خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ دل دھک سے بیٹھ گیا۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Athar Hashmi

Published in - Zaban O Adab

08:32PM Sun 6 Dec, 2020

ہمارے ایک قاری نے انتباہ کیا ہے کہ آپ کی زبان بھی فلاں  صاحب کی طرح بوجھل اور ثقیل ہوتی جا رہی ہے جب کہ پہلے بات آسانی سے سمجھ آجاتی تھی ،اب تو آپ لغات میں  الجھ جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو معذرت ۔کیونکہ یہ سلسلہ تو ہم نے اس لیے شروع کیا ہے کہ اردو میں،خاص طور پر اخبارات میں،جو غلطیاں  عام ہورہی ہیں  ان کی نشاندھی کر دی جائے۔اب جیسے ہم نے پچھلے کالم میں’’کان۔کن‘‘کا حوالہ دیا تھا لیکن بلو چستان کے علاقے دکی میں  کان کے اندر جو حادثہ پیش آ یا اس پر تمام ٹی وی چینلز ’’کان کُنواں ‘‘کی ہلاکت کی خبر دے رہے تھے۔کسی ایک نے بھی کن(کاف پر زبر) نہیں  کہا۔نوجوان صحافی خواہ اخبار میں  ہوں  یا ٹی وی چینلز پر ،کبھی تو صحیح تلفظ کی طرف مائل ہوں  گے۔ہم تو خیر کیا ،کئی بڑے ادیب تو تلفظ اور املا پر کتابیں  لکھ چکے ہیں۔ہم ان ہی کے کام کو عام کر رہے ہیں۔لوگوں  کی کوششوں  کے اثرات نظر بھی آرہے ہیں۔اخبارات میں  دھماکا ،دھوکا اور خورونوش وغیرہ لکھا جارہا ہے۔بس’پتہ‘اب تک’پتا‘نہیں  ہوا۔’کھلی چھٹی‘بھی آہستہ آہستہ راہِ راست پر آکر ’کھلی چھوٹ ‘ہورہی ہے۔ ایک بڑے مؤقر اور معتبر ادبی رسالے ’’اجرا ‘‘میں  تعزیت کے عنوان سے مدیر شہیر نے ایک جملہ لکھا ہے’’خبر سنتے ہی دل دھک سے بیٹھ گیا‘‘۔یہ محاورہ نہیں  ہے ۔یا تو ’’دل دھک سے رہ گیا‘‘یا ’’دل بیٹھ گیا ‘‘ ہونا چاہیے تھا،دل یہ دو کام بیک وقت نہیں  کرسکتا۔دل دھک سے ہوجانا کا مطلب ہے اچانک صدمہ ہونا،صدمے سے دل پر چوٹ لگنا ۔خود ’’دھک‘‘کا مطلب ہے :حیران ،متحیر ،صدمہ ،خوف ،ڈر (چھوٹی جوں  یالیکھ کو بھی کہتے ہیں) ۔دھک سے رہ جانے کا مطلب ہے :حیران رہ جانا۔ دل بیٹھ گیا کا مطلب تو واضح ہے ،استاد کا مصرع ہے:گر  بیٹھنے  کا  قصد  کروں  بیٹھ  جائے  دل اخبارات میں ایک سرخی عموماًنظروں  سے گزرتی ہے ’’ہر صورت فلاں  کا م کریں  گے‘‘۔یہاں  صورت کے بعد ’’میں‘‘ضروری ہے ،یعنی ہر صورت میں لیکن سرخیوں  میں الفاظ کی قید بھی ہوتی ہے اس لیے’’میں‘‘عموماًنکال دیا جاتا ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ’’بہر صورت ‘‘لکھا جائے جس سے جگہ بھی نہیں  گھرے گی اورمفہوم پوراہوجائے گا ۔اب تو جب سے اردو کی خبر وں  میں  یہ ہوتاہے ’’فلاں  بارے ‘‘۔اس طرح’کے‘اور’میں‘کی بچت تو ہوگئی لیکن زبان خراب ہوگئی ۔ پنجاب کے اخبارات میں  تو یوں  ہی چھپتاہے البتہ ابھی کراچی کے اخبارات میں  یہ مضحکہ خیزی عام نہیں  ہوئی ہے ،شاید ہوجائے ۔اخبارات کی زبان اور املا بگاڑنے میں  اردو کی خبر ایجنسیوں  کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ایک تماشا تو ہندی کے ڈراموں ،فلموں ،اور عام بول چال میں  نظر آرہا ہے۔پھول ’فول‘اور پھر ’فر‘ہوگیا ۔مزے کا ایک جملہ سننے میں  آیا ’’فوفا،فوفی‘‘۔۔۔۔۔کچھ غوکے بعد ادراک ہوا کہ یہ پھوپھا ،پھوپھی ہے۔بعید نہیں  کہ یہ تبدیلی تحریرمیں  بھی آجائے ۔پرانی بھارتی فلمیں  اور ڈرامے دیکھیں  تو اداکار پھول کو پھول ہی کہتے سنائی دیں  گے۔کتنے ہی ہندو اردو کے بہت اچھے ادیب شاعر ہیں۔اور وہی کیا،سکھوں  میں  بھی راجندر سنگھ بیدی،کنور مہندرسنگھ،وغیرہ نام کماچکے ہیں۔ان کا تلفظ بھی درست تھا ۔لیکن یہ بگاڑ اچانک آیاہے اور اس کے اثرات بھارتی مسلمانوں  پر بھی پڑرہے ہیں ۔ان کا تلفظ بھی بگڑ رہا ہے۔ظاہر ہے کہ مسلمان طالب علم اپنے اسکول میں  اور اطراف میں  جو سنیں  گے وہی بولیں  گے۔ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے کچھ مسلمان شاعر اور شاعرات شاعری تو اردو میں  کررہے ہیں  لیکن اردو لکھ نہیں  سکتے۔وہ اردو شاعری ہندی رسم الخط میں  لکھتے ہیں ۔اور خاص بات یہ ہے کہ پھ،بھ،تھ،ڈھ وغیرہ ہندی ہی سے اردو میں آئے ہیں۔پھوار پڑے یا پھوٹ ،یہ ہندی ہی کے الفاظ ہیں۔پھوک ،پھوکا،پھوکٹ ،پھوڑا وغیرہ اردو میں  عام ہیں  مگر اصل ان کی ہندی ہے ۔اور وہیں’’پھ‘کو ’ف‘ بنادیا گیاہے۔اب یہ شعر یوں  پڑھا جائے گا:فول  لایا  فول  کو  ،  فول  کر  میں  نے  کہافول کیوں  لائے ہوصاحب ،تم تو خود ہی فول تھے کسی کی تعریف میں  اسے پھول سے تشبیہ دی جائے تو ممدوح سمجھ نہیں  پائے گا کہ اسے پول کہا جارہا ہے یا فول(Fool)بنایا جارہا ہے۔بھارت کیاایک معروف ادیب وشاعر نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا کہ پھ کا تلفظ کیو ں  نہیں  ادا کیا جارہا ۔بھارت میں پھ کا جو حشر ہوا ہے ایسا ہی کچھ ہم نے ’ق‘کے ساتھ کیا ہے۔اب وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ یہ کینچی(قینچی)والا کاف ہے یاکتے والا۔اہلِ دکن نے اسے ’خ‘بنالیا اور حیرت انگیز طور پر سعودی عرب میں  یہ گاف میں  بدل گیا،جب کہ عربی میں  گاف نہیں  ہے۔اہلِ مصر نے تو جیم کو گاف بنایا ہے۔گمال عبدالناصر ۔اور اب یہ سعودی عر ب میں  پھیل گیاہے۔حرم شریف کے باہر سیارات(ٹیکسی)والے آواز لگارہے ہوتے ہیں:’’گدہ،گدہ‘‘۔یعنی جدہ جدہ۔ شکر ہے کہ صحیح عربی قرآن و احادیث میں  محفوظ ہے۔بنگالی بھائیوں  نے ’ز‘کو جیم سے اورجیم کو’ز‘ سے بدل ڈالا۔قرآن کریم پڑھا نے والے ایک بنگالی مولوی اب بچوں  کو ’’رب جدنی علما‘‘پڑھا کر جاتے تھے۔ استاد جلیل مانک پوری کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ڈھاکامیں  مشاعرہ تھا ۔جلیل مانک پوری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شاعر نے کہا’’استاد یہ معلن (مع۔لن) آپ کو ذلیل کہہ کر بلائے گا ۔جلیل مسکرائے اور کہا:نہیں  ایسا نہیں  ہوگا ۔ چنانچہ بنگالی اسٹیج سکریٹری نے انہیں  جلیل مانک پوری کہہ کر ہی بلایا۔مشاعرے کے بعد دوستوں  نے پوچھا کہ آپ ذلیل ہونے سے بچ گئے،مگر یہ کیسے ہوا؟استاد نے کہا کہ جب شاعروں  کی فہرست بن رہی تھی تومیں  نے اپنا نام ’’ذلیل‘‘لکھوایا تھا ۔ بنگلادیش کے کر کٹرزکے نام بھی اردو میں  نہیں ،انگریزی اخبارات میں  بھی غلط چھپ رہے ہیں۔نجم الحسن ،نظم الحسن ہوجاتا ہے ۔اشرفل تو یوں  بھی نا مکمل نام ہے بلکہ نا م ہی نہیں ۔ اشرف الاسلام وغیرہ ہے۔ آج کل سندھ کو سرسبز کرنے کے لیے ’’سبز باغ‘‘لگائے یا دکھائے جارہے  ہیں۔ایک محاورہ ’’سبز قدم ‘‘کا بھی ہے۔بہرحال اس حوالے سے محکمہ بلدیا ت حکومتِ سندھ نے کئی اخبارات کو بڑے بڑے اشتہارات بانٹے ہیں۔ہم نہیں  کہتے کہ اشتہارات کی رقم بھی سندھ حکومت کے اس عزم کی تکمیل پر صرف کی جاسکتی تھی۔اشتہار میں  ایک جملہ ہے  ’’سرسبزوشادآب سندھ‘‘ سنا ہے کہ اشتہاری کمپنیوں  اورسرکاری اداروں  میں  کوئی کاپی رائٹر بھی ہوتاہے،جومضمون بناتا ہے ۔ غالباً اسے تنخواہ نہیں  ملی۔شاداب میں الف پر مد نہیں  ہے اورمد لگانے سے مطلب بھی بدل جاتا ہے ،یعنی’’شاد ۔پانی‘‘۔شاد عموماًخوش کے معنوں  میں  آتا ہے جیسے شاد رہو ،آباد رہو۔ اب یہ خوش پانی کیا ہے،غالباًخوش آب ،جو پاکستان کا ایک شہر ہے۔ائمہ کے الف پر کئی بارمد یعنی آئمہ چھپا ہوا دیکھا ۔ائمہ امام کی جمع ہے۔ زبان کی ثقافت کے حوالے سے فرائیڈے اسپیشل کے مدیر کا کہنا ہے کہ قارئین کی سطح بھی بلند کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔بات ان کی بھی صحیح ہے۔