ملک نواز احمد اعوان۔ ایک کتاب دوست اور صاحب خیر انسان کی جدائی۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:54PM Wed 31 Aug, 2022

ابھی تھوڑی دیر قبل ملک نواز اعوان کی رحلت کی خبر نے دل کو مغموم کردیا ، آپ نے  اسی   (۸۰  ) سال اس دار فانی میں گذارے، ظاہری آنکھوں میں  وہ ایک ایر کنڈیشنر  اور ریفریجیٹر درست کرنےکے کاروبار سے وابستہ انسان  تھے،  لیکن در حقیقت ان کی رحلت سے برصغیر ایک عظیم علم دوست اور کتابوں سے محبت کرنے والی  شخصیت سے محروم ہوگیا ہے ، ہمیں آپ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف  تو حاصل نہ ہوسکا، لیکن چند سال قبل فرائیڈے اسپیشل کے چیف ایڈیٹر یحیی بن زکریا صدیقی صاحب کی خواہش پرآپ نے  تبصرہ کتب  کا سلسلہ شروع کیا تو اس  میں اطہر ہاشمی مرحوم کے ہفتہ وار کالم (  خبر لیجئے  زباں بگڑی)  اور آپ کے تبصرہ کتب کے  کالم دو ایسی چیزیں تھی ، جن کے لئے ہر جمعرات کی رات بارہ بجے کاا نتظار کرنا، اورفرائیڈے اسپیشل آن لائن ہونے کے بعد ہی اس  کے  یہ دو کالم پڑھ ہی کر بسترپر جانا ایک معمول بن گیا ، چند سال قبل ہاشمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، اور اب ملک نواز اعوان صاحب کی  بھی رحلت کی خبر نے دل کو اداس کردیا ہے، یہ دنیا کا رواج ہے،  ہر ایک کو  مقررہ مدت گذار کر یہاں سے جانا ہے، کامیاب وہ ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گذارے۔

جب ہم نے شعور سنبھالا تو برصغیر میں صدق جدید لکھنو میں  مولاناعبد الماجد دریابادی  ،اور فاران کراچی میں مولانا ماہر القادری کے تبصروں کی دھوم تھی، ویسے برہان دہلی میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی، اور تجلی دیوبند میں مولانا عامر عثمانی  کے بھی تبصرے  بھی ان سے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن ۱۹۹۰ء کے آتے آتے کتابوں کو پڑھ کربے لاگ تبصرے کرنے والے اہل قلم کاقافلہ آہستہ آہستہ سمٹتا چلا گیا، اور پھر چراغ لے کر  ڈھونڈھنے سے  بھی اس کی تلچھٹ  کا ملنا دشوار ہوگیا۔ ممکن ہے مسافتوں کی دوری، اور پڑوسیوں کے درمیاں کھینچی ریکھا نے بہت سے قابل قدر تبصروں تک رسائی سے محروم کردیا ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ پاکستان  میں نقطہ نظر اسلام آباد میں ڈاکٹر سفیر اختر نے، اور ترجمان القرآن میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے، اور فرائیڈے اسپیشل میں ملک اعوان نے تبصروں کا ایک اعلی معیار باقی رکھا ، اور چونکہ آخر الذکر دونوں پرچے آن لائن ہیں، تو ان تک رسائی بھی آسان ہوگئی۔

ملک نواز مرحوم نے ریفریجیٹراور ایرکنڈیشنر کی ریپرینگ کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا، اس کے باوجود آپ نے علم کی محبت میں انہوں نے اتنا کچھ حاصل کرلیا تھا، جو دسیوں سال دارالعلوموں اور یونیورسٹیوں میں عمر یں گذارنے والے حاصل نہیں کرپاتے، یہ اللہ تعالی کی توفیق تھی، کہ وہ کتابوں کے دلدادہ ہوگئے، ان کا حافظہ بھی بلا کا تھا، ایک عرصہ بعد اس ناچیز نے  آپ سے فون پر رابطہ قائم کیا  ، تو نام سنتے ہی  ایسے ہی خوش ہوگئے جیسے برسوں کی  شناسائی ہو، اندلس پر صلیبی یلغاراور یورپ کی نشاۃ ثانیہ پر ہمارے معارف اعظم گڑھ میں کئی سال پرانے  دو تین مضامین کو یاد کرکے  بہت اصرار سے کہا  کہ  اس سلسلے کو جلد مکمل کریں، حالانکہ معارف  ہمارے اپنے وطن میں چھپنے کے باوجود اکثر اہل علم کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے،اور جب طلبہ سے ماہنامہ  معارف اعظم گڑھ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ معارف القرآن کا بتا دیتے ہیں،  چہ جائے کہ  سر حد پار کے ایک غیر معروف قلم کار کی تحریریں حافظہ میں محفوظ رہ جائیں۔

چند روز بعد فون کیا تو معلوم ہوا کہ کراچی سے لاہور منتقل ہورہے ہیں، اس وقت بڑے اصرار سے کہا کہ ان کے پاس ایک قیمتی کتب خانہ ہے، جس میں بڑی نادر ونایاب  کتابیں موجود ہیں، ان میں ڈاکٹر نگار سطانہ ظہیر کے مجلہ الایام کراچی کے مکمل شمارے بھی ہیں، یہ تمام چیزیں کراچی کے کسی دوست کے ذریعہ  اپنے  وطن کتب خانے کے لئے اٹھا کرلے جانے کا انتظام کریں، لیکن اس وقت کوئی ایسا رفیق نہ مل سکا جو اس انمول ذخیرہ کی منتقلی میں مدد کرتا، اور ہم افسوس سے ہاتھ مل  کر رہ گئے، ایک طرف داد ودہش کی بارش ہورہی تھی، اور دوسری طرف اسے لینے میں اتنی ہی کوتاہی اور کاہلی کا برتاؤ۔ اس سے مرحوم کی وسعت قلبی اور دست تعاون بڑھا نے کی زرین صفت کا اندازہ ہوتا ہے۔

رحلت کی خبر سن کر اپنے دوست اور مایہ ناز محقق اور مصنف راشد شیخ صاحب سے  ہم نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ ۱۹۶۸ ء میں لاہور سے کراچی ریپرینگ کے کاروبار کے لئے منتقل ہوئے تھے، آپ کی پیدائش لاہور ہی کے محلہ محمدی پور میں ہوئی تھی۔کراچی کے طارق روڈ پر آپ کی دو دکانیں تھیں، جہاں  علم دوست اور ضرورت مند سبھی آکر اپنی ضرورتیں پاتے تھے،انہیں خطاطی کا بڑا شوق تھا، مشہور عالم خطاط محمد یوسف سدیدی  جب آتے تو آپ ہی کی دکان پر ٹہرتے، اور خطاطی سیکھنے کے شوقیں وہیں پر آپ سے فیض پاتے تھے۔

وہ اچھی اور منتخب کتابوں کے دس دس بیس بیس سیٹ خریدکر انہیں تشنگان علم میں بانٹے تھے، کسی مہنگی کتاب کی کسی کو ضرورت ہوتی تو وہ اہل ضرورت کو  اسے خرید کردیتے۔ فرائیڈے اسپیشل میں تبصروں کے لئے آئی ہوئی کتابوں کو بھی وہ اسی طرح  شیرینی کی طرح  لٹاتے تھے۔

مجلس ترقی ادب لاہور جیسے سرکاری ادارے جو بڑی قیمتی علمی وادبی کتابیں چھاپا کرتے ہیں، لیکن ان کا تعارف عموما بڑے علمی حلقوں میں  نہیں ہوا کرتا تھا، اور  ان کے کارکنان کی بھی دلچسپی ان کتابوں کی فروخت میں نہیں ہواکرتی ، کیونکہ سرکاری  ادارہ ہونے کی وجہ سے  اس کی آمدنی پر تنخواہوں کا مدار نہیں ہوا کرتا،  تو آپ کے تبصروں نے اس ادارے کی بکری بہت بڑھا دی تھی۔  راشد شیخ کا مشاہد ہ ہے کہ     (۳۵  )۔ (  ۳۶) سالوں میں آپ جیسا فیض رساں شخص آپ نے نہیں دیکھا۔ علمی فیض رسانی، دین سے تعلق، اور وسیع القلبی آپ کے اہم اوصاف تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ  ایک گداگر جو اپنے پاؤں سے  معذور تھا، اپنی بہن کی شادی  کی ضرورت کو لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے نہ صرف  اس کی مدد کی بلکہ اپنے دوست احباب سے بھی  کافی رقم اسے دلوائی ، ایسے واقعات سے آپ کی زندگی بھری ہوئی تھی۔

آپ کی علمی تلاش وجستجو کا یہ عالم تھا کہ جب صحیفہ لاہور کے مکاتیب نمبر  (۳  ) میں مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے غیر مطبوعہ مکاتیب شائع ہوئے تو آپ نے   ا مکتوب الیہم میں سے ایک ایک فرد کی کی معلومات تلاش کیں ، اور راشد شیخ کو آمادہ کیا کہ یہ اور دوسرے افراد سے ان غیر مطبوعہ مکاتیب حاصل کرکے ایک بڑا مجموعہ مرتب کریں اور  ادراہ معارف اسلامی سے اس کی اشاعت کا منصوبہ بنوایا ، اور اس کے لئے آپ نے مالی امداد بھی پیش کی ، یہ  منصوبہ ہنوز زیر تکمیل ہے۔

اسلامی تعلیم وتربیت کے موضوع پر سید محمد سلیم ایک جانا مانا نام تھا، آپ ٹیچرس ایسوسی ایشن  کے بانیاں میں تھے، اور اس کے موقر مجلہ تنظیم  کے مدیر بھی ۔انہیں علمی مواد اور کتابیں فراہم کرنے میں آپ کا بڑا ہاتھ تھا، آپ تحقیق وتصنیف کے میدانوں میں کام کرنے والوں کو مشورہ دیتے تھے کہ اس موضوع پر فلان کتاب آپ کے لئے مفید  ہوسکتی ہے۔

ملک نواز اعوان مرحوم نے ایک مکمل زندگی گذاری ، فطری عمر میں آپ نے  اس دنیا کو الوداع کہا، آپ کی یاد مدتوں علم دوست افراد  اور کتابوں سے محبت کرنے والوں  کے دلوں میں روشن رہی گی، اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔

2022-08-31

WhatsApp: +971555636151