Khush Kalami Kay Faiday (04) Dr. F Abdur Rahim

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

10:09PM Wed 13 Dec, 2023

ایک بار میں نے برٹش ویزا کے لیے درخواست دی تھی، مجھے انٹرویو کے لیے قونصل خانہ بلایا گیا۔ وہاں ایک خاتون اہل کار نے میرا انٹر ویو لیا۔ کسی تمہید کے بغیر اس نے پوچھا: تم بر طانیہ کیوں جار ہے ہو ؟

میں نے کہا: تم نے ایک نہایت ہی عجیب و غریب سوال کیا ہے۔

وہ بولی: میرا سوال عجیب و غریب کیوں ہے؟

میں بولا: ایک برطانوی سے یہ پوچھنا کہ تم برطانیہ کیوں جارہے ہو عجیب و غریب  نہیں ہے؟ وہ بولی تو کیا آپ British citizen ہیں؟ میں نے کہا: میری پیدائش برطانوی تاج کے سایہ تلے ہوئی تھی، میری پیدائش کے وقت میرے سر پر Union Jack لہرا تھا۔ جب میں مدرسہ جانے لگا تو پہلے پہل میں Union Jack کی سلامی لیتا، پھر God Save The King کا ترانہ پڑھتا، اور اس کے بعد ہی اسباق شروع ہوتے۔

جب یونیورسٹی پہنچا تو شیکسپیر، ملٹن، دور ڈسور تھ ، کولرج، جو نسن، شیلی، کیٹس وغیرہ کی کتابیں پڑھیں، اور Old English میں لکھی ہوئی طویل رزمیہ نظم Beowulf بھی پڑھی، جس کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے:

Sigan Þæ to slæpe,

Sum săre angealt æven ræste.

اس شعر کا ترجمہ یہ ہے: ” پھر وہ لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے ، لیکن ان کو بوقت  شام آرام کرنے کی بڑی قیمت چکانی پڑی۔ جس کو آج کل کوئی بھی انگریز نہیں سمجھ سکتا۔

کیا ان تمام حقائق کے علی الرغم مجھ سے یہ سوال کرنا کہ تم برطانیہ کیوں جارہے ہو ایک عجیب و غریب سوال نہیں گردانا جائے گا ؟

میری اس مسلسل تقریر کے دوران انٹرویو والی خاتون اہلکار برابر مسکرارہی تھی۔ جب میری تقریر ختم ہوئی تو اس نے کہا:

مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ آپ کو ویزا مل جائے گا۔ کل اس وقت آکر  لے لینا۔

میں نے کہا: ایک اصلی برطانوی باشندے کو ویزا کے حصول کے لیے پورا ایک دن  انتظار کرنا پڑے گا ؟ وہ ہنس پڑی۔ بولی: میں تمہارا ویزا ابھی نکلواتی ہوں، بس پانچ منٹ انتظار کر لیں۔ خوش کلامی کے لیے کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا۔