Misr Kay Hotel May... Dr. F Abdur Raheem

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:49AM Wed 12 Jun, 2024

۱۹۶۵ کی بات ہے، میں اس وقت جامعہ الازہر میں پڑھ رہا تھا۔ ان دنوں قاہرہ میں ایک بڑی اسلامی کانفرنس ہوئی جس میں ہندو پاک کے علماء نے شرکت کی۔ ہم بر صغیر کے طلبہ ہوٹل جاکر ان سے ملتے تھے۔ ایک بار ہم ایک مشہور پاکستانی عالم سے ملنے گئے۔ وہ ہمارے لیے چائے کا انتظام کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت وہاں سے ایک waitressگزر رہی تھی۔ انہوں نے اسے بلایا۔ کہا: «تعال» وہ آئی لیکن مسکرارہی تھی۔ اس مسکراہٹ کی وجہ یہ تھی کہ مولانا اس کے لیے مذکر کا صیغہ استعمال کر رہے تھے۔ یا د رہے کہ مرد کے لیے «تعال» کہا جاتا ہے اور عورت کے لیے «تعالي»، لیکن چونکہ برصغیر میں مستورات کے ساتھ عربی میں بات کرنے کا موقع نہیں ملتا، اس لیے مونث کے لیے استعمال ہونے والے صیغوں کی مشق نہیں ہو پاتی۔ اب واپس ہوٹل لوٹتے ہیں۔ جب waitress آئی اور مسکرانے لگی تو مولانا نے اس سے کہا: «لماذا تضحك؟» یعنی « تم کیوں ہنس رہے ہو » ۔ یعنی انہوں نے پھر اس کے لیے مردوں والا صیغہ استعمال کیا۔ وہ اور زیادہ ہنسنے لگی۔ پھر انہوں نے اس سے کہا «جيب لنا شاي» یعنی ہمارے لیے چائے لے آؤ۔ یہاں پھر انہوں نے «جیب» کہا جو مر دوں والا فعل ہے۔ عورت کے لیے «جیبی» کہنا چاہیے تھا۔

لفظ ((جیب))  عامیہ کا لفظ ہے۔ عربی میں "جاء" بالماءکے معنی ہیںپانی لایا۔ عامیہ میں جاء کے ہمزہ کو حذف کر دیتے ہیں اور بالماء کے "با" کو فعل کے ساتھ جوڑ کر اسے "جاب" بنا دیتے ہیں۔ اس طرح "جاب الماء" کے معنی ہوئے: پانی لایا۔ اس کا مضارع "یجیب" اور امر "جیب" ہے۔

میں مدینہ منورہ کے جامعہ اسلامیہ میں غیر عربی طلبہ کو عربی پڑھانے والے پروگرام سے منسلک تھا۔ میں نے غیر عربی طلبہ کا ٹیسٹ لے کر ان کو عربی پروگرام کے مناسب level میں داخلہ دیتا تھا۔

ایک بار ایک پاکستانی طالب علم کا ٹیسٹ لے رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا: میں اپنے بھائی سے کہوں گا أين تذهب يا أخي؟ یعنی بھائی تم کہاں جار ہے ہو ؟ اگر یہی سوال اپنی بہن سے کروں تو کیا کہوں گا؟  اس نے کہا ہم وہی جملہ کہیں گے "این تذهب يا أختي"؟ میں نے اس سے کہا: لیکن ہمارے یہاں سعودیہ میں بہن عورت ہوتی ہے۔ اس نے کہا: ہمارے پاکستان میں بھی بہن عورت ہی ہوتی ہے۔ میں نے کہا اگر وہ عورت ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی "تذهب"ہی کہیں گے؟ اس نے کہا: ہم تو ایسے ہی کہتے ہیں۔