علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی کا کارنامہ

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

06:51PM Thu 7 Sep, 2023

چند روز قبل ہماری بزم کے معزز رکن مونا عزیر فلاحی صاحب نے مشاجرات صحابہ پر  ہماری ایک سابقہ پوسٹ پر توجہ دلائی تھی کہ جس میں ہم نے کہا تھا کہ   تاریخ کے اس حساس موضوع  پر عرب یونیورسٹیوں میں جو موضوعاتی تحقیقی کام ہواہے، ان پر کبھی آئندہ گفتگو ہوگی ، ان شاء اللہ۔"

ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ابھی یہ بات ہمارے ذہن سے نہیں گئی ہے، ویسے اس موضوع پر کئی ایک تحقیقی مقالات کا تعارف اس ناچیز کے قلم سے کافی عرصہ قبل  مجلہ بحث ونظر پٹنہ میں شائع ہوچکا ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ ان شاء اللہ کچھ اور محنت کرکے اس تعلق سے مزید معلومات پیش کرسکیں، اور موقعہ ملے تو یہ کتابیں بھی فراہم کریں۔ لیکن اس وقت مناسب معلوم ہوتا ہے سیرت وتاریخ کے واقعات کی تحقیق و تنقید  کی جب بات آئی ہے تو  برصغیر میں ظہور پذیر ہونے والے ایک مجتھدانہ کارنامے کی یاد تازہ کی جائے، جس کا علم تو ہر خاص وعام کو ہے،  لیکن اس کی تفصیلات پر توجہ شاذ ونادر ہی جاتی ہے۔

سیرت النبی ایسا موضوع ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں ہی سے اس پر کتابیں منظر عام پر آنی شروع ہوئیں، اور امت مسلمہ مین ان کی پذیرائی  ہونے لگی، حضور اکرمﷺ سے  والہانہ محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ آپ کی زندگی کے ہر ہر  پہلو کی سے آشکارا کیا جائے ، تاکہ اس سے عمل کا جذبہ دلوں میں موجزن ہو سکے،  اس میدان میں  چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ہندوستان کے ایک استاد وشاگرد  علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کےقلم سے جو کارنامہ انجام پایا  تھا وہ اپنی نوعیت کا ایک اچھوتا اور منفرد  کارنامہ تھا، اور جس نے اپنے موضوع پر  ایک تجدیدی کارنامے کی حیثیت اختیار کی۔ آخر وہ کیا بات تھی جس نے اسے سیرت کے لٹریچر میں  وہ مقام بلند عطا کیا جو اس موضوع پر دوسری کتابوں کو حاصل نہ ہوسکا؟۔ ۔۔۔مزید

علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے ایک سو پندرہ سال قبل ۱۳۳۰ء ہجری میں اپنی معرکۃ آراء سیرت النبی ﷺ کی تصنیف کا آغاز کیا تھا، اس کی خوبیاں بہت ساری ہیں ، لیکن اس کا طرہ امتیاز اس کا منہج تحقیق تھا، جس کی وضاحت کتاب کے طویل مقدمہ میں دی گئی ہے، جو سیرت وتاریخ کے ایک طالب علم کے لئے بہترین رہنما کی حیثیت رکھتا ہے، اور یہ اردو میں سیرت وتاریخ کی کتاب پر لکھی گئی کسی کتاب پر اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ ہے،  اس زمانے میں واقعات سیرت ﷺ کی تنقیح وتحقیق کے سلسلے میں اس کتاب میں جو اصول اپنائے گئے تھے، ان کے بارے میں کتاب کے شریک مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں کہ:

  1. سب سے پہلے یہ کہ سیرت کے واقعات کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں مذکور ہے، ان کو سب پر مقدم رکھا ہے، یہ قطعاً ثابت ہے کہ بہت سے واقعات کے متعلق خود قرآن مجید میں ایسی تصریحات یا اشارے موجود ہیں جن سے اختلافی مباحث کا فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن لوگوں نے آیات قرآنی پر اچھی طرح نظر نہیں ڈالی ، اس لئے وہ مباحث غیر منفصل رہ گئے۔
  2.  قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے، احادیث صحیحہ کے سامنے سیرت کی روایتیں نظر انداز کر دی ہیں، جو واقعات بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں، ان کے مقابلہ میں سیرت یا تاریخ کی روایت کی کوئی ضرورت نہیں، ارباب سیر کو ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ واقعات کو کتب حدیث میں، ان موقعوں پر ڈھونڈھتے ہیں، جہاں عنوان اور مضمون کے لحاظ سے اس کو درج ہونا چاہیے اور جب ان کو ، ان موقعوں پر کوئی روایت نہیں ملتی تو وہ کم درجہ کی روایتوں کو لے لیتے ہیں، لیکن کتب حدیث میں ہر قسم کے نہایت تفصیلی واقعات ضمنی موقعوں پر روایت میں آ جاتے ہیں، اس لئے اگر عام استقرا اور تشخص سے کام لیا جائے تو تمام اہم واقعات میں خود صحاح ستہ کی روایتیں مل جاتی ہیں ، ہماری اس کتاب کی بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اکثر تفصیلی واقعات ہم نے حدیث ہی کی کتابوں سے ڈھونڈ کر مہیا کئے ، جو اہل سیر کی نظر سے بالکل او جھل رہ گئے تھے۔
  3.   روز مرہ اور عام واقعات میں ابن سعد، ابن ہشام اور طبری کی عام روایتیں کافی خیال کی ہیں، لیکن جو واقعات کچھ بھی اہمیت رکھتے ہیں، ان کے متعلق تنقید اور تحقیق سے کام لیا ہے اور تا امکان کد و کاوش کی ہے،اس خاص ضرورت کے لئے ہم نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ ابن ہشام، ابن سعد اور طبری کے تمام رواۃ کے نام الگ انتخاب کر لئے ، جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے، پھر اسماء الرجال کی کتابوں سے ان کی جرح و تعدیل کا نقشہ تیار کیا ، تا کہ جس سلسلہ روایت کی تحقیق مقصود ہو، بہ آسانی ہو جائے"۔
     

سیرت النبی ﷺ  کے موضوع پر اس کتاب میں تنقیح وتحقیق کے جن اصولوں کو اپنا یا گیا ہے ان کے بارے میں سوچنے کی بات ہے کہ یہ  آج کا زمانہ نہیں ہے، جب کہ تحقیق کے لئے  مطلوبہ مراجع کے بہتر سے بہتر نسخے علاء الدین کے چراغ کی طرح  پلک جھپکتے  میں دنیا کے کونے کونے سے مل  جاتے ہیں، لیکن اس کتاب  کی تصنیف کے وقت مطلوبہ کتابوں کا کیا کال  پڑا تھا ،ذرہ  اس کا حال  علامہ سید سلیمان ندوی کی زبانی ہی سنئے فرماتے ہیں کہ :

" مولانا کی زندگی میں اسکی تصنیف کے وقت ان کو بعض کتابیں قلمی ملی تھیں، جیسے روض الانف جس سے پورا استفاده وقت طلب تھا، اب وہ چھپ گئی ہے، بعض کتابوں کی ان کو تلاش ہی رہی، مگر ان کو مل نہ سکی   جیسے کتاب البدایہ والنہایہ ابن کثیر ، مصنف سے اکثر حسرت کے ساتھ سنا کہ افسوس تاریخ ابن کثیر نہیں ملتی ، وہ مل جاتی تو ساری مشکلیں حل ہو جاتیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب وہ چھپ کر عام ہوگئی ، مستدرک حاکم اس وقت تک ناپید تھی ، اب طبع ہو کر گھر گھر پھیل گئی، غرض ان کتابوں کے ہاتھ آجانے سے بہت سے نئے  معلومات بڑھ گئے ، چنانچہ اس نسخہ کی تصحیح و اضافہ میں ان سے کام لیا گیا"(سیرت النبی ۱/۹۳ )۔

یہ وہ زمانہ تھا  جب کہ عربی زبان کی مطلوبہ سیرت وتاریخ کی کتابیں عالم اسلام سے  زیادہ  یورپ کے محققین کے زیر ادارت محدود تعداد میں شائع ہوتی تھیں اور یہ عموما مسلم علماء و دانشوروں  کی دسترس سے دور ہوتی تھیں،  علامہ مزید فرماتے ہیں:

" مسلمانوں کے ہاں عربی زبان میں سیرت و مغازی کی جو کتا ہیں ( قلمی شکل میں) محفوظ تھیں، وہ ایک ایک کر کے باستثنائے چند ، اٹھارہویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ   گئیں اور ان میں اکثر کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہو گیا، سب سے پہلے رسک (Reiske) المتوفی ۱۷۷۴ءنے تاریخ ابو الفداء مع ترجمہ لاطینی و حواشی پانچ جلدوں میں شائع کی۔ ۱۸۰۹ء میں کیپٹین اے   (A-N-Mathews) نے کلکتہ سے مشکوۃ المصابیح کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا ، ۱۸۵۶ء میں دان کر یمر (Kremer) نے کلکتہ میں محمد بن عمر واقدی کی کتاب المغازی طبع کرائی ، ۱۸۶۰ ء میں ابن ہشام کی مشہور تصنیف سیرت الرسول کی گوٹنگن (Gottingen) سے اشاعت کی ، اس کے علاوہ اسی مستشرق نے سمہودی کی تاریخ مدینہ اور ابن قتیبہ کی تاریخ معارف طبع کرائی، ۱۸۶۶ء میں ڈاکٹر ویل (G-Weil) نے ابن ہشام کا جرمنی میں ترجمہ کیا ، ۱۸۷۷ء میں پیرس سے مسعودی کی تاریخ مروج الذهب مع ترجمہ فرانسیسی پروفیسر ڈی مانیا رڈ نے شائع کی ، ولہوسن (Wellhausen) نے ۱۸۸۲ء میں واقدی کا جرمن ترجمہ بعنوان "محمد به مدینہ " بر لین سے شائع کیا ، ۱۸۸۳ء میں لیڈن سے ہاؤٹسما (Houtasma) کے اہتمام سے یعقوبی کی تاریخ دو جلدوں میں چھپی - ۱۸۷۹ء ۱ء۱۸۹۲ء  تک چودہ برس کی محنت میں طبری کی مشہور اور نادر الوجود تاریخ  بارتھ (J. Barth) اور نولد یکی (Noldeke) وغیرہ نے شائع کی اور سب سے آخر میں مشہور جرمن مستشرق پروفیسر سخاو (Sachau) کی خاص کوشش اور دیگر سات مستشرقین کی اعانت سے ابن سعد کی عظیم الشان اور نادر الوجود طبقات جس سے زیادہ مبسوط سیرت نبوی میں کوئی تصنیف نہیں ، تقریبا ۱۹۰۰ ء سے گزشتہ سال تک ایک ایک جلد کر کے لیڈن سے شائع ہوتی رہی( سیرت النبی :۸۸)۔

سیرت النبی ﷺ تحقیق وتنقیح کے اس کڑے اسلوب کو کیوں اپنا یا گیا تو اس سلسلے میں علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:

" سیرت کی کتابوں کی کم پائیگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید کی ضرورت احادیث احکام کے ساتھ مخصوص کر دی گئی، یعنی وہ روایتیں تنقید کی زیادہ محتاج ہیں جن سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں، باقی جو روایتیں سیرت اور فضائل وغیرہ سے متعلق ہیں، ان میں تشدد اور احتیاط کی چنداں حاجت نہیں.( سیرت النبی ۱/۶۳)

اور یہ کہ " جن بڑے بڑے نامور مصنفین ، مثلا : امام طبریؒ وغیرہ نے سیرت پر جو کچھ لکھا اس میں اکثر جگہ مستند احادیث کی کتابوں سے کام نہیں لیا۔بعض واقعات نہایت اہم ہیں ان کے متعلق حدیث کی کتابوں میں ایسی مفید معلومات موجود ہیں جن سے تمام مشکل حل ہو جاتی ہے، لیکن سیرت اور تاریخ میں ان معلومات کا ذکر نہیں۔ مثلا: یہ امر کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی کی سلسلہ جنبانی کس کی طرف سے شروع ہوئی ؟
ایک بحث طلب واقعہ ہے، تمام ارباب سیر اور مؤرخین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا کی لیکن سنن ابی داؤد میں صاف اور صریح حدیث موجود ہے کہ جنگ بدر سے پہلے کفار مکہ نے عبد اللہ ان ابی کو یہ خط لکھا کہ " تم نے محمد ﷺ کو اپنے شہر میں پناہ دی ہے ان کو نکال دو، ورنہ ہم خود مدینہ آ کر تمہارا اور محمد ( ﷺ ) دونوں کا استیصال کر دیں گے ۔ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ سرے سے منقول نہیں۔(سیرت النبی ۱/۶۶ )

دوسرے یہ کہ" سیرت میں اگلوں نے جو کتابیں لکھیں، ان سے مابعد کے لوگوں نے جو روایتیں نقل کیں انہی کے نام سے کیں، ان کے مستند ہونے کی بنا پر لوگوں نے ان تمام روایتوں کو معتبر سمجھ لیا اور چونکہ اصل کتا ہیں ہر شخص کو ہاتھ نہیں آ سکتی تھیں، اس لئے لوگ راویوں کا پتہ نہ لگا سکے اور رفتہ رفتہ یہ روایتیں تمام کتابوں میں داخل ہو گئیں، اس تدلیس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مثلاً : جو روایتیں واقدی کی کتاب میں مذکور ہیں، ان کو لوگ عموما غلط سمجھتے ہیں لیکن انہیں روایتوں کو جب ابن سعد کے نام سے نقل کر دیا جاتا ہے تو لوگ ان کو معتبر سمجھتے ہیں ، حالانکہ ابن سعد کی اصلی کتاب ہاتھ آئی تو پتہ لگا کہ ابن سعد نے اکثر روایتیں واقدی ہی سے لی ہیں"۔

سیرت نویسی کے منہج میں اس بنیادی غلطی کی وجہ سے جہاں یورپی مصنفین کے مذہبی اور سیاسی تعصب کو غذا ملی،   وہیں خالی الذہن مصنفین کے ذہن کو بھی گدلا کردیا ، اور ایک طرح سے وہ بھی معذور ہوگئے، علامہ ندویؒ کی نظر میں  اس کی  "سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا تمام تر سرمایہ استناد صرف سیرت و تاریخ کی کتا ہیں ہیں، مثلا : مغازی واقدی، سیرت ابن ہشام، سیرت محمد بن اسحاق، تاریخ طبری وغیرہ اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی غیر مسلم شخص اگر آنحضرت ﷺ کی سوانح عمری مرتب کرنا چاہے گا تو عام قیاس یہی رہبری کرے گا کہ اس کو تصنیفات سیرت کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ سیرت کی تصنیفات میں سے ایک بھی نہیں جو استناد کے لحاظ سے بلند رتبہ ہو، چنانچہ اس کی بحث او پر گزر چکی مصنفین سیرت سے قطع نظر، سیرت کی روایتیں زیادہ تر جن لوگوں سے مروی ہیں ۔ مثلا : سیف، سری ابن سلمہ، ابن نجیح  عموما ضعیف الروایۃ ہیں ، اس لئے عام اور معمولی واقعات میں ان کی شہادت کافی ہو سکتی ہے، لیکن وہ واقعات جن پر مہتم بالشان مسائل کی بنیاد قائم ہے ان کے لئے یہ سرمایہ بیکار ہے۔
اس اختلاف اصول نے یورپین تصنیفات پر بہت بڑا اثر پیدا کیا ہے، مثلا: اہل یورپ واقدی کے بیان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ واقدی کا بیان نہایت مسلسل اور مربوط ہوتا ہے،جزئیات کی تمام کڑیاں باہم ملتی چلی جاتی ہیں، واقعات میں کہیں خلا نہیں ہوتا ، جو چیزیں کسی واقعہ کو دلچسپ بنا سکتی ہیں۔ سب موجود ہوتی ہیں ۔(سیرت النبی ۱/ ۹۲)

یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو واقعات سیرت سرور عالم ﷺ اور خیر القرون کی مقدس اور محترم شخصیات صحابہ کرامؓ، تابعین و تبع تابعین ؒ کی شبیہ کو ان کی حقیقی شکل میں پیش نہیں کرتے یا ان کی سیرت پر میل ڈال دیتے ہیں، ان کے لئے حدیث نبوی ﷺ کے تنقیدی اصولوں کو اپنانے کی اولین سنجیدہ فکر اور کوشش آج سے ایک صدی پیشتر بر صغیر کے ان محققین نے کی ہے۔ ان اصولوں کو تحقیقات میں اپنانے کی سنجیدہ فکر سیرت النبیﷺ کی تصنیف کے دسیوں سال بعد اس وقت نظر آتی ہے جب انکار حدیث کا فتنہ رونما ہوا، پھر ایک  طویل خاموشی کے بعد سنہ ساٹھ کی دہائی کے بعد یہ  اس وقت نظر آتی ہے جب ناصبیت نے ہاتھ اور پیر باہر نکالنے شروع کئے۔

لیکن یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ  ایک پوری صدی تک علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کے اس کارنامے کے صرف نام سے عالم اسلام متعارف رہا، اور اس کتاب کا عربی ترجمہ ابھی چند سال قبل منظر عام پر آیا ہے۔

جو علمی تحقیقی اور فکری کام ہوتے ہیں، ان کی ایک  محدود عمر ہوتی ہے، کیونکہ جب وسائل مہیا نہ ہوں، کتابیں دستیاب نہ ہوں، اس وقت جو  محنتیں ہوتی ہیں، ان کی تاریخی اہمیت  تو باقی رہتی ہے، لیکن نئے  وسائل اور مواد کی  فراہمی اور حالات کی تبدیلی کے بعد ان کا وہ وزن باقی نہیں رہتا جو ابتدا میں ہوا کرتا ہے، بہت سی تحقیقات کے نتائج بعد میں غلط ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ نتائج دستیاب وسائل اور مراجع کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔

 ۱۹۷۰ء کی دہائی کے بعد علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کے دئے ہوئے منہج پر سعودیہ وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں اچھا خاصا او رمعیار ی کا م ہوا ہے ، اگر سیرت النبی ﷺ کا عربی ایڈیشن اس وقت  ان کے سامنے ہوتا تو شاید یہ ان محققین کے لئے تحقیق کے ایک گرانمایہ نمونے کی حیثیت رکھتا،  اور اس موضوع پر ہونے والے قیمتی علمی کاموں کا سہرا اس کے سر بندھتا۔

ہمارا خیال ہے کہ سیرت و تاریخ  اور فکر اسلامی کے میدان میں چودھویں صدی ہجری میں اردو زبان میں تیار شدہ لٹریچر دوسری زبانوں سے زیادہ مالا مال اور قیمتی تھا۔ ایک دو مفکرین کو چھوڑ کر  زیادہ تر لٹریچر عالم اسلام کے لئے مجہول ہی رہا۔اور جب یہ بڑے لوگ گذر گئے تو صرف ان کی تعریفوں میں پل باندھنے کو ہم نے کافی سمجھ لیا، ان کے  علمی اور فکری کاموں کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی۔

یورپ کا مزاج اس سے مختلف ہے، وہاں جو بڑے تحقیقی اور علمی کام ہوتے ہیں،  مثلا اکسفورڈ اور کیمبرج کی ڈکشنریاں  ہیں، یا پھر انسائیکلوپیڈیا اور اطلس  ہیں تو ان میں مسلسل اضافوں کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے، اس طرح یہ چیزیں ہر زمان ومکان کے لئے مفید اور رہنما بنتی ہیں، یہ بات ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتی، لہذا بیسویں صدی میں جو بڑی شخصیات برصغیر میں پیدا ہوئیں، ان کے منہج  پر علمی کاموں کے اضافے کی خبریں شاذو نادر ہی سننے کو ملتی ہیں۔ جن شخصیتوں نے گذشتہ صدی علم وتحقیق اور فکر کے میدان میں عظیم کارنامے انجام دئے، اب یہ ماضی کے مزارات بنتے جارہے ہیں، اب ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ کوئی نیا مسئلہ یا تنازعہ سامنے ہو تو عقیدت میں سو پچاس سال پرانی فلان فلان مصنف اور مفکر کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کتابوں کا اسلوب یا مواد آج کے زمانے والوں کے لئے اپنے اندر دلچسپی نہیں رکھتا، چاہئے تو یہ تھا کہ ان شخصیات نے علم وتحقیق فکر وفلسفے وکلام کے میدانوں میں جو محنتیں کی ہیں، ان کی بنیاد پر نئی بلند وبالا عمارت کھڑی کی جاتی، لیکن اکابر کی بنیاد پر علم وفکر کی نئی تعمیر ہمارے مزاج میں داخل نہیں ہے۔

ہمارے دوست اور ساتھی جن سے  آپ سبھی واقف ہیں، مولانا مفتی شاہ جہاں صاحب، وہ جب حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ کی فیض الباری سے نکات نکالتے ہیں تو ہمیں کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ شاہ صاحب اور فیض الباری کے نام لیوا تو بہت ہیں، لیکن اسے سمجھنے والے شاید ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکیں، ہم نے مولانا سے کہا کہ آپ کو موجودہ نسل کے معیار سے بڑی شکایتیں ہیں، آپ کم از کم اتنا تو کریں کہ  فیض الباری کے مطالعے کے وقت جو نکات یاد آتے ہیں انہیں کتاب پر سلسلہ وار نمبر لگا کر تحریری شکل میں محفوظ کریں۔ اس سے کم از کم فیض الباری کےمعانی کی گہرائیوں تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کے قریبی دور میں ہمارے جو اکابر گذرے ہیں چاہے وہ اداروں سے وابستہ رہے ہوں یا انہوں نے تحریکات کی بنا ڈالی ہے ہم  صرف ان کی محبت اور ان کے دفاع میں  جذباتی ہونے کو احسان شناسی سمجھ کر اکتفا نہ کریں، بلکہ انہوں نے جو اصول ومنہج دیا ہے، ان کی بنیاد پر مزید ترقی کے لئے بھی کوشاں ہوں۔

 اللہ تعالی علامہ شبلی نعمانی، علامہ سید سلیمان ندوی ، اور ان کے رفقاء مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، مولانا عبد الباری ندوی ؒ وغیرہ کی قبریں نور سے بھر دے، انہوں نے سیرت پاک ﷺ کے موضوع پر جو کارنامہ انجام دیا وہ اپنے وقت سے پہلے کا تھا۔