Misr Kay Mashur Muhaqqiq- by Dr F. Abdur Raheem

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:09AM Thu 22 Aug, 2024

  جلوہ ہائے پابہ رکاب   (  ۱۹)۔۔۔  مصر کے مشہو ر محقق۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر  ٖف۔ عبد الرحیم

 

 (علم وکتاب ٹیلگرام چینل)

مصر کے مشہور محقق قاہرہ میں جن علمی شخصیات سے میری ملاقات ہوئی ان میں سب سے زیادہ قد آور شخصیت شیخ محمود شاکر تھے۔ وہ دو حیثیتوں سے جانے جاتے ہیں: وہ شیخ المحققین تھے ، انہوں نے بے شمار تراثی کتابوں کی تحقیق کی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو محقق کہلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنی تحقیق کردہ کتاب کے سرورق پر وہ یہ عبارت لکھتے تھے قراہ و علق علیه فلان گویا کہ ان کی نظر میں محقق کا اصل کام تراثی کتاب کو پڑھنا اور سمجھنا ہے۔ ان کا دوسرا نمایاں کارنامہ اسلامی اور عربی ثقافت کا پر زور دفاع تھا۔ وہ اس میدان کے نمایاں علم بردار تھے۔ مشہور نصرانی صحافی لویس عوض نے اپنی کتاب «علی هامش الغفران» میں یہ جھوٹا دعوی کیا تھا کہ عربی کا مشہور شاعر ابو العلا المعری یونانی فلسفے سے متاثر تھا۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اسے یونانی اثرات نظر آتے تھے۔ شیخ محمود شاکر احادیث اور اسلامی تراث کے دفاع میں کمر بستہ ہوئے اور انہوں نے لویس عوض کے رد میں سلسلہ وار مضامین لکھے اور اسلامی تراث کی فوقیت اور برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان خدمات کے پیش نظر ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ میں جب قاہرہ پہنچا اس وقت وہ معمر تھے، لیکن کافی active تھے۔ ان کا مکتبہ محققین اور Ph.D کے طلبہ کا مرجع تھا۔ وہ خود بھی مرجع خلائق تھے۔ ان کے یہاں ہر وقت طلبہ اور محققین کا جم غفیر رہتا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر اسماعیل صاحب (جن کا ذکر پچھلے مضمون میں گزر چکا ہے) بھی ان کے خوشہ چینوں میں تھے۔ ایک دن وہ مجھے ان سے ملانے کے لیے لے گئے۔ ڈاکٹر   اسماعیل صاحب میدان تصنیف و تالیف کے شہسوار تھے ، لیکن روانی سے عربی نہیں بول پاتے تھے۔ انہوں نے شیخ محمود سے میرا تعارف کرایا۔ وہ پر تپاک طریقے سے ملے۔ کچھ دیر مجھ سے گفتگو کرنے کے بعد پوچھا: تم کسی عربی ملک سے ہو ؟ میں نے کہا: نہ میں کسی عربی ملک سے ہوں، نہ عربی اللسان ہوں۔ بولے لیکن تم تو عربی بولتے ہو۔ میں نے کہا: یہ اکتسابی عربی ہے۔ میں نے سیکھی ہے۔ بولے: یہ تمہارا ساتھی ہندی ملعون نے بھی تو عربی سیکھی ہے ، اور یہاں مصر میں مدت سے رہ رہا ہے، لیکن عربی نہیں بول پاتا۔ یادر ہے کہ شیخ محمود کا تکیہ کلام "ملعون " تھا اور وہ ہر کس وناکس کو ملعون کہتے تھے۔ وہ خوش طبع انسان تھے ، اور وہ لوگوں کے حق میں ایسی باتیں بول جاتے تھے جو سنجیدگی میں بولی نہیں جاتیں۔ میری اسی ملاقات کے دوران وہ طلبہ سے پوچھ رہے تھے : ما جاء ذلك الهندي الملعون؟ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ کس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، انہوں نے ان کا نام بتایا۔ میں ان کو جانتا تھا۔ وہ ہندی نہیں تھے ، پاکستانی تھے۔ میں نے شیخ سے کہا: آپ جس ہندی ملعون کو تلاش رہے ہیں وہ ہندی نہیں، پاکستانی ہے۔ ہنستے ہوئے جواب دیا: تم ہندی اور پاکستانی کے درمیان فرق بتانے آئے ہو ؟ ان دونوں میں کیا فرق ہے ۔ یہ دونوں ایسے ہیں جیسے الأهرام اور الجمهورية ان کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ گو یہ دو مستقل اخبار ہیں لیکن ان میں شائع ہونے والی خبریں ایک جیسی ہوتی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اسماعیل صاحب نے مصری خاتون سے شادی کی تھی۔ ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ جارہے تھے۔ راستے میں شیخ محمود سے ملاقات ہو گئی۔ اسماعیل صاحب نے بیوی کا تعارف کرایا۔ اپنی عادت سے مجبور شیخ نے ان کی بیوی سے کہا: «يا أختي! ما لقيت غير هذا الهندي الملعون؟ یعنی: کیا تمہیں اس ملعون ہندی کے علاوہ کوئی نہیں ملا؟