خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ناسمجھی میں توہین رسول۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Athar Hashmi

Published in - Zaban O Adab

02:25PM Sun 29 Nov, 2020

ہم ایک عرصے سے سوچ رہے تھے کہ اس غلطی کی نشاندھی کی جائے یا نہ کی جائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ غلطی نہیں  بلکہ گناہ ہے جس میں  ہم میں  سے بیشتر بلا سوچے سمجھے مبتلا ہورہے ہیں ۔اور یہ غلطی ہے ’’لوطی یا لواطت‘‘لکھنا یا بولنا ۔ ایک گھناؤنے کام کو کسی نبی سے نسبت دینا یقینا ایک بڑا گناہ ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کا اس سے کیا تعلق!میر تقی میرؔنے ’نکات الشعر‘میں یہ بے ہودہ ترکیب استعمال کی ہے تو ان پر اعتراض اس لیے نہیں  کہ وہ شاعر تو بہت بڑے تھے لیکن کوئی دینی شخصیت نہیں تھے ۔لیکن حیدر آباد سندھ کی ایک بڑی علمی اور روحانی شخصیت نے، جن کا انتقال ہوچکا ہے، نکات الشعر اکے جائزے میں  میرؔکے حوالے سے یہ لفظ استعمال کیا جس سے اندازہ ہوا کہ یہ خرابی کہاں  تک پھیل چکی ہے (بحوالہ قومی زبان،جنوری۲۰۱۵ء)۔اخبارات میں  تو یہ غلطی عام ہے جو ہمارے خیال میں  غلطی نہیں ، توھینِ رسول ہے۔اس سے اجتناب کیا جائے ۔اس فعل ِبد کے لیے انگریزی میں  کہیں  زیادہ ’’محتاط‘‘لفظ ہے اور حضرت لوط ؑ کے شہر سدوم سے نسبت دی گئی ہے ۔خدا کے لیے لوطی یا لواطت کی ترکیب استعمال نہ کی جائے۔ کے کی جگہ ’کہ‘اور کہ کی جگہ ’کے‘کی غلطی اخبارات میں  تو عام ہے۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم کا یہ مصرع گانے والیوں نے بھی غلط گایا اور لکھنے والوں  نے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ فیض کا مصرع ہے :چلی  ہے  رسم  کہ  کوئی  نہ  سر  اٹھا  کے  چلے یہاں ’کہ ‘ کی جگہ ’کے‘ لکھ دیا جاتا ہے یا بولا جاتاہے۔ایسی ہی غلطی کا ارتکاب منگل ۱۷؍فروری کے روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحہ پر ہوا ۔حضرت متین فکری خود بھی شاعر ہیں۔اپنے مضمون میں  اس سہو یا غلطی پر اپنا ہی سر پیٹ رہے ہوں  گے کہ کراچی سے بہت دور بیٹھے ہیں ۔ان کے مضمون کے آغاز ہی میں  غالب کے مصرع میں  تین غلطیاں  ہوئی ہیں۔رقیب تورفیق بن گیا ہے جو یقینا سہو ِکاتب ہے۔پورا مصرع یوں  شائع ہوا ’’کتنے شیریں  ہیں  تیرے لب کے رفیق‘‘۔ہمیں  یاد پڑتا ہے کہ تیرے کی جگہ ’’ترے ‘‘(بغیر پہلی ’ی ‘کے)ہے ۔اب یہ نہیں  کہہ سکتے کہ ’’لب کے ‘‘کسی کی غلطی ہے!غالب نے تو ’’لب کہ رقیب‘‘کہا تھا۔تاہم ’’لب کے رفیق‘‘نے نیا مضمون پیدا کردیاہے۔کتنے ہی لوگ لب کے رفیق ہوتے ہیں  اور حکمرانوں  کے لب سے جو نکل جاتاہے اسی پر اپنی رفاقت کی بنیاد رکھ دیتے ہیں ۔واضح رہے کہ ہمارا اشارہ خواجہ سعد رفیق کی طرف نہیں۔رفیق ویسے توہر لحاظ سے بہت اچھا اور محترم لفظ ہے لیکن سعودی عرب میں  اس کا ایک اور استعمال دیکھا ۔وہاں  یہ لفظ تحقیر کے معنوں  میں  استعمال ہوتاہے اور یہ جتانا مقصود ہوتا ہے کہ تم غیر ملکی ، خصوصاًپاکستانی ہو۔ اگر احترام مقصود ہوتو رفیق کی جگہ صدیق استعمال کرتے ہیں۔ ’عرب نیوز‘کے سعودی مدیر اور معروف صحافی خالد المعیناکے بھائی (وہ بھی کچھ معینا ہی ہیں)نے عرب نیوز میں  اپنے ایک مضمون میں  اس تفریق کی اس وقت نشاندھی کی تھی جب انہیں  بھی کسی سرکاری دفتر میں ’’رفیق‘‘سمجھ کر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔اسلامی اخوت اور بھائی چارہ سب سے زیادہ پاکستان میں نظر آتاہے،الحمدللہ۔ہمارے ہاں  تو رفیق حیات ہوتے ہیں۔’’اللھم رفیق الاعلی‘‘۔شاید عربوں  نے نہیں  سنا۔بہرحال غالب کے مصرع میں  تو رقیب ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ رقیب بھی اردو ادب میں  منفی معنی میں  داخل ہوگیا ہے،جب کہ یہ اللہ کا صفاتی نام ہے ۔ لغت میں  بھی اس کا مطلب حریف،ایک معشوق کے عاشقوں  میں  سے کوئی ایک ،نگہبان وغیرہ دیا گیا ہے۔اور اللہ تعا لیٰ کے لیے رقیب کی صفت نگہبان ہی کے لیے آئی کہ وہ اپنے بندوں پر نظر رکھتاہے ۔ممکن ہے اس کا مادہ رقب ہو یعنی گردن ۔اب عشق میں ایک دوسرے کے حریف بھی ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہوں  گے ۔غالب تو اپنے رقیب کو گالیاں  کھلواکر خود صاف بچ نکلے اور جسارت کے پروف ریڈر نے رفیق کو گالیاں  پڑوادیں۔ ہماری اس خام تحریرکامقصدپروف ریڈنگ یا کمپوزنگ کی غلطیاں  پکڑنانہیں  ہے۔یہ تو بہت آسان کام ہے اور تمام اخبارات ورسائل ان سے بھر ے پڑے ہیں۔ہماری کوشش یہ ہے کہ زبان وبیان کے بارے میں  جو غلطیاں  جڑ پکڑرہی ہیںان کی نشاندہی کریں  تاکہ کم از کم نوجوان صحافی یاطالبانِ علم اصلاح کرسکیں ۔جڑپکڑنے سے ہمیں  صحافیوں  کے ایک استاد کاادبی رسالے میں  شائع ہونے والا ایک جملہ یا د آگیا کہ ’’فلاں  برائی کی تو جڑ سے بیخ کنی کر دینی چاہیے۔‘‘ہے ناں  دل چسپ جملہ!بس بات اتنی سی ہے کہ بیخ کا مطلب معلوم نہیں  ہوگا۔قارئین کو تو معلوم ہی ہے کہ بیخ جڑ کو کہتے ہیں۔بیخ کنی :جڑکھودنا اور بیخ کن جڑ کھودنے والا۔۔۔۔ مراد ہے تباہ و برباد کرنے والا ،کام بگاڑنے والا۔بس یہ خیال رہے کہ ’کن‘میں  کاف کے اوپر زبر ہے ورنہ تو ٹی وی چینلوں  پر ’’کان کن‘‘کے ذکرمیں  کاف پر پیش سنا ہے یعنی کانکُن۔پیش کے ساتھ کن عربی ہے اور زبر کے ساتھ فارسی۔عربی میں کُن کا مطلب ہے:ہوجا۔دنیا کو وجود میں  لانے کے لیے ’’کن فیکون‘‘کہا گیا ،یعنی ہوجا،بس وہ ہوجاتا ہے۔مراد ہے خدا کی قوتِ تخلیق۔اسی حوالے سے علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:یہ  کائنات  ابھی  ناتمام  ہے   شایدکہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون کُن فکاں ،مطلب ہے علمِ موجودات۔کن یعنی ہوجا،فکاںیعنی ہوگئی۔نوراللغات کے مطابق چونکہ ان لفظوں سے سارا عا لم وجود میں  آیا اس لیے ان الفاظ سے تمام عا لم ِموجودات مراد لیتے ہیں۔سائنس دان کہتے ہیں  کہ آواز فنا نہیں  ہوتی،فضا میں  موجود رہتی ہے ۔اور اگر اللہ نے کن کہا ہو تو اس کے معدوم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’’آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون‘‘۔اور جب تک یہ آواز آرہی ہے،کائنات بڑھتی پھیلتی چلی جائے گی۔