Meray ek Amriki Shagird(05) Dr. F Abdur Rahim

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:24AM Fri 29 Dec, 2023

 

تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم

یہ کچھ چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں ان دنوں جامعہ اسلامیہ میں شعبۃ اللغۃ کا director تھا، برٹش گیانا کا ایک نیا طالب علم انٹر ویو کے لیے میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے کہا: ما اسمك ؟(یعنی تمہارا نام کیا ہے؟) ۔ یہ سن کر اس نے اپنے ساتھی سے کہا: ?What is this guy saying ( یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟) اس کو عربی کا ایک لفظ بھی معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ اس کا داخلہ Arabic Language Programme میں ہو گیا۔ اس پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد اس کی عربی اتنی اچھی تھی کہ اس نے Faculty of Arabic میں داخلہ لیا۔ جامعہ اسلامیہ سے .B.A کرنے کے بعد اس نے Manchester University سے M. Phil اور Ph.D کی ڈگریاں حاصل کیں۔

اس کے بعد وہ امریکا گیا اور فورا ہی اسے امریکی شہریت مل گئی۔ فلوریڈا کے شہر Fort Lauderdale میں مسلمانوں کی قائم کردہ ایک High School ہے۔ میرے شاگر د اس اسکول کے پرنسپل بن گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ اس اسکول میں عربی پڑھائی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مدرسہ کے عربی اور اسلامی مضامین کے consultant کے سامنے تجویز رکھی۔ ان کا تعلق شام سے تھا، انہوں نے تجویز کو پسند کیا اور درسی کتاب کے بارے میں ان سے مشورہ کیا۔ میرے شاگرد نے جن کا نام ڈاکٹر کیم کمال الدین ہے ان کو بتایا کہ جب جامعہ اسلامیہ میں میرا داخلہ ہوا اس وقت عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔ عربی کی جو بھی قابلیت میرے اندر ہے اس کا سہر اجامعہ کے Arabic Language Programme کے سر ہے۔ جس کتاب کے ذریعہ میں نے عربی سیکھی اس کا نام ہے "دروس اللغة العربية"۔ اس کے تین حصے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ یہی کتاب ہمارے مدرسے میں پڑھائی جائے۔ یہ کہہ کر انہوں نے کتاب کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا۔ دوسرے دن جب کمال الدین صاحب ان سے ملنے گئے ، ان کو بہت خوش پایا، انہوں نے کتاب کی بہت تعریف کی اور اس کو مدرسہ میں پڑھانے کی پر زور تائید بھی کی۔

جب کمال الدین صاحب جانے لگے تو consultant صاحب کتاب کے مولف کے بارے میں پوچھنے لگے، کہا کہ ان کا کچھ عجیب سا نام ہے، وہ ہیں کہاں کے ؟ جب کمال الدین نے بتایا کہ وہ ہندوستان کے ہیں، ان کا موڈ فورا بدل گیا، انہوں نے سخت لہجے میں کہا: ہمارے یہاں کسی ہندوستانی کی لکھی ہوئی عربی کتاب نہیں پڑھائی جائے گی۔ کمال الدین نے سمجھا کہ اس tension بھرے ماحول میں اس موضوع پر مزید بات کرنا مناسب نہیں، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے اور چند ہی دنوں میں شامی استاذ نے "دروس اللغة العربیة" پڑھانے کی اجازت دے دی۔

اس کے بعد ایک اہم مرحلہ باقی تھا، وہ یہ تھا کہ اس کتاب کے تین حصوں کو امریکی اسکول سلبس کے مطابق آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کام کے لیے کمال الدین صاحب نے ۲۰۰۱ء میں مجھے ان کے یہاں آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ میں وہاں تقریبا دو ماہ رہا اور کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مدرسہ والوں نے کتاب کو اس نئی ترتیب میں شائع کرنے کا کام Goodword Books کو سونپا جہاں سے اس کتاب کے سات حصے Madinah Arabic Reader کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

جب مدرسہ کے سلیبس میں کسی نئے مضمون کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ منظوری Department of Education سے لی جاتی ہے۔

امریکہ میں ہر چیز نجی ہوتی ہے۔ وہاں سلبس کی منظوری کے لیے بھی ایک نجی کمپنی ہے جو Accrediton Committee کہلاتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کمال الدین صاحب نے اس کمیٹی کو درخواست دے دی۔ کمال الدین صاحب نے بتایا کہ کمیٹی کا طریقہ کار یہ ہے کہ ان کے ماہرین تعلیم جس مضمون کی منظوری درکار ہے اس کے نصاب تیار کرنے والے سے discuss کرتے ہیں اس لیے کمیٹی کے visit کے وقت میر اوہاں رہنا ضروری ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جب visit کی تاریخ طے ہو جائے تو مجھے بتادیں میں آنے کا انتظام کرلوں گا۔ جب مجھے visit کی تاریخ کی اطلاع ملی تو میں نے کمال الدین صاحب سے کہا کہ میرا ان تاریخوں میں سفر کرنا نا ممکن ہے، آپ وزیر شئون اسلامیہ سے درخواست کریں، وہ اگر اجازت دے دیں تو میں آسکتا ہوں، انہوں نے وزیر کو لکھا، لیکن فورا ہی نفی میں جواب آگیا، چنانچہ میں سفر نہ کر سکا۔

بعد میں کمال الدین صاحب نے بتایا کہ کمیٹی آئی اور انہوں نے میرا تیار کردہ paper work دیکھا اور اس وقت منظوری دے دی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مرحلہ بھی بخیر و خوبی انجام پا گیا۔