Misr May aik Hindustani Alim e Deen by Dr F Abdur Raheem

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:46PM Sat 10 Aug, 2024

 مصر جانے سے پہلے میں نے سنا تھا کہ قاہرہ میں ڈاکٹر اسماعیل نامی ایک بڑے ہندوستانی عالم رہتے ہیں۔ 1964ء  میں جب میں قاہرہ پہنچا تو ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تعلق تمل ناڈو کے شہر میل و شارم سے تھا۔ ہائی اسکول کے بعد انہوں نے ندوۃ العلما میں پڑھائی جاری رکھی۔ ندوہ سے فراغت کے بعد وہ قاہرہ چلے گئے اور قاہرہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ وہیں رہنے لگے۔ جامعہ عین شمس میں مدرسة الألسن کے نام سے ایک ادارہ ہے جہاں دنیا کی مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل صاحب اس میں اردو پڑھاتے تھے۔ اسماعیل صاحب لوگوں سے بہت کم ملتے تھے ، ان کا اکثر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا، وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے جس میں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی۔ ان دنوں مصری وزارۃ ثقافت سے ایک وقیع ادبی رسالہ شائع ہوتا تھا جس کا نام ہی ((المجلة))  تھا۔ اس کے ہر شمارے میں "میری محبوب کتاب" کے نام سے کسی کتاب کا تعارف شائع ہوتا تھا۔ اس مجلہ کے ایک شمارہ میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون "میری محبوب کتاب کے صفحے میں شائع ہوا۔ ان کا مضمون "راماین" پر تھا جو بہت مشہور بھی ہوا اور مقبول بھی۔ اس مضمون سے ہندوستان کا سفارت خانہ بہت خوش ہوا۔ ان کی تعظیم و تکریم میں اہل علم کی بیٹھک بلانا چاہتا تھا لیکن اسماعیل صاحب اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ سرکاری اداروں سے دور ہی رہنا چاہتے تھے۔ میں نے کبھی ان کو سفارت خانے کی تقریبات میں نہیں دیکھا۔

جامعة القاہرہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے جامعہ الازہر سے ایک دوسری ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں ان کا مقالہ(( تاج العروس)) کے مصنف «الزبيدي» پر تھا جو ہندی نژاد تھے اور بلگرام سے تعلق رکھتے تھے۔ اسماعیل صاحب نے مولانا شبلی کی مشہور تصنیف سیرۃ النبی کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ انہوں نے ترجمے کی ایک چھوٹی سی فائل مجھے دی تھی، جسے میں نے مدینہ یونیورسٹی کے عمید المکتبات کے حوالے کر دیا تھا۔

میں ۱۹۶۶ میں ام درمان کی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے سوڈان چلا گیا۔ چھٹیوں میں قاہرہ لوٹا اور اسماعیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں دو چار دن انہیں کے ساتھ ٹھہرا رہا۔ انہوں نے خوشخبری دی کہ وہ الجزائر کی کسی یونیورسٹی میں پڑھانے لگے ہیں اور دو چار دن پہلے ہی واپس ہوئے ہیں اور عنقریب واپس جانے والے ہیں۔ میں بھی وہاں سے انڈیا آگیا۔ یہ اسماعیل صاحب سے میری آخری ملاقات تھی۔ بہت دنوں تک ان کا اتا پتا نہیں ملا۔ بعد میں یہ اندوہناک خبر آئی کہ وہ الجزائر میں اپنے فلیٹ میں وفات پاگئے اور دو ایک دن بعد ان کی وفات کا پتا چلا اور تدفین عمل میں آئی۔ رحمہ اللہ وغفر لہ۔ وہ ندوہ  آنے کے بعد سے کبھی اپنی وطن نہیں لوٹے۔