Khiyanat wa rishwat by Abdul Majid Daryabadiu

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

07:41PM Sun 4 Aug, 2024

ابھی چند روز کا ذِکر ہے،کہ ایک دوست نے ایک مذہبی ماہوار رسالہ نکالنے کا ارادہ کیا۔ ’’ڈِکلریشن‘‘ داخل کرنا قانونًا ضروری ہے۔ بیچارے کلکٹری عدالت میں گئے۔ ’ڈکلریشن‘ کا فارم محض معمولی ہوتاہے، جس کی خانہ پُری ایک بچہ بھی کرسکتاہے۔ دفتر کے بابو صاحب ایک منٹ میں سادہ فارم دے سکتے تھے۔ نہ دیا۔ کئی کئی دن انھیں دوڑنا پڑا، جب جاکر فارم ملا۔ بابو صاحب شاید اپنے ’’حق‘‘ کے طالب تھے، اُنھیں توقع یہ تھی، کہ پہلے ان کی مٹھی گرم ہولے گی، جب وہ اتنی خدمت انجام دیں گے!……کیا اِن ایڈیٹر صاحب کا یہ تجربہ کچھ نیا اور انوکھا تھا؟ کیا وہ بابو صاحب، دوسرے اہل عملہ اور اہل دفاتر کے برعکس ، کوئی خاص طور پر طامع، بددیانت یا رشوت خوارتھے؟ کیا وہ ضلع، تمام دوسرے اضلاع ومقامات کو چھوڑ کر، رشوت کی گرم بازاری کے لئے بدنام تھا؟

یہ رنگ کہاں نہیں ہے؟ یہ کیفیت سرکار ’’دولت مدار‘‘ کے کس صیغہ، کس سررشتہ، کس محکمہ میں نہیں ہے؟ ریل کے کتنے بابو صاحب ایسے ہیں، جو اپنی ضرورتوں کے لئے سفر کے وقت ٹکٹ خریدتے ہیں؟ خود تو خود، اپنے بیوی، بچوں، عزیزوں، دوستوں، نوکروں چاکروں کو ٹکٹ لینے دیتے ہیں؟ ریل کے کتنے پارسل ، خصوصًا جب اُن کے اندر کھانے پینے کے چیزیں ہوں۔ اپنی محفوظ حالت میں پہونچتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب، عمر کا، بیماری کا، چوٹ کا، سرٹیفکٹ دیتے وقت کتنی بار ’’نفس‘‘ کے خیال سے بالکل بے نیاز، محض اپنے ضمیر ودیانت پر بھروسہ کرتے رہتے ہیں؟پولیس کے بدنام محکمہ کو چھوڑئیے، سرشتۂ تعلیم والوں نیک ناموں کو دیکھئے۔ اسکول میں نام لکھاتے وقت، والدین اور سرپرستوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں! اور پھر محکمۂ تعلیمات یا کسی یونیورسٹی میں جب کتابوں کے داخل نصاب کرانے کا وقت آتاہے، تو اُس وقت صدق وامانت، آزادی ضمیر ودیانت کے کیسے کیسے عجیب وغریب مناظر دیکھنے میں آتے ہیں!……دیوانی، فوجداری، مال، پولیس، ڈاکٹری، ریل، سکرٹریٹ، ڈاکخانہ، جیل، سرشتۂ تعلیمات، انجینری، ڈسٹرکٹ بورڈ، میونسپل بورڈ، سارے محکمے اعلیٰ سے ادنیٰ ، دیکھ ڈالئے ، بڑے اور چھوٹے سارے سرکاری ونیم سرکاری سرشتوں کا جائزہ لے جائیے، کسی ایک جگہ بھی آپ کو دیانت وامانت، محفوظ ملے گی؟ اور پھر ان چیزوں کو ’’رشوت‘‘ کہتا کون ہے؟ یہ تو اپنے ’’حق حقوق‘‘ ہیں، ان کا نام ’’انعام‘‘ ہے، ان کے لئے ’’فیس‘‘ کا لقب ہے، انھیں رشوت یا خیانت کے تحت میں لا کون سکتاہے؟

سب سے بڑھ کر’’صاحب‘‘ کی ’’ڈالی‘‘ ؟ بڑے دن کی ڈالی، تو روز کی ڈالی، اور ہندوستانی تہواروں کی ڈالی؟ قند کے کوزوں اور انگور کے گُچھوں کی ڈالی؟ خش کابلی میووں ، اور تازہ ہندی پھلوں کی ڈالی؟ اور دَورہ کے زمانے میں کلکٹر صاحب اور جنٹ صاحب ، ڈپٹی صاحب اور تحصیلدار صاحب کے لئے رسد رسانی؟ اس سے بھی بڑھ کر لاٹ صاحب اور لیڈی لاٹ صاحبہ کے لئے جواہرات کے ہار، اورانہی قیمتوں کے دوسرے تحائف ! کیا وائسرائے یا گورنر کو آپ نے کسی رئیس کے مہمان ہوتے، یا اُس کی ریاست میں شکار کھیلنے کے لئے تشریف لاتے، یا دعوتوں میں آتشبازی چھوٹتے، اور شرابوں کے دَور چلتے دیکھا، یا سُناہے؟ اگر نہیں دیکھاہے، تو محض بتانے سے آپ پوری طرح سمجھ نہیں سکتے، اور اگر خود دیکھ چکے ہیں، تو الفاظ آپ کے مشاہدہ پر کچھ اضافہ کرسکتے! بس ایک چکر ہے، جس میں ۲۵ہزار ماہوار پانے والے وائسرائے سے لے کر پانچ روپیہ ماہوار پانے والے چوکیدار تک سب، یکساں اپنے اپنے درجہ ومرتبہ کے لحاظ سے مبتلا ہیں، اور اپنے خیال میں اپنے اوپر خائن ہونے کا شبہہ تک نہیں رکھتے!