Maghrib Ki Islam Dushmani

بات کچھ ایسی بہت زمانہ کی نہیں، ابھی 1924ء ہی کی توہے، کہ ٹرکی میں ’’اسلامی‘‘ حکومت تھی، غیروں کی زبان پر نہیں، خود اپنی نظر میں۔ ’خلافت‘ مِٹی تو مِٹی، یہ کچھ کم تھا کہ ترکیہ اپنے کو ’’اسلامی‘ ‘ حکومت کہہ رہی تھی۔ 24؍اپریل 24ء کو مجلس ملّی نے جودستور اساسی منظور کیا۔ اُس کی دفعہ 2تھی:-
’’حکومتِ ترکیہ کا مذہب اسلام ہے‘‘۔
اسی قانون کی دفعہ 26تھی:-
’’مجلسِ ملّی ذمّہ دار ہے قانونِ شریعت کے نفاذ کی‘‘۔
اور اسی قانون کی دفعات 16و16 میں یہ تھا کہ صدر جمہوریہ اور ارکان مجلس جو حلف لیں گے، وہ اللہ کے نام کا ہوگا۔
دوہی سال کے عرصہ میں یہ حال ماضی بن چکاتھا، اور یہ حقیقت افسانہ۔ 26ء میں ’’ترقی‘‘ کے نقیب نے پکار کرکہا، کہ آج سے دیوانی عدالتوں سے قانونِ شریعت منسوخ! اور اس کے بجائے سوئزرلینڈ کے فرنگیوں کا قانون جاری!
دوسال اور گزرے، 19؍اپریل 25ء کو قضا وقدر نے تجدد کی زبان سے یہ اعلان کرادیا، کہ
(1) دستور کی دفعہ 2منسوخ۔ (یعنی اب حکومت کا مذہب اسلام نہ رہا)۔
(2) دفعہ 26 میں ترمیم۔ (یعنی اب مجلس ملّی کو نفاذ شریعت سے کوئی واسطہ نہ رہا!
(3) دفعات 16و 26 میں ترمیم۔ (یعنی اب حلف میں بجائے اللہ کے نام کے صرف اپنی عزت نفس کا حوالہ دے دیاجائے)۔
ہوتے ہوتے 1937ء آیا۔ اور اب ارتداد ’’روشن خیالی‘‘کی تکمیل میں کوئی کسر باقی تھی، وہ پوری ہوگئی، یعنی یہ اعلان ہوگیا، کہ حکومتِ ترکیہ آج سے جہاں جمہوری ہے، قومی ہے، انقلابی ہے، وہیں خالص دنیوی یا غیرمذہبی ()بھی ہے!……مسلمانوں کے دلوں پر جو کچھ گزر کررہی، اُسے چھوڑئیے۔ دیکھئے مسیحیت کی تبلیغی دُنیا اس صورتِ حال کا استقبال کس مسرت وشادمانی سے کررہی ہے! مسیحی مشنری صاحبان فرماتے ہیں:-
’’اسلام کے قیود سے آزادی حاصل کرنے میں ٹرکی نے جو قدم اُٹھائے، اُن کی کوئی اورنظیر نہیں ملتی۔ اُس نے یہ حقیقت واضح کردی، کہ چاہے فرد ہو یا خاندان ہو یا ساری قوم، اس پر خود اندرونی تحریکات کا اثر جس زوروقوت کا پڑسکتاہے، وہ بیرونی موثراتِ ترغیب ،بلکہ جبروقوّت کا نہیں پڑسکتا‘‘۔
(مسلم ورلڈ، نیویارک، جولائی 40ء، ص: 265)
اورپھر فرماتے ہیں:-
’’اسلام سے یہ انقلاب آفریں قطع تعلق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہ اتنا کامل ہواہے نہ اتنی غیرمتوقع طورپر‘‘۔ (ص: 266)
حریف کی مسرت آپ نے دیکھ لی۔ حروبِ صلیبیہ (کروسیڈز) کی جنگی فتح مندیوں، عسکری عظمتوں کا بدلہ، آپ نے دیکھا کہ اس نے کس طرح امن وآشتی کے ہتھیاروں سے، آپ سے لے لیا!ظاہر بیں نگاہیں کہیں گی، کہ اسلام کی گرفت ڈھیلی پڑجانے سے مسیحیت کی جڑ کیسے جمنے لگے گی؟ بہتر ہے، یہی کہہ کر اپنا جی خوش کرلیجئے۔ لیکن حریف ، ہماری آپ کی طرح نادان نہیں۔ وہ دیکھ رہاہے اور صدیوں سے اسے پارہاہے، کہ اُس کی راہ کا اصلی پتھر ، نہ دہریت ہے، نہ یہودیت، نہ ہندودھرم ، نہ بودھ دھرم، بلکہ، اسلام اور صرف اسلام ہے!……حریف کے گھر میں اسی نغمۂ مسرت کے ساتھ ساتھ، نوحۂ حسرت بھی سُن لیجئے:-
’’اس کے بالکل برعکس دوسرے سرے پر افغانستان اور وسط عرب ہیں۔ ان ملکوں میں آج تک شریعت کا تسلط قائم ہے۔ افغانستان سے تو شاہ امان اللہ خاں کی اصلاحوں کا نام ونشان بھی مٹ گیا ہے…دونوں ملکوں میں نہ عیسائیوں کی کوئی قلیل آبادی ہے نہ ان کا کوئی مشن قائم ہے…دونوں ملکوں میں اسلام سے ارتداد کی سزامَوت ہے۔ اور حجاز کے دستورِ اساسی میں تو صاف صاف لکھاہواہے کہ اس ملک کا مذہب اسلام ہے، اور یہاں نافذ شریعت کا قانون ہے‘‘۔ (ص: 226)