٘Mashwarah - Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:54AM Tue 23 Jan, 2024

سچی باتیں (۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ مشورہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

 

 

اگرآپ کے جسم میں کوئی بیماری پیدا ہوچکی ہو، اور آپ کو اُس کی خبر نہ ہو، اور کوئی شخص آپ کو اُس پر مطلع کردے، توآپ اُس شخص کے شکرگزار ہوں گے، یا اُلٹے اُس کے دشمن ہوجائیں گے؟ آپ کے گھر میں خدا نخواستہ آگ لگ چکی ہے، اور آپ بے خبر پڑے سورہے ہیں، ایسی حالت میں کوئی صاحب آکر آپ کو جھنجھوڑ کر اُٹھا دیتے ہیں، توآپ ان صاحب کو اپنا دوست وہواخواہ تسلیم کریں گے یا انھیں اپنا بدخواہ اور دشمن قرار دیں گے؟آپ کے سرپر کوئی اور مصیبت آنے والی ہے، اور ابھی آپ کو اس کا احساس نہیں، اتنے میں آپ کی ایک مِلنے والے آتے ہیں، اور آپ کو اس آنے والے خطرہ سے چونکا دیتے ہیں، بلکہ خود اُس کے رفع کرنے کی تدبیروں میں بھی آپ کے شریک ومعین ہوجاتے ہیں، توآپ اُن سے خوش اور راضی ہوں گے، یا ناخوش وناراض؟

دنیا کے کسی شعبہ کو بھی لے لیجئے، جوکوئی آپ کو کسی باب میں کوئی مفید مشورہ دیتاہے، آپ اُس مشورہ کی قدر ہی کرتے ہیں، اور مشورہ دینے والے کے شکر گزار ہوتے ہیں، ممنونِ احسان ہوتے ہیں ، باربار اُس کا ذکر تعریف کے ساتھ کرتے ہیں۔یہ آپ نے ایک عام قاعدہ مقرر کررکھاہے، خود آپ کی فطرت وسرشت اسی تائید میں ہے ، پر یہ کیاہے، کہ جب کوئی دینی مشورہ آپ کو دینا چاہتاہے، جب کوئی آپ کی عاقبت وآخرت کے سنوارنے میں آپ کو مدد دینے پر آمادہ ہوتاہے، تو آپ اپنے بنائے ہوئے قاعدہ کوخود ہی توڑ دیتے ہیں، اپنی فطرت سلیم کے خلاف اُس سے بگڑبیٹھتے ہیں، لڑ پڑتے ہیں، اُس کا مُنہ نوچ لینے کو تیار ہوجاتے ہیں؟ چاہئے تو یہ تھا، کہ آپ اُس شکر گزار وممنون احسان بدرجہا زائد ہوتے، کہ وہ آپ کی عارضی نہیں، دائمی راحت کا سامان بہم پہونچارہاہے، لیکن اس کے برعکس آپ اُلٹے اُسے اپنا دشمن ، اپنا مخالف، اپنا بدخواہ قرار دے لیتے ہیں، اور اُس کی ہر سیدھی سی سیدھی بات کو بھی ٹیڑھی سمجھنے لگتے ہیں!

فرض کیجئے، کوئی آپ کو یہ آکے مشورہ دیتاہے، کہ قلب کے اندر جو جو بیماریاں موجود ہیں، رشک، حسدوطمع، حُب جاہ، خودبینی وغیرہ جس طرح پرورش پارہے ہیں، بہتر ہوگا، کہ ان کے دَفع کرنے کی فکر کی جائے، ان کے علاج کے لئے فلاں فلان اطبائے حاذقین کی طرف رجوع کیاجائے۔ یا آپ سے عبادات کے اندر، معاملات کے اندر، ادائے حقوقِ اللہ کے اندر، ادائے حقوق العباد کے اندر، یہ یہ کوتاہیاں ہورہی ہیں، ان کی تلافی اور تدارک کی یہ یہ صورتیں ہیں، فلاں کا آپ نے دل دُکھایاہے، اس سے معافی مانگ لیجئے، فلاں کا حق آپ نے ماررکھاہے، اُس کا کفارہ دیجئے، یا آپ کے فلاں فلاں عقیدے، بلاتحقیق، محض ناعقلوں کی صحبت کے اثر سے آپ کے دل میں جم گئے ہیں، ذرااُن کی تحقیق کسی محقق کی طرف رجوع کرکے، فرمالیجئے، توان سب موقعوں پر آپ کو فی الحقیقت اس شخص کا شکر گزار ہوناچاہئے ، اسے اپنا اصلی مخلص ، محسن وہواخواہ ماننا چاہئے، یا یہ کہ، اس کے برعکس آپ اُس سے زبان درازی پر، ہاتھا پائی، آمادہ ہوجائیں؟ ذرا سوچئے تو، ایسے موقع پر آپ کو چاہئے کیاکرنا، اورآپ کررہے کیاہیں؟ ہونا کیا چاہئے، اور ہورہاکیاہے؟