کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ(۰۲)۔۔۔ از: عبد المتین منیری(بھٹکل)

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Books Introduction

07:20AM Sun 15 Jan, 2023

تعارف کتاب: کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ ( جلد دوم )

تبصرہ: وارث سرہندی

حاشیہ وتعلیقات: شان الحق حقی

ناشر: مقتدرہ قومی زبان اسلام آؓباد

۱۹۸۶

صفحات:  ( ۵۱۵ )

 تعارف نگار: عبد المتین منیری (بھٹکل )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جلد اردو کی دو معروف ڈکشنریوں فیلن کی نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری اور  خواجہ عبد المجید کی جامع اللغات کے جائزے اور ان کے تسامحات کی تصحیح پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر فیلن کی لغت سنہ ۱۸۷۹ میں آج سے ڈیڑھ سوسال قبل بنارس اور لندن سے شائع ہوئی تھی، مصنف ۱۸۳۷ء میں بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے منسلک ہوئے تھے، آپ نے کئی ایک کتب لغت ترتیب دیں، جن میں انگلش ہندوستانی ڈکشنری بھی ایک وقیع لغت ہے۔

اہل لغت کو ابتدا میں کتب لغت کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ وہ اپنی مادری زبان کو سمجھ رہے ہوتے ہیں ، لہذا کتب لغت اور قواعد عموما ابتدا میں  غیر زبان بولنے والوں کے لئے لکھی جاتی ہیں، اردو میں بھی لغت اور قواعد کی کتابیں ابتدا میں نووارد انگریزوں کے لئے تیار کی گئی تھیں، تاکہ وہ مقامی لوگوں کی زبان سمجھ سکیں،اور ان سے معاملات کرسکیں، لیکن ان مصنفین نے اس کی تیاری میں جو محنت صرف کی اس نے ان کتابوں کو مرجع کی حیثیت دے دی، فیلن کی اس لغت کا شمار بھی اردو کے ایسے ہی مراجع میں ہوتا ہے، فرہنگ آصفیہ کے مصنف مولوی سید احمد مرحوم اس لغت کی تیاری کے وقت فیلن کے ساتھ ساتھ رہے، اور انہیں لغت نویسی سے دلچسپی فیلن کی صحبت ہی سے حاصل ہوئی ، لہذا کہا جاتا ہے کہ اگر فیلن کی لغت نہ ہوتی تو پھر فرہنگ آصفیہ بھی وجود میں نہیں آتی۔

فیلن کی لغت کا مقدمہ لغت نویسی کے اصول ومبادی جاننے کے لئے اہم مرجع شمار ہوتا ہے۔ اس لغت کی تیاری کے دنوں میں اردو یا ہندوستانی کی حدود و ابعاد متعین نہیں تھے، لکھنو اور دہلی کی زبان رائج تھی لیکن اس وقت تک دکنی اور گجراتی لہجوں کے سلسلے میں محققین کا  موقف واضح نہیں تھا، بقول علامہ اقبال اس وقت بھی اردو دور تشکیل میں تھی اور آج بھی دور تشکیل میں ہے (۱۹۰۳ء )، لیکن فیلن نے بڑی محنت کرکے ہندوستان کے چپے چپے کا چکر لگایا، اور یہاں پر رائج اردو یا ہندوستانی زبان کے الفاظ کو جمع کیا، انہوں نے زبان کے مفردات جمع کرنے کے لئے چند اصول متعین کئے اور اس کے لئے جاں توڑ محنت کی، وہ لکھتے ہیں کہ:

موجودہ تالیف کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں ہندوستان کے ہندی بولنے والے باشندوں کی بول چال خصوصا مضافات کے لوگوں کی مادری زبان کو خاص طور پر جگہ دی گئی ہے، عورتون کی ستھری اور خالص بولی کو پہلی بار سامنے لایا جارہا ہے، نیز الفاظ کے استعمال کو روز مرہ بول چال ، نظموں گیتوں ، کہاوتوں ، اور عوامی کہانیوں سے اخذ کردہ مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔۔۔

عوام کی بولی ہماری لغتوں میں سے تقریبا غائب ہے، اس کی جگہ بے تحاشا عربی، فارسی او سنسکرت الفاظ بھر دئے گئے ہیں،جو تحریری یا بول چال کی ہندوستانی میں یا تو بالکل ہی نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم، دوسری زبانوں کی لغتوں سے نکال نکال کر نامانوس الفاظ کو مقامی زبان پر مسلط کرنا مولویوں اور پنڈتوں کا مرغوب شیوہ ہے، اس طرح انہوں نے ایک جاندار اور بامزہ زبان کا حال پتلا کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔۔

بہت سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے محاورات ، امثلہ اور گیت، جو خواہ مقامی ہوں، لیکن عام طور پر قابل فہم ہیں، بلکہ پورے ملک میں رائج ہیں۔۔۔ اور ان کی صداقت اور مفہوم کو ہر جگہ سمجھ لیا جاتا ہے، جہاں جہاں ہندوستانی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔۔ سب اس زبان کی لغت میں جگہ پانے کے لائق ہیں  جو ہندوستان میں سب سے زیادہ وسیع طور پر زبان رائج ہے۔۔۔

مولوی اور پنڈت اپنی مصنوعی زبان کا پبلک میں کتنا ہی ڈنکا بجائیں، یہی جیتی جاگتی بولی جسے وہ حقارت سے گنوارو کہتے ہیں، ان کے گھروں ، بازاروں  اور عام سماجی روابط میں ان کے کام آتی ہیں اور ان کے دل وجان کو گرماتی ہے۔۔۔

اصل قومی زبان وہ ہے جس پر عوامی چھاپ ہو اور اس سلسلے میں عورتوں کی بولی کی جگہ سب سے پہلے ہے۔۔۔۔

زبان ڈکشنری کی مدد سے نہین سیکھی جاسکتی، ڈکشنری کا کام تو بقول سقراط یہ ہے کہ مبہم حتمی اور واضح کردے، دھندلی یاد داشتوں کو روشن اور تازہ کردے، ذہن کو آئینہ دکھا کر قائل کردے کہ جو بات اکثر خیال میں آئی ہے، اتنی اچھی طرح کبھی نہین بیان ہوئی تھی۔۔۔

 (اردو کے مفردات جمع کرنے کے لئے انہوں نے جو محنت کی اس بارے میں کہتےہیں کہ  )

مقامی زبان کو کون سا بولنے والا ہے، جو پوری زبان جانتا ہو۔۔۔ لیکن معترض کو اطمئنان رکھنا چاہئے کہ مندرج الفاظ ومعنی کے لئے سند اور تائید مدرسے سے لے کر اصطبل تک ، شہر سے لے کر دیہات تک۔۔۔ مختلف صوبوں سے۔۔۔ درزیوں ، جلاہوں، کمہاروں چرواہوں ، سائسوں تک سے حاصل کی گئی ہے۔۔۔۔

فیلن کی اس محنت کو دیکھتے ہوئے اردولغت کبیر کے مدیر شان الحق حقی مرحوم کا کہنا ہے کہ: یہ گمان صحیح نہیں کہ انگریز لغت نگار صرف سیاسی و انتظامی مصلحت و ضرورت کی بنا پر لغت نگاری سے دلچسپی رکھتے تھے، ان کےعلمی شغف اور زبان سے سچی دلچسپی کا اعتراف کرنا چاہئے، ان کے بعض خیالات یا ذوقی ترجیحات سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان پر دانستہ تعصب یا مسلمانوں سے بغض وبیر کر الزام لگانا قرین قیاس ہوگا۔

وارث سرہندی نے بڑی جانفشانی سے فیلن کی اس لغت کی خامیوں کو درست کرکے اس کی افادیت اور استناد میں اضافہ کیا ہے۔

دوسری لغت جس کی خامیوں کی تصحیح کی کوشش اس جلد میں کی گئی ہے وہ  خواجہ عبد المجید کی جامع اللغات ہے، جو اپنے وقت کی اردو کی جامع ترین لغت شمار ہوتی ہے، خواجہ عبد المجید اہل علم خاندان سے تھے، مشہورمحقق مشفق خواجہ آپ کے بھیتیجے تھے۔ جامع اللغات میں کتابت میں کافی غلطیاں پائی جاتی تھیں، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اس کی پروف ریڈنگ اختر شیرانی نے کی تھی۔

زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ سلسلہ بہت مفید ہے، موضوع کی خشکی کے باوجود ان کتابوں سے  تعلق باقی رکھنا چاہئے۔

کتاب علم وکتاب ٹیلگرام چینل پر دستیاب ہے۔

 https://t.me/ilmokitab/9129

Whatsapp: 00971555636151