے مشورے طلب کئے جاتے تھے ، اسے ٹوٹ کر چاہنے والے اپنے اور دوسرے بہت سارے تھے ، لیکن اسے شہرت اور خود نمائی سے کیا کام تھا ؟ اس نے کسی کو تکلیف دینا کب سیکھا تھا ؟ موت آئی بھی تو ایسے کہ رفیق سفر اور لمحہ لمحہ ساتھ رہنے والی بیٹی اور بہو کو پتہ بھی نہیں چلا کہ جسم کی قید سے روح کب آزاد ہو کر پرواز کرگئی ۔ مرحومہ کی زندگی عزت نفس ،صبر و شکر ، برداشت ، عفو و درگزر ، صلہ رحمی ، تدبر اور سنجیدگی اور پاکدامنی اور کفایت شعاری کی علامت تھی ٓٓآپ کا بھٹکل کی نوائط برادری کی جس نسل سے تعلق تھا اس میں ایسی عالی صفات خواتین بہ کثرت پائی جاتی تھیں ، ایسی ہی خواتین کے وجود سے بھٹکل بہت ساری آسمانی مصیبتوں سے محفوظ رہا کرتا تھا ، یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسی نیک بیبیوں کی آہیں جب بھی آسمان سے جاکر ٹکرائیں تو بے آواز کی لاٹھی بن کر ظلم کرنے والوں پر برسیں، جی چاہا کہ اس پاک باز خاتون کی یادوں میں احباب کوبھی شریک کیا جائے ، تاکہ اپنا بھی کچھ غم ہلکا ہو، اور اس دور کی بیبیوں کی سیرت کے چند روشن پہلؤوں پر بھی ایک اچٹتی نظر پڑجائے ، اور بھٹکل کی معاشرتی زندگی کے جو نقوش مٹ رہے ہیں انہیں بھی قومی حافظے میں محفوظ رکھا جائے ، کیونکہ یہ ایک فرد کی کہانی نہیں ہے بلکہ چند دہائی پہلے کے بھٹکل کا معاشرہ ایسی مثالوں سے معمور ہے ۔ بی بی رقیہ حافظ نے ۱۹۴۰ء میں {حافظ منزل ، تکیہ محلہ} میں حسین حافظ کے گھر میں جنم لیاتھا ، والدہ کا نام شہربانو تھا ،اس جوڑی کے ناموں کا حسن انتخاب بھی دیکھئے ، امام حسین رضی اللہ علیہ کی اہلیہ کا نام بھی شہر بانو تھا ،اللہ تعالی نے اس نو زائیدہ بچی کو حسن سیرت و صورت اور خوبصورت آواز سے نوازا تھا ، لیکن محلے کے اسکول میں ابھی ابتدائی چوتھی جماعت ہی کی طالبہ تھیں کہ ایک حادثہ میں گلے میں سخت چوٹ آئی ،عرصہ تک ایسی بیمار رہیں کہ تعلیم چھوٹ گئی ، لیکن وہ دور اخلاص اور قربانی کا دور تھا ، اساتذہ بھی اسی ماحول کا پرتو تھے ، خود غرضی اور مادیت پرستی ابھی اس معاشرے میں سرایت نہیں ہوئی تھی ، آمدنی سے بے پروا ہوکر نونہالان قوم کی ایسی تعلیم و تربیت ہوتی تھی کہ آج اس کی مثالیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں ۔ اس بچی کی بھی ایسی تعلیم ہوئی تھی کہ مکتب چہارم میں اس نے خوش الحانی سے قرآن پڑھنا ،اور خط لکھنا سیکھ لیا ، خط اتنا خوبصورت تھا جیسے موتیوں کے دانوں کی لڑی پروئی گئی ہو ، اب ایسا پاکیزہ خط دسویں اور بارہویں جماعت پاس کرنے والوں کا بھی مشکل سے ملتا ہے ۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/