خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گھر کی لونڈی۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Athar Hashmi

Published in - Zaban O Adab

07:12PM Mon 11 Jan, 2021

چلیے، سر پھٹوّل کا تلفظ تو طے ہوگیا۔ اب ایک اور دل چسپ لفظ سننے میں آیا۔ کراچی کی تازہ ترین صورت حال میں ایک صاحب ٹی وی چینل پر فرما رہے تھے کہ ’’نائن زیرو پر چھاپے سے متحدہ والے ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے‘‘۔ ہے ناں مزے کا لفظ۔ ہم خود یہ سن کر ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے۔ جو صاحب یہ فرما رہے تھے اُن پر اہلِ زبان ہونے کی تہمت بھی ہے، اور جب وہ انگریزی بولتے ہیں تو انگریزوں کو بھی مات کرتے ہیں۔ صحیح تلفظ، گرامر وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ کوئی جاہل ہونے کا طعنہ نہ دے دے۔ اور یہ صرف انہی پر منحصر نہیں۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنا چاہتے ہیں، انگریزی بولنے اور لکھنے پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ اردو کا کیا ہے، گھر کی لونڈی ہے، اور لونڈی سے جیسا چاہو سلوک کرو۔ یوں بھی اردو پر قومی زبان ہونے کا الزام ہے اور قوم کا حال سب کے سامنے ہے۔ زبان کوئی بھی ہو، اس کا صحیح استعمال کرنے والا ہی اہلِ زبان ہے۔ اب صحیح اردو کے لیے اردو بولنے والے سند نہیں رہے کہ خود انہوں نے زبان کا جھٹکا کردیا ہے اور ایسا کہ سب بھونچ کے رہ جائیں۔ اب اس کی وضاحت تو ضروری نہیں کہ اس کا صحیح تلفظ کیا ہے۔ ہندی کا لفظ ہے اور صفت ہے۔ جو صاحب ’’بھونچ کے‘‘ کہہ رہے تھے اُن کی خدمت میں عرض ہے (لیکن انہیں بتائے گا کون) کہ اس پر ایک تشدید بھی ضروری ہے اور یہ ’’بھوں چکّے‘‘ پڑھا جائے گا۔ ملا کر ’’بھونچکّے‘‘ لکھا جاتا ہے۔ بندہ اکیلا ہو تو وہ ’’بھونچکّا‘‘ رہ جاتا ہے۔ اب آئیے، اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ یوم پاکستان پر حسبِ روایت تمغے تقسیم ہوئے۔ ویسے تو صحیح لفظ ’’تغما‘‘ ہے لیکن اب تمغا ہی غلط العام ہوچکا ہے۔ مگر اس کے آخر میں الف ہے اور یہ ’’تمغہ‘‘ ہرگز نہیں ہے۔ جسارت کے ایک شذرے میں تمغہ لکھا گیا ہے۔ احباب پوچھتے ہیں کہ یہ شذرہ کیا ہوتا ہے؟ کچھ لوگ تو اسے شجرہ بولتے ہیں۔ شذرہ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’بکھرا ہوا، پراگندہ، مختصر سا مضمون‘‘۔ بعض شذرے پراگندہ بھی ہوتے ہوں گے، لیکن انگریزی کے ایڈیٹوریل نوٹ کے متبادل کے طور پر اداریے کے ’’بچے‘‘ کو شذرہ کہا جانے لگا ہے۔ کسی مختصر مضمون یا پراگندگی کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ’’ہرصورت‘‘ کے ساتھ ’’میں‘‘ آنا چاہیے یا ’’بہرصورت‘‘۔ لیکن ہم جن کے لیے لکھتے ہیں وہ بھی ہماری بات ماننے کو تیار نہیں۔ جسارت ہی میں ایک جملہ ہے ’’قوم کی قربانیوں کی مرہونِ منت‘‘۔ اس طرح ’’مرہون‘‘ مونث ہوگیا جب کہ یہ اچھا بھلا مذکر ہے۔ ممکن ہے لکھنے والے نے ’’کی‘‘ منت کو ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کیا ہو۔ ’’مرہون‘‘ عربی کا لفظ اور مذکر ہے، اس کا مطلب ہے: رہن کیا گیا، گروی رکھا گیا۔ مرہونِ منت کا مطلب ہے: احسان مند، ممنون، شکر گزار۔ اس کی تانیث ہے ’’مرہونہ‘‘۔ رہن رکھنا، رہن چھڑانا اردو میں عام ہیں۔ اردو کے ایک استاد کی تحریر میں ایک جملہ دیکھا ’’کام کو ہاتھ ڈالنا‘‘۔ ہم استاد تو نہیں ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ روزمرہ ’’کام میں ہاتھ ڈالنا‘‘ ہے۔ البتہ کام کو ہاتھ لگانا الگ چیز ہے۔ روزمرہ پر یاد آیا کہ ’’پائوں میں جوتا ڈالنا‘‘ فصیح ہے جب کہ عملاً جوتے میں پائوں ڈالا جاتا ہے۔ یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے ’’قوم پر فلاں کو مسلط کردیا گیا‘‘۔ ہم اس لفظ مسلط کو لام پر زبر کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں جب کہ لام پر زبر یعنی ’’مُسلَط‘‘ کا مطلب ہے: ’’مغلوب کیا گیا، فتح کیا گیا، مقرر کیا گیا‘‘۔ عربی میں زیر زبر سے معانی بدل جاتے ہیں۔ ’’مسلِط‘‘ (لام کے نیچے زیر) کا مطلب ہے: ’’قبضہ کرنے والا، تسلط کرنے والا، غالب، طاقت ور‘‘۔ ہم نے تو اپنی اصلاح کرلی، قارئین بھی اس غلط تسلط سے نجات حاصل کرلیں۔ سعودی عرب میں ایک چیز بہت عام ہے: ’’مطوّع‘‘۔ اس مطوع سے شہزادگان بھی گھبراتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی رضا کار پولیس ہے اور کسی قسم کا غیرشرعی کام ہو رہا ہو تو اس پر گرفت کرتی ہے۔ نماز کے اوقات میں صلّی، صلّی کرکے لوگوں کو مساجد کی طرف بھیجتی ہے اور جو باہر پکڑا جائے اسے اپنے دفتر میں لے جاکر پانچ وقت کی نماز پڑھوائی جاتی ہے تب چھوڑا جاتا ہے۔ کبھی کبھی کسی سکھ کو بھی پکڑ لیتے ہیں کہ اتنی بڑی ڈاڑھی رکھ کر بھی مسجد کا رخ نہیں کیا۔ ’’طوع الاسلامیہ‘‘ کے نام سے ادارہ پورے ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے کام کررہا ہے۔ تطّوع، عربی مذکر، کا مطلب ہے ’’تعمیل حکم کرنا‘‘۔ (بروزن تنوّع۔ کچھ لوگ اسے بھی بغیر تشدید کے ’’تنو‘‘ کی طرح پڑھ لیتے ہیں) اس کا مصدر ’’طوع‘‘ ہے اور یہ مونث ہے۔ مطلب ہے: رغبت، رضامندی، خوشنودی، اطاعت، فرماں برداری (ویسے اہلِ علم فرماں برداری کے رائج مفہوم پر بھی اعتراض کرتے ہیں)۔ پاکستان نے بغیر پائلٹ کا ’’براق‘‘ تیار کرلیا ہے۔ یہ براق ایک بڑی کامیابی ہے۔ لیکن براق بھی دو طرح کا ہے، لکھا ایک ہی طریقے سے جاتا ہے۔ ایک تو بُراق (ب پر پیش) ہے، وہ آسمانی گھوڑا یا سواری جس پر سوار ہوکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ عربی کا لفظ ہے۔ دوسرا ہے بَرّاق (ب پر زبر)، جس کا مطلب ہے: نہایت سفید، چمکیلا، نورانی، منور، چالاک، ہوشیار، مشاق، تیزرو۔ برق سے مشتق ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کا تیار کردہ براق، برق رفتار ہے یا اس کی نسبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بُراق سے ہے۔ اس کی وضاحت آئی ایس پی آر والے کریں، ٹی وی چینلز پر تو دونوں ہی چل رہے ہیں۔ اور ٹی وی کے اینکرز یا خبریں پڑھنے والے کتنے معتبر ہیں، یہ کسی بھی دن سن سکتے ہیں۔ آج تک خودکُشی کو خودکَشی کہتے ہیں۔ سال کی جمع عموماً سالوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ جمع ٹھیک ہے، لیکن اس پر بیوی کے بھائیوں کو اعتراض ہوسکتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ساری خدائی ایک طرف، جورو کا بھائی ایک طرف۔ چنانچہ بہتر ہوگا کہ سالوں کی جگہ برسوں لکھا اور کہا جائے۔ ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سالوں کی جگہ ’’کئی سال‘‘ لکھا جائے۔ جسارت ہی میں 24 مارچ کے ’’کاروبار‘‘ کے صفحہ پر ایک سرخی ہے ’’امیر قطر کے دورے سے طویل المعیاد تعلقات مزید مستحکم ہوں گے‘‘۔ اب اس جہالت کا کیا علاج۔ فاضل صحافیوں کو میعاد اور معیاد کا فرق نہیں معلوم۔ یہ ’’معیاد‘‘ کیا ہوتا ہے؟ کیا اسی کو چراغ تلے اندھیرا کہیں گے؟ 23 مارچ کے موقع پر اخبارات میں ’’چاک و چوبند‘‘ دستے بھی نظر سے گزرا۔ اوّل تو یہ چاک نہیں چاق ہے، دوسرے یہ کہ بیچ میں وائو نہیں آتا۔ یعنی چاق چوبند۔ اب کوئی صاحب اٹھ کر چاک و چوبند ہی کو صحیح قرار نہ دے دیں۔ 2015-03-15 http://www.bhatkallys.com/ur/author/athar-hashmi/