کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ (۰۶)۔۔۔ عبد المتین منیری(بھٹکل)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

07:42AM Sun 15 Jan, 2023

نام کتاب: کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ ( جلد ششم)

مصنف: وارث سرہندی

ناشر: مقتدرہ قومی زبان ۔ اسلام آباد

سنہ : ۱۹۸۷

صفحات: ۳۱۸

تعارف نگار: عبد المتین منیری ( بھٹکل)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سلسلے کی گذشتہ قسط میں ہم نے فرہنگ اثر کا تعارف پیش کیا تھا، جس میں اثر لکھنوی مرحوم نے جلال لکھنوی کی تحفہ سخنوراں یا سرمایہ زبان اردو اور نور الحسن نیر لکھنوی کی نور اللغات کیا تھا۔ وارث سرہندی کی اس سلسلے کی یہ جلد بھی نور اللغات سے متعلق ہے۔مصنف نے نوراللغات اور اردو کتب لغت کی تصنیف میں دشواریوں کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا ہے:

نوراللغات" کا اردو کی ان معدود به چند کتب لغت میں شمار ہوتا ہے جن کی اہمیت و افادیت ہر دور میں باقی رہے گی ۔ اردو زبان کا کوئی بھی طالب علم اور لغت نگار ان سے صرف نظر نہیں کر سکتا ۔

نور اللغات چار جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم لغت ہے ۔ جس میں اردو کے سبھی الفاظ تو نہیں ، البته اكثر الفاظ کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان الفاظ و محاورات کی اساتذہ اردو کے کلام سے اسناد بھی پیش کی گئی ہیں ۔ یہ دعوی تو کوئی لغت نگار بھی نہیں کر سکتا کہ اس نے اپنی لغت میں پوری زبان کا احاطہ کر لیا ہے، کیونکہ زبان بھی ایک بحر ناپیدا کنار ہے،

 جس کا اور چھور نہیں ملتا ۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی لائق اور جامع العلوم ہو ، زبان کے ہر پہلو اور گوشے پر یکساں نظر نہیں رکھ سکتا ۔ ایسی صورت میں تو یہ بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے جب تمام کام ایک شخص کے ذمے ہو ۔ زبان بھی اردو جیسی زبان ، جس کی حدود کا تعین اگر محال نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی لچک ہے کہ دنیا کی ہر زبان کا لفظ اس میں کھپ سکتا ہے ۔ عربی ، فارسی اور ہندی تو اس کی قربت دار ہیں ۔ چنانچہ ان زبانوں کا ہر لفظ اردو میں بلا تكلف استعمال ہوسکتا ہے ۔

اگر استعمال کرنے والا سلیقہ مند ہو تو ثقیل سے ثقیل لفظ بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتا ۔ کیوں نہ ہو ، یہ زبانیں اردو کے خمیر میں شامل ہیں ۔ اس لیے اردو کی جامع لغت تو وہی ہو سکتی ہے جس میں ان زبانوں کے تمام الفاظ شامل ہوں ۔ اگر ایسی کوئی لغت مرتب کی جائے تو بھی کوئی نہ کوئی گوشہ رہ جائے گا ۔ کیونکہ اردو کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے سبھی علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے . اس لیے ہر علاقے کے مقامی الفاظ اور علاقائی لہجہ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے ۔ تمام علاقائی الفاظ کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے اور شاید ناممکن ۔ کیونکہ کوئی بھی لغت نگار ہر علاقے کی زبان کا ایسا ماہر اور عالم نہیں ہو سکتا کہ ہر علاقے کا ہر لفظ اس کے ذہن میں محفوظ ہو ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ کہ زبان بنیادی طور پر بولنے سے تعلق رکھتی ہے تحریر سے اس کا تعلق ثانوی درجے کا ہے، تحریر ایک فن ہے ، جو انسان کی تمدنی ترقی  کا مظہر ہے۔  اور تمدنی ضروریات کے تحت وجود میں آیا ۔ لیکن زبان اس وقت بھی موجود تھی جب انسان تمدن کے نام سے بھی آشنا نه تها - اگر چہ تحریر کی ایجاد سے زبان کو بہت ترقی ملی، لیکن تحریر کسی بھی زبان کا احاطہ نہیں کر سکی ۔ ہر زبان اور ہر بولی کے بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو بولے جاتے ہیں ، مگر تحریر میں نہیں آتے ۔ لغت نگار کے پیش نظر عموماً کسی زبان کا تحریری سرمایہ ہوتا ہے ، اس لیے کسی بھی لغت میں کسی بھی زبان کے وہ تمام الفاظ شامل نہیں ہو سکتے ، جو بولنے میں آتے ہیں ۔ محض ہولنے کی حد تک محدود الفاظ سے صرف نظر کر لیا جائے تو بھی یہ ممکن نہیں کہ کسی زبان کے تمام تحریری سرمایے تک مکمل دسترس حاصل کی جائے ۔ بہر حال اہل لغت نے اپنی سی کوششیں کی کہ تمام نہیں تو اكثر الفاظ محفوظ و منضبط کر لیے جائیں اور وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ جامعیت کے نقطہ نظر سے اردو میں جامع اللغات" اور اس کے بعد اردو لغت بورڈ ، کراچی کی زیر تالیف و اشاعت لغت میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اردو کے وہ تمام الفاظ منضبط کر لیے جائیں جو معرض تحریر میں آ چکے ہیں ۔ یہ واقعی ایک کارنامہ ہے ، جس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ لیکن پھر بھی بعض الفاظ ان کتب لغت میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں جو بعض کتابوں میں شامل ہیں ۔

جن كتب لغت میں اسناد کے اندراج کا اہتمام و التزام کیا جاتا ہے، ان میں ضخامت کا مسئلہ ضرور پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اسناد کے اندراج سے لا محالہ طور پر کتاب کی ضخامت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ کوئی بڑا ادارہ تواتني ضخامت کا متحمل ہو سکتاہے ، لیکن ایک شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس مسئلے سے بے نیاز ہو کر کام کر سکے اسے بہر حال ضخامت کی ایک حد کا تعین کرنا پڑتا ہے اور اس حد میں رہنے کے لیے اسے بعض الفاظ ترک کرنا پڑتے ہیں۔ اس ترک و انتخاب میں ہر مولف کے ذاتی نقطہ نظر اور رجحان کا دخل ہوتا ہے ۔ ہر شخص کی اپنی پسند و ناپسند اور مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ جن کو بہر حال ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ تاہم ایک معیار بہرحال ہوتا ہے ۔ جس کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی لغت محض نادر الاستعمال الفاظ پر مشتمل نہ ہو تو اس میں كثير الاستعمال الفاظ کو ترجیح دی جائے گی ۔ اگر عام اور کثیر الاستعمال الفاظ کو ترک کر کے کم استعمال ہونے والے اور شاذ قسم کے الفاظ کا اندراج ناهمواری سمجھا جائے گا ۔

انتخاب کا حق بهر حال لغت نگار کو ملنا چاہیے اور اس سلسلے میں اس سے اگر کوتاہی ہو جائے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے ۔ لیکن جو کچھ اس نے درج کیا ہے ، اس کی صحت و عدم صحت کو ضرور پرکھا جائے گا ۔

بات "نور اللغات" کی ہو رہی تھی "نور اللغات“ بھی  ایک مخصوص نقطہ نظر کے تحت تالیف کی گئی تھی .

فرہنگ آصفیہ کو دلی کے لسانی دبستان کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ تو "نور اللغات" لکھنؤ کے لسانی دبستان کی نمائندہ ۔

لکھنوی دبستان کی نمائندگی کے لیے اگرچه میر ضامن علی جلال لکنوی کی سرمایہ زبان اردو اور چند مختصر کتب لغت منظر عام پر آ چکی تھیں ، مگر ان میں سے کوئی کتاب جامع نہیں تھی ، جس میں اكثر محاورات و الفاظ کا احاطہ کیا گیا ہو۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے امیر مینائی مرحوم نے "امیر اللغات" کی طرح ڈالی ۔ اگر یہ لغت مکمل ہو جاتی تو واقعی جامعیت اور استناد کے لحاظ سے ایک نادر لغت ہوتی مگر امیر مینائی مرحوم کی وفات کے باعث یہ کام ادھورا رہ گیا ۔ چنانچہ

مولوی نور الحسن نیر نے اپنی وکالت کی مصروفیات کے باوجود امیر مرحوم کی طرح یہ کام اپنی حد تک مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور نور اللغات کی تالیف کا ڈول ڈالا ۔ ۱۹۱۴ء میں اس کام کا آغاز کیا اور اس کے لیے ایک الگ دفتر قائم کیا ۔ اپنے خرچ پر محرر ملازم رکھے اور دن رات ایک کر کے چار جلدوں میں یہ ضخیم لغت دس سال کی مختصر سی مدت میں مکمل کر ڈالی ۔ جو قابل داد ہے۔

اس کی طبع اول نومبر ۱۹۲۳ء میں نیر پریس پاٹا تالا ، لکھنؤ سے حامد حسن علوی کے زیر اہتمام منظر عام پر آئی ۔

يه لغت بهت مقبول ہوئی ، چنانچہ کئی بار شائع ہوئی ۔ مگر ہر بار  ختم ہو گئی اور اس کی مانگ برقرار رہی۔ پاکستان میں یہ لغت نایاب ہو گئی تھی ۔ اس لیے جنرل پبلشنگ ہاؤس کراچی نے ترقی اردو ہورڈ کراچی کے اشتراک و تعاون سے اسے شائع کیا ۔ مگر بہت جلد یہ کتاب پھر نایاب ہو گئی ۔ اسی اہم اور مفید لغت کی نایابی بہت تکلیف ده بلکه افسوس ناک ہے۔

اب نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد نے بھی ”نوراللغات، کو شائع کیا ہے ۔

اگر نور اللغات دوباره مرتب ہوکر ضروری حواشی یا تعلیقات کے اضافے کے ساتھ شائع ہو جائے تو اس کی افادیت میں بیش از بیش اضافہ ہو سکتاہے اور مولف کی جن کوتاہیوں کے سبب قارئین کے ذہنوں میں الجھن پیدا ہوتی ہے ، وہ دور ہو جائیں گی ۔

میں نے اپنے اس جائزے میں بڑی حد تک یہ ضرورت پوری کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ میری یہ کوشش تحقیقی انداز میں مرتب نسخے کا نعم البدل نہ سہی . اس پر کام کرنے والوں کے لیے آسانی ضرور فراہم کر سکتی ہے ۔ ذیل میں ”نوراللغات" کی چند نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا  جاتا ہے ۔

ا۔ الفاظ کی اصل اور صرف حیثیت واضح کی گئی ہے

۲۔ کہیں کہیں اعراب ملفوظی بھی دیے گئے ہیں ۔ اگر  ہر لفظ کے لیے اس کا التزام کیا جاتا تو تلفظ کی صحت یقینی ہوتی ۔ بهر حال بد بھی غنیمت ہے ۔

۳۔ اكثر الفاظ و محاورات کی اسناد اردو کے معروف شعراء کے کلام سے پیش کی گئی ہیں ۔

۴۔ ۔ فصیح اور غیر فصیح الفاظ کی نشان دہی کی گئی ہے،  اگرچه اس میں اختلاف ممکن ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ  جو لفظ لکھنؤ میں فصیح ہے اسے دہلی میں بھی فصیح سمجھا جائے ، تاہم لکھنؤ کی حد تک یه قابل قبول ہے۔

۵۔ بعض الفاظ و محاورات میں امتداد زمانہ کے سبب جو تغیرات واقع ہوئے ہیں ، ان کی نشان دہی کی کوشش کی گئی ہے ، جو بہت مفید کوشش ہے ۔

۶۔ دخیل الفاظ کے اصلی معنی اور اردو میں مروج معنوی درج  کئے ہیں

۷۔ دہلی اور لکھنؤ کے مخصوص محاورات کی صراحت کی گئی اور دہلی اور لکھنؤ کے لسانی اختلاف کا ذکر بھی کہیں کہیں کیا گیا ،

۸۔  تذکیر و تانیث کے باب میں دہلی اور لکھنؤ کے اختلاف واضح  کر کے اسناد بھی پیش کی گئی ہیں ۔

۹۔ کہیں کہیں بعض الفاظ کے ضمن میں علمی و ادبی نکات بھی

حاشیے میں درج کر دیے ہیں ۔

۱۰۔ مترادفات کا نازک فرق ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے، اگر چه یه کوشش محدود ہے تاہم جس حد تک بھی ہے مفید اور لائق تحسین ہے

۱۱۔ لکھنؤ کے روز مرے اور محاورے کے باب میں بہرحال "نوراللغات کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے ۔ اگرچہ اثر لکھنوی نے اس سے اختلاف بھی گیا ہے۔۔

الفاظ کی اصل اور صرف حیثیت واضح کی گئی ہے

۔

الفاظ کے مآخذ کے سلسلے میں سابق اور معاصر لغت نگاروں کے مقابلے میں اور نور اللغات کا معیار بلند تر ہے، اكثر  صورتوں میں مولف کی تحقیق صحیح ہے۔ کہیں کہیں لغزش بھی ہوتی ہے ۔ ایسا اس وقت ہوا ہے ، جب مولف نے سہل انگاری سے کام لے کر خود تحقیق نہیں کی اور اپنے پیش رو لغت نگاروں کی رائے پر آنکھیں بند کر کے اعتماد و انحصار کیا۔ چونکہ یہ کام بہت بڑا تھا اور اکیلے آدمی کے لیے ہر لفظ کی تحقیق بہت مشکل تھی ، اس لیے مولف کی اس کوتاہی کو هدف مطاعن بنانا تو درست نہیں ، البته اصلاح ضروری ہے

یہ اس لغت کی خوبیوں کا اجمالی ذکر ہے ۔ اس کی خوبیوں کا صحیح اندازہ تو اس کے بالاستیعاب مطالعے ہی سے ہو سکتا ہے ۔ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں ، جن پر تفصیل کے ساتھ بحث تو جائزے میں اپنے اپنے مقام پر ہو گی ، یہاں اشارتاً چند کا ذکر غیر مناسب نہ ہو گا

1 ۔ اردو اور فارسی کے بعض ایسے الفاظ تو شامل ہیں ، جو اردو میں استعمال نہیں ہوتے یا ان کا استعمال شاذ ہے مگر بعض وہ الفاظ ترک کر دیتے ہیں جن کا استعمال عام ہے ۔

۲۔ متروکات کی نشان دہی کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے اس خصوص میں مولف کہیں کہیں حد سے تجاوز کر گئے ہیں چنانچہ بعض ایسے الفاظ بھی متروکات میں شامل کیے ہیں ، جو متروک نہیں بلکہ مستعمل ہیں ۔ ان متروکات کی تردید میں اثر لکھنوی نے " فرہنگ اثر ' میں شرح و بسط سے لکھا ہے۔

۳۔صحت املا میں خاص اہتمام کا دعوی کیا ہے ، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔

۴۔ ذیلی محاورات و مرکبات اس طرح درج کیے ہیں کہ کسی محاورے یا مرکب کی تلاش میں بہت زحمت اٹھانی پڑتی ہے ۔ اگر ذیلی محاورات و مرکبات بھی قلم سے الگ الگ درج کیے جاتے تو قارئین کے لیے آسانی پیدا ہو سکتی تھی ۔

۵۔ صرف بنیادی الفاظ کی صرفی حیثیت واضح کی ہے ، ذہلی مرکبات کی صرفی حیثیت کی وضاحت نہیں کی ۔ اس سے بہت الجھن پیدا ہوتی ہے، کیونکہ بسا اوقات ذیلی الفاظ و محاورات کی صرفی حیثیت متعلقہ بنیادی الفاظ سے مختلف ہوتی ہے ۔ اس سے ہر ذیلی لفظ اور محاورے کی صرفی حیثیت واضح کرنی چاہئے

تھی۔

-

٦ - بہت سے الفاظ و محاورات لغت میں شامل نہیں کئے  ، حالانکہ وہ اس قابل تھے کہ شامل کیے جاتے ۔ وہ دوسری کتب لغت میں شامل ہیں ایسے الفاظ و محاورات کی تعداد کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ

نور اللغات میں شامل نہ ہونے والے الفاظ و محاورات کو اکٹھا کر کے نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی نے فرہنگ اثر مرتب کی جو بڑی تقطیع کے ۵۷۴  صفحات پر صفحات پر مشتمل ہے ۔

۷۔  الفاظ کو صرف اردو الحظ  میں لكها ہے، جس کی وجہ سے ان کے غلط پڑھے جانے کا احتمال ہے۔ اگر انگریزی الفاظ کو انگریزی حروف میں بھی لکھا جاتا تو ایسی غلطی  کا احتمال باقی نہ رہتا

۸۔ مولف نے نور اللغات کو لکھنؤ کی نمائندہ لغت کے طور ار پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس شوق اور جوش میں اتنے بڑھ گئے کہ بعض وہ الفاظ و محاورات بھی لکھنؤ سے وابستہ کر دیے ، جن کا علم بقول اثر لکھنوی لکھنؤ کے فرشتوں کو بھی نہ تھا ۔ چنانچہ فرہنگ اثر میں بہت سے ایسے الفاظ  و محاورات کی لکھنؤ سے نسبت کو غلط قرار دیا گیا  ہے،

 فرہنگ اثر کا ذکر کئی بار کر چکا ہوں ۔ اس لیے اگر یہاں فرهنگ اثر کے متعلق چند ضروری باتیں بیان کر دی جائیں تو مناسب  ہوگا، کیونکہ اس کا میرے موضوع سے ہمیں براہ راست تعلق ہے

       و د فرهنگ اثر اردو کے مشہور شاعر اور ادیب نواب مرزا جعفر على خان اثر لکھنوی کی تالیف ہے ۔ یہ عام نوعیت کی لغت نہیں ہے ۔ اس میں صرف مرزا ضامن علی جلال الکھنوی کی مختصر محاوراتی لغت سرمایہ زبان اردو اور نور اللغات کی کوتاہیوں کا تعاقب کیا گیا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا سکتا کہ جب نور اللغات کی غلطیوں کی تردید میں فرہنگ اثر موجود تھی ، تو اس جائزے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس کے جواب میں یوں عرض ہے کہ فرہنگ اثر کا دائرہ محدود ہے۔ اس میں زیادہ تر نوراللغات کے متروکات پر بحث کی گئی ہے یا لکھنؤ سے مخصوص محاورات و الفاظ کے سلسلے میں مولف نور اللغات کی رائے سے اختلاف کیا گیا ہے ، مگر نور اللغات کی دوسری کوتاہیوں سے کم ہی اعتنا کہا گیا ہے مگر ہمارا  دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ میں نے نور اللغات کا کلی اور تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ہر پہلو سے اس ہر نظر ڈالی ہے ۔ چنانچہ میں نے نوراللغات کی بہت سی ایسی اغلاط کی نشان دہی کر کے ان کی حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، جن کا ”فرہنگ اثر“ میں ذکر تک نہیں ۔ تاہم میں نے اس باب میں فرہنگ اثر، سے بھی اور بعض الفاظ و محاورات کے ضمن میں اس کا حوالہ بھی

دیا ہے،جہاں کہیں مولف فرہنگ اثر نے ٹھوکر کھائی ہے ، وہاں میں نے اس کی نشان دہی کر کے صحیح صورت واضح کر دی ہے ۔ اسی طرح یه جائزه فرهنگ اثر اور نوراللغات کا محاکمہ بھی بن گیا ہے۔

کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ کے سلسلے کی یہ کتابیں بھی اب ناپید ہیں، افادہ عام کے لئے کتاب کی پی ڈی یف مندرجہ ذیل لنک پر پوسٹ کی جارہی ہے۔

WhatsApp: 00971555636151

https://t.me/ilmokitab/10848