Maulvi Abdul Samad Qazi Nadwi – Some Memories

آج مورخہ 5 / جون علی الصبح بھٹکل سے مولوی عبد الصمد قاضی کی داعی اجل کو لبیک کہنے کی خبر موصول ہوئی، آپ کو کوئی پانچ ماہ قبل برین ہیمریج ہواتھا، جس نے جسم کو فالج زدہ کردیا تھا، اور آپ ایک زندہ لاشہ بن کر رہ گئے تھے،آپکی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ابھی زندگی کی رمق باقی ہے، ورنہ جسم ساکت صامت ہوگیا تھا، لیکن زندگی کی امید ابھی باقی تھی کہ کوئی تین روز خبر آئی کہ حالت دگرگوں ہوگئی ہے، اورآخر کار آج جسم نے ہار مار لی، اور آپ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔
مرحوم کی وفات ذاتی طور پر اس ناچیز کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے، مرحوم میرے بچپن کی ساتھی وہم جولی تھے، ویسے عمر میں وہ مجھ سے ڈھائی تین سال بڑے تھے، ان آپ کی پیدائش سنہ 1953ء کے آس پاس رہی ہوگی، لیکن ہم نے بچپن اور لڑکپن ایک ساتھ گذارا تھا۔ ان سے اس دور کی کھٹی میٹھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔
اس ناچیز نے بھٹکل کے تکیہ محلہ میں حافظ منزل میں آنکھیں کھولیں تھیں، محلہ کی شاذلی مسجد (تبلیغی مرکز) جانے کے لئے جہاں ہم مڑتے ہیں، وہیں دائیں طرف سڑک سے کچھ اونچائی پرجو زمین ہے،وہاں آپ کے والد کرایہ کے مکان میں یہاں رہتے تھے۔نوائط کالونی منتقل ہونے پر آپ نے ہمارے امین الدین روڈ ہی پر دو گھر بدلے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہمارے گھر کے قریب ہی اپنے ذاتی مکان سے نوازا۔ ہم اپنے گھر سے نکلتے تو آتے جاتے آپ کی گھر پر بھی ضرور نظر جاتی۔
آپ کی والدہ میری نانی کی چھوٹی بہن تھی، اور ان کی بڑی چہیتی تھیں۔انہی کی ایک بیٹی کووہ اپنی بہو بناکر لائی تھی، وہ رشتہ داریاں نبھانے کا زمانہ تھا۔ لہذا ان میں عجیب میل ملاپ تھا۔
آپ کے والد ماجد عبد القادر باشا قاضی میرے والد کے خالہ زاد بھائی تھے، ساتھ ہی پلے بڑھے تھے۔
خانوادہ منیری کے بزرگ مولانا محمد اسماعیل بن محی الدین منیری کے نواسے محمد باپو رکن الدین کی بیٹیوں میں سے ایک خدیجہ کا عقد نکاح محی الدین کولیا سے ہوا تھا جن کے فرزند حنیف کولا اور نواسے ڈاکٹر سید قاسم پیرزادے ہیں، دوسری دختر خیر النساء سے الحاج محی الدین منیری کی اولاد ہمارا خاندان ہے، اور تیسری بی بی عائشہ قاضی شیرور عبد الرحمن بن عبد القادر سے بیاہی گئی تھیں۔ مولوی عبد الصمد قاضی کے والد ماجد عبد القادر باشا قاضی آپ کے فرزند ارجمند ہیں۔
اس طرح مولوی عبد الصمد ایک طرف سے رشتہ کے ماموں تو دوسری طرف سے چچا زاد بھائی لگتے تھے ، اور جب بعد میں بہت ساری رشتہ داریاں جڑ گئیں تو ہمارا یہ رشتہ سگے بھائیوں جیسا ہی ہوگیا تھا۔
عبد القادر باشا قاضی مرحوم بہت پیارے اور خدمت گذار انسان تھے، روزانہ سارے محلہ اور خاندان والوں کا سودا سلف اپنے سائیکل پر ڈھو کر لاتے تھے۔
1962ء میں جب تنظیم ملیہ مسجد کا افتتاح ہوا تو وہ اس کے اولین موذن وامام مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں مسجد ایک کھلے میدان میں کھڑی تھی، قبلے کی جانب کالونی سرحد تک صرف ایک دو چھوٹے مکانات نظر آتے تھے، پھر وہاں سے جامعہ آباد تک چٹیل میدان تھا،جس میں سروں سے اونچی گھانس پھونس اگتی تھی۔
وہ بڑے محنتی انسان تھے، ہمیں یاد ہے مسجد کے پیچھے کچھ فاصلے پر جسے منیر آباد کہا جاتا ہے، اور جہاں اب مرحبا جیسی کئی ایک حویلیاں کھڑی ہیں، وہاں ایک ویران باغ تھا، جس کی چہار دیواری پر کاجو اور اندر چند ناریل آم اور امرود کے درخت لگے ہوئے تھے،ابھی وہاں پر بجلی نہ آنے کی وجہ سے کنؤوں سے پانی نکالنے کی سہولت نہیں تھی،آپ کئی فرلانگ دور تنظیم روڈ پر واقع غریب خانہ سے سائیکل پر رزانہ زمزم کے ڈرم میں پانی بھر کر لاتے اور ان درختوں کو سیراب کرتے تھے۔
مسجد کے ابتدائی زمانے میں ایک مرتبہ مائکروفون اور ایمپلی فائر چوری ہوگیا تھا، تو انتظامیہ کے حکم پر روزانہ نماز عشاء وزنی ایمپلی فائر اٹھا کر لے جاتے، اور فجر کی آذان کے وقت اسے واپس لے آتے۔
آپ نے مسجد کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انجمن حامی مسلمین کی طرف سے گورنمنٹ اسکول میں نونہالوں کو دینیات بھی پڑھایا، اس طرح وہ تیس سال سے زیادہ عرصہ تک محنت اخلاص اور دیانت داری سے اپنے فرائض منصبی انجام دے کر اپنے اہل وعیال کی کفالت کرتے رہے۔
مرحوم ایک باکمال عامل بھی تھے، یہ علم انہیں وجے واڑہ کے مولانا اسماعیل (فاضل مدرسہ رحمانی دہلی) سے ملا تھا۔ چونکہ لالچ اور دنیاداری کا قریب سے گذر نہیں ہوا تھا،تو ان کے روحانی علاج معالجہ میں بہت اثر محسوس ہوتا تھا۔ جس کے ہم خود چشم دید گواہ ہیں۔
ہماری والدہ مرحومہ کو 1967ء کے آس پاس ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی، جس میں بازو اور پیر لکڑی کی طرح اکڑ کر سخت ہوگئے تھے ، اور جبڑے بھی بند ہوگئے تھے ، جس سے منہ کھول کر کھانا محال ہوگیا، لہذا غذا کی ضرورت پوری کرنے اور بھوک مٹانے کے لئے شوربے جیسی مائع چیزوں پرانحصار کرنا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت لاغر اور کمزور ہوگئیں تھیں، ایک مرتبہ ہماری مرحوم چاچی (اہلیہ الحاج محی الدین منیری) جب حج بیت اللہ سے لوٹیں تو ہماری والدہ کی بیماری کی خبر سن کر انہیں دیکھنے آئیں، سب رشتہ داروں کی موجودگی میں ہماری والدہ انہیں بتانے کی کوشش کررہی تھیں کہ دیکھئے میری حالت اتنی معذور ہوگئی ہے کہ اپنے سامنے پڑی ہوئی ماچس کی تیلی پکڑ نہیں سکتی، یہ بتانے کی کوشش میں وہ یک طرف کو لڑھک کر مردہ جیسی ہوگئیں، یہ حالت کو دیکھ بڑی بوڑھیوں نے انہیں مردہ قرار دے دیا اور کلمہ پانی سے آپ کا ہونٹ تر کردیا، اور والدہ کے انتقال کی خبر اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں کہلوادی، قاضی باشا مرحوم خبر سن کر بھاگم بھاگ آئے، اور والدہ کے پاس بیٹھ کر اوراد واذکار پڑھنا شروع کیا، کیا دیکھتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں ہماری والدہ ہوش میں آکر بیٹھ گئیں، پھر باقاعدہ علاج شروع ہوا، اور خدا کے فصل سے وہ مزید نصف صدی تک بقید حیات رہیں، اور 14 فروری 2017ء کو طبعی حالت میں اپنے رب حضور چلی گئیں۔ باشا صاحب نے 22 اکتوبر 2001کو اسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ اپ نے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں یاد گار چھوڑیں، عبد الصمد فرزندان میں بڑے تھے۔
مولوی عبد الصمد نے ابتدائی تعلیم نوائط کالونی کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں پائی تھی، یہ ادارہ ادب اطفال کے پڑوس میں باوامیر کے مکان پر قائم تھا۔
مولانا عبد الحمید ندوی کے دور میں جب جامعہ اسلامیہ بھٹکل ،جامع مسجد میں منتقل ہوا تو سنہ 1966ء کے آس پاس آپ کا داخلہ یہیں مکتب پنجم میں ہوا تھا، آپ نے جامع مسجد میں عربی چہارم تک تعلیم مکمل کرکے 1969ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا رخ کیا، آپکے جامعہ کے ساتھیوں میں مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء شامل تھے۔
دوران طالب علمی آپ جامعہ کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے تھے، اپنے والد ماجد کی طرح آپ بھی خوش خط تھے۔ شعر وشاعری اور ادب کا ذوق بھی خوب تھا، اور اپنے درجے کے واحد طالب علم تھے جنہوں نے جامعہ سے عربی چہارم پاس کرکے ندوۃ العلماء کے عربی پنجم میں داخلہ لیا تھا، ورنہ آپ کے دیگر ساتھیوں کا ندوے کے عربی چہارم یا سوم سے زاید درجات میں داخلہ نہ ہوسکا تھا۔
ندوے میں آپ کو مولانا فاروق قاضی ندوی جیسے احباب کی صحبت ملی جس سے آپ کا تبلیغی جماعت سے تعلق قائم ہوا، ساتھ ہی ساتھ اس وقت لکھنو میں بقید حیات اکابر مولانا عبد الباری ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ وغیرھم کی خدمت میں بھی شرف باریابی کا موقعہ ملا۔ جب چھٹیوں میں آتے تو ہمیں ندوۃ کے احوال سناتے، اس زمانے میں مولانا سید واضح رشید ندویؒ اور مولانا اسحاق جلیس ندویؒ نئے نئے ندوے سے وابستہ ہوئے تھے، ان اساتذہ سے آپ کا گہرا تعلق رہا۔غالبا آپ نے 1972ء میں ندوے سے عالمیت اور 1974ء میں فضلیت کی سند پائی تھی۔
ندوے سے فراغت کے بعد کولا محی الدین کوچو باپا کے دور صدارت میں آپ نے مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل میں آفس انچارج اور ناظر کتب خانہ صدیق فری لائبریری کی حیثیت سے تین سال خدمات انجام دیں۔ یہ سال اس ناچیز کی زندگی کے سنہرے سالوں میں شمار ہوسکتے ہیں، کیونکہ صدیق لائبریری کے پوشیدہ علمی خزانوں کو بلا روک ٹوک جاننے اور اسے کنگھالنے کا موقعہ نصیب ملا، ورنہ اس سے پہلے بڑے بوڑھوں کی موجودگی میں صدیق لائبریری جاتے ہوئے حجاب سا محسوس ہوتا تھا۔
1978ء میں آپ کی تحریری و ادبی صلاحیتوں کو دیکھ کر جناب عبد الرحیم ارشاد مرحوم نے نقش نوائط میں معاون مدیر کی حیثیت سے آپ کا تقرر کیا، لیکن گھریلو ذمہ داریوں اور معاشی ضروریات کے بوجھ سے آپ نے 1982ء میں سعودی عرب کے شہر ریاض کا رخ کیا، جہاں آپ نے ترقی معاش کے لئے بڑی جد وجہد کی، اور بڑی مشکلیں اٹھا ئیں۔
مرحوم کا علمی وادبی ذوق بڑا پاکیزہ تھا، شاعری بھی اچھی کرتے تھے، اور مضطر تخلص رکھتے تھے۔
تلاش معاش کی ضرورتوں اور حالات نے ایک اچھے قلم کار، ادیب وشاعر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں، اور جس طرح ان کی علمی وادبی اٹھان ہوئی تھی، وہ برقرار نہ رہ سکی۔
جس طرح آپ کے والد ماجد نے آپ کی بہترین تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، اورہمیشہ آپ کی ہمت افزائی کی تھی، آپ نے بھی اپنے فرزندان کی دینی بنیادوں پر بہترین تربیت کی کوشش کی، یہ سبھی فارغ التحصیل ہوکر اپنے اپنے میدانوں میں کامیابی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ کی ذات سےا مید ہے کہ آپ کے اعمال صالحہ ترقی درجات کا باعث بنین گے، اور آپ کی ذریت صالحہ کے ذریعہ آپ کے اجر میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
2025-06-06