Maut Ka Waqt . Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

04:19PM Sun 11 Feb, 2024

 

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

 

پچھلے مہینہ کے وسط میں الہ آباد سے خبر آئی، کہ ہائیکورٹ کے ایک مشہور جج، مسٹر بنرجی، اچھے خاصے توانا وتندرست، ایک دعوت سے فارغ ہوکر، رات کو ساڑھے گیارہ بجے سونے لیٹے، اور سوتے کے سوتے رہ گئے۔صبح آدمی جگانے گیا، تومعلوم ہوا، دیرہوئی روح پرواز کرچکی ہے!…… الہ آباد صوبہ کا صدر مقام، بڑے سے بڑے ڈاکٹر موجود، فون پر خبر پاکر، موٹر میں، دَم بھر میں آسکتے تھے۔ جج صاحب خود اتنے معزز عہدہ پر۔ ہر دوا اور ہر تدبیر پر سب کچھ خرچ کرسکتے تھے۔ پر جب آنے والا وقت آیا، تو گھنٹہ آدھ گھنٹہ نہ سہی، منٹ دومنٹ کی بھی مہلت نہ ملی! علاج وتدبیر کے سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے، اور صوبہ کے دار الحکومت کا یہ معزز ترین شہری اپنی عالیشان اور سجی سجائی کوٹھی کے اندر، دنیا سے رخصت ٹھیک اُسی بے کسی، بے بسی اور بیچارگی سے ہوا، جس طرح ایک غریب سا غریب دہقانی بیچارہ اپنے جھوپڑے میں تڑپ تڑپ کر جان دیتاہے!

مہینہ کا خاتمہ ہورہاتھا، کہ خبر آئی، سر علی امام، اسی طرح سوتے کے سوتے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ وقت کے ایک کامیاب ترین بیرسٹر انگریزی اور اُردو دونوں کے ایک سحر بیان مقرّر (آریٹر)، تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک مسلّم لیڈر، کبھی مسلم لیگ کے صدر، اور آخر زمانہ میں ایک نیشنلسٹ سردار، نیز ہائی کورٹ کے جج، صوبۂ بہار کے ایکزیکٹو کونسلر، حکومت ہند کے وزیر قانون، مملکت آصفیہ کے وزیراعظم، کے ، سی، ایس، آئی اور نواب مؤیّد الملک کے خطاب سے سرفراز، جاہ ومنصب ، دولت وثروت کے تمام مراتب سے ممتاز۔ لارڈ ہارڈنگ کے عزیز دوست، گورنروں ، وائسرایوں، پارلیمنٹ کے ممبروں کے شریکِ راز، لاکھوں کی جائداد کے مالک۔ رانچی میں رات کو سونے لیٹے، تو زندہ وسلامت ، صبح کو دیکھے گئے، تو مردہ وبیجان!کوئی ڈاکٹر، کوئی طبیب، کوئی عزیز، کوئی تیماردار جب تک پہونچے پہونچے،ملک الموت پہونچ گئے، اور ’تدبیر‘ ایک بار پھر ’تقدیر‘ کے مقابلہ میں شکست کھاکررہی!……خیال یہ رہاکرتاہے، کہ روپیہ پاس ہو، تو موت کا مقابلہ جی کھول کر کیاجاسکتاہے، اعلیٰ سے اعلیٰ دوائیں منگائی جاسکتی ہیں، بہتر سے بہتر حکیم اور ڈاکٹر بلائے جاسکتے ہیں، زندگی اور صحت ہر قیمت پر خریدی جاسکتی ہے۔ واقعات کا ہاتھ، خداجانے کتنی بار، اس وہم وتخیل کو پاش پاش کرچکاہے، اور آئندہ بھی کتنی بار کرتارہے گا!

غافل اور مغرورانسان ، یہ سب کچھ دیکھتاہے، اور آنکھیں بند کرلیتاہے۔ یہ سب کچھ سنتا ہے اور سُنی ان سُنی کردیتاہے۔ یہ سب کچھ جانتاہے، اور انجان بن جاتاہے ۔ قرآن میں یہ پڑھتاہے ، کہ ’’جب کسی کا وقت مقرّر آجاتاہے، تو ایک گھڑی کے لئے بھی اُسی میں آگا پیچھا نہیں ہوپاتاہے، اور سمجھتا ہے کہ یہ بیان دوسروں کی بابت ہے، ہم کو اس سے کیا تعلق۔ جسٹس بنرجی اور سر علی امام کی اچانک وفات کی خبریں سنتاہے، اور دل میں کہتاہے، کہ وہ مرے ہیں، کچھ ہم تھوڑے ہی مرگئے ہیں۔ ہمیں اتنی جلد کیوں موت آنے لگی، ابھی تو ہم کو بہت روز جیناہے، ابھی ہماری عمر ہی کیاہے، اور فلاں فلاں کام کرنے، کے ہیں۔ اورموت جب آئے گی بھی، تو اس قدر اچانک کیوں آنے لگی، پہلے بیمار پڑیں گے، فلاں فلاں مسیحائے وقت طبیب، اور فلاں فلاں حاذق ڈاکٹر موجود ہیں، اُن کا علاج کریں گے، فلاں فلاں تدبیریں اختیار کریں گے۔ اطمینان سے عزیزوں، دوستوں، تیمارداروں کے درمیان، وصیتیں کریں گے اورفارغ البالی کے ساتھ جان دیں گے……خداجانے کتنوں کو آدم ؑ وبنی آدم کا وہ مردود اور ازلی دشمن اچانک اب تک اسی طرح غفلت میں ہلاک کرچکاہے، اور آئندہ بھی کتنوں کو اسی دھوکے میں اپنا شکار بنائے ہوئے رہے!