Khanwadah Qazi Badrud Daulah Kay Do Gul Sar Sabd(02)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:04AM Fri 22 Dec, 2023

*بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( ۲)۔۔۔تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

 

۱۹۷۰ء میں اس ناچیز کا مدرسہ جمالیہ  مدراس(چنئی  ) میں جب داخلہ ہواتھا، تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے چچا زاد بھائی اور اس خانوادے کے  ہندوستا  ن میں آخری عظیم بزرگ  حضرت مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ بقید حیات تھے۔ہمیں قاضی صاحب  کی خدمت میں آپ کے بڑے ہی عقیدت مند فرد ملا محمد حسن مرحوم( سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل)  لے گئے تھے، یہ ہماری خوش نصیبی تھی  کہ  دوران طالب علمی ہفتہ دو ہفتہ کے وقفے سے حضرت کی خدمت میں مسلسل حاضری کا موقعہ ملتا رہتا تھا۔ قاضی صاحب کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کا اس بزم میں وقتا فوقتا  تذکرہ ہوتا رہا ہے، یہ ایسی شخصیات تھیں جن کے باربار تذکرے سے دل کو روشنی ملتی ہے، اور راہ زندگی کے خارزار میں مشکل راہیں ہموار ہوتی ہیں، ان شاء اللہ کبھی موقعہ ملے تو آپ کی زندگی کے مختلف پہلؤوں پر مستقل بات ہوگی، لیکن یہاں چلتے چلتے آپ کی زندگی کے چند ایک  پہلؤوں کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آپ کے لکھنو اور شمالی ہند کے سفر کے سلسلے میں آپ کے برادر زادہ محمدعبید اللہ مرحوم رقم طراز ہیں کہ " لکھنو میں قاضی صاحب کا قیام فرنگی محل کے خانقاہ آستانہ نعیمیہ میں تھا۔ یہاں مولانا ناصر میاں سے ملاقات ہوئی ۔ جن کے جدا مجد مولانا بحر العلوم والا جاہ کے دور حکومت میں مدراس آئے تھے۔ قاضی صاحب ایک ہفتہ زیادہ مولانا ناصرمیاں کے مہمان رہے ۔قاضی صاحب کا خیال تھا کہ دریا باد جا کر مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ سے ملاقات کا پروگرام بنایا جائے ۔ اتفاقی طور پر مولانا عبدالماجد دریابادیؒ امین آباد گئے تھے اور جب آپ پر ظاہر کیا گیا کہ قاضی محمد حبیب اللہ آپ سے ملاقات کے لئے آنے والے ہیں تو مولانا نے آنکھیں بند کیں اور فرمایا " *اللہ اللہ دنیا میں صحابہ کرایہ جیسے بزرگان موجود ہیں۔ لیکن کنارہ کشی اختیار کئے ہیں*؟ مولانا نے پھر آنکھیں کھولیں اور فرمایا" قاضی صاحب بزرگ کو یہاں لانے کی زحمت نہ کریں ، وہ خود ٹھیک آٹھ بجے قاضی صاحب سے ملاقات کے لئے فرنگی محل آئیں گے ۔فرنگی محل میں قاضی صاحب کے میزبان ناصر میاں کو بلایا گیا کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی قاضی صاحب کی ملاقات کے لئے فرنگی محل آرہے ہیں تو ناصر میاں ششدر رہ گئے اور فرمایا :* تحریک خلافت کے دور میں فرنگی محل سیاسی مرکز رہا ، ماجد میاں اپنے اوقات فرنگی محل میں گزارتے تھے تحریک خلافت کے بعد ماجد میاں نے دوبارہ اس طرف رُخ نہیں کیا ۔ یہ بڑی خوشی  کی بات ہے کہ طویل عرصہ کے بعد ماجد میاں آرہے ہیں*، دوسرے دن ٹھیک آٹھ بجے مولانا عبد الماجد دریا بادی تشریف لائےآدھے گھنٹے تک قاضی صاحب سے تخلیہ میں گفتگو کی"۔

موصوف آپ کی زندگی کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ " قاضی صاحب متوکلانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔ مدرسہ محمدی سے تنخواہ ملاکرتی تھی ۔* نکاح خوانی یا کسی تقریب پر کچھ نذرانہ ملتا تھا تو اس وقت اس نذرانہ میں اپنی طرف سے مزید رقم شامل کر کے بطور تحفہ دولھا یا تسمیہ خوانی پڑھنے والے بچوں کو اپنی طرف سے عطیہ کہ کر دیتے تھے*"۔

برکاتی صاحب نے ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کے بارے میں جو بیان کیا ہے، عمل وکردار میں قاضی صاحب اس کے ہوبہو شخصیت رکھتے  تھے۔ وہی مال وحشمت سے بے نیازی، وہی زہد و للہہت۔ زمانے کے حالات اور ترقیوں کے ساتھ حاجات وضروریات گھٹتے بڑھتے رہتی ہیں، مرور زمانہ اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ حالات بدلتے ہیں، اس کے باوجود اسلاف کی زندگیاں ہمیشہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ رہتی ہیں، *بھٹکل میں آپ کے فیض یافتہ علماء میں  یہ اوصاف ہم نے دیکھے ہیں، جن کے لئے اب آنکھیں ترستی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں فارغین مدارس دینیہ کی بہتات ہے،شاید ہی یہاں کوئی گھر فارغین مدارس اور فضلاء سے خالی ہو،اس کے باوجود یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج سے بیس پچیس سال قبل جب کہ اس نسل کے جو چند لوگ ہمارے سماج میں  باقی رہ گئے تھے وہ اپنے علم ، تقوی اور للہیت میں آج کل پائے جانے والی فارغین کی اس بھیڑ پربہت  بھاری تھے، بس انکےپاس قوت ابلاغ کی کمی تھی، سیدھے سادھے لوگ تھے، تقریر و خطابت کے فن سے واقف نہیں تھے،نہ ہی  لچھے دار زبان و بیان میں انہیں مہارت حاصل تھی، یہ  علماء زیاددہ تر مدرسہ محمدی مدراس  ( چنئی)اور دارالعلوم لطیفیہ ویلور کے بزرگان کے فیض یافتہ ہوا کرتے تھے، جہاں ٹامل اور دکنی زبان رائج تھی، لکھنو اور دہلی کی ٹکسالی زبان ان سے قریب  ہوکرنہیں گذری تھی، شاید یہی ان کے زہد ،علم وللہیت کا شہرہ نہ ہونے کا بڑا سبب بنا، کفایت اور عزت نفس کے ساتھ زندگیاں خاموشی سے گزار کر اس دنیا سے چلے گئے*۔  

*پروفیسر یوسف کوکن عمری اپنی کتاب خانوادہ بدر الدولۃ میں پرتگالیوں کے ہاتھوں گوا کی فتح اور وہاں سے بیدر اور بیجاپور ہجرت تک پہنچ پائے ہیں، لیکن اس سے پہلے کی کڑیاں ان سے نہیں جڑ سکی ہیںِ، یہ کڑیاں ملانے کی اس ناچیز نے کوشش کی ہے، اور اس سلسلے کا ایک مضمون باوقار علمی مجلہ الایام کراچی  (جنوری دسمبر ۲۰۲۳ء ) میں  "بھٹکل۔ تاریخ کا سفر "کے عنوان سے  ابھی چند روز قبل شائع ہوا ہے، ڈاکٹرمحمد سہیل شفیق  صاحب (صدر شعبہ تاریخ کراچی یونیورسٹی ) نے جو اس مجلہ کے معاون مدیر ہیں، اور ہماری اس بزم کے رکن رکین  بھی ہیں، یہ شمارہ گروپ میں شیر کیا تھا، شاید احباب کی اس پر نظر  ابتک نہیں پڑی ہے *۔ اسی طرح کئی ایک اہم چیزیں پیغامات کی بھیڑ   بھڑکے میں گم ہوجاتی ہیں، اور ہمیں شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر  اپنے ہی مضامین کی تشہیر کرنی پڑتی ہے، یہ بات کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پہلے اس مضمون کی فرمائش کئی ایک احباب کی جانب سے آئی تھی، لیکن اس مضمون اور مطالعہ کتب کیوں اور کس طرح؟ کو نظر ثانی اور اضافے کے ساتھ پیش کرنے کی خواہش تھی، لیکن زندگی میں کچھ ایسی بے ترتیبی غالب ہے کہ بہت سی خواہشیں پوری ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔

جب ہمارا چنئی ( مدراس ) اعلی تعلیم کے لئے جانا ہواتھا، تو  ۱۹۷۱ء کے پارلیمانی الیکش کی ہماہمی کا دور ابھی شروع ہونے  ہی والا تھا، کانگریس انڈیکیت اور سنڈیکیٹ میں بٹ چکی تھی، دو بیلوں کی جوڑی مرارجی دیسائی کی قیادت میں  پرانے لیڈران  کے حصے میں آئی تھی اور اندراگاندھی کو گائے اور بچھڑا مل گیا  تھا، یہ بڑا ہنگامی دور تھا، اس الیکشن میں اندرا گاندھی نے ملک کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا، جمالیہ میں ہمارے پرنسپل تھے مولانا سید عبد الوہاب بخاریٰؒ  ( افضل العلماء)، تقسیم ہند کے بعد مسلمانان ہند جن امتحانات سے گذرے، اور چنئی میں گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام ختم ہونے کے بعد یہاں کی مسلم  قیادت نے  جس طرح خطرے کو بروقت بھانپ لیا تھا، اور تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی بہتر رہنمائی کی تھی ، اس میں ایک سرفہرست نام  مولانا بخاری کا بھی ہے، اس وقت مسلمانوں کے عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی جو  تحریک چلی تھی، تو اس کی قیادت ڈاکٹر عبد الحق کرنولی) افضل العلماء) کے ہاتھ میں تھی، اس وقت آپ کے دست راست اور یارغار  مولانا بخاری مرحوم تھے،(مولانا دریابادیؒ نے  اپنی تحریروں میں جا بجا اس جوڑی کو جنوبی ہند کے سرسید اور نواب محسن الملک سے تعبیر کیا ہے)*-ان شخصیات کی رہنمائی  میں جنوبی ہند میں اس وقت مسلمانوں کے  (۱۱ ) عصری تعلیمی کالج  قائم ہوئے*، جن  میں سے  اب کئی ایک کالج ڈین یونیورسٹی کا درجہ پا چکے ہیں، مولانا بخاری ایک زاہد  اور فقیر منش انسان تھے،آپ کا کنبہ صرف میاں بیوی مشتمل تھا، مدرسے کے طلبہ، ان کی اولاد کی جگہ تھے،آپ کی پوری  زندگی جمالیہ، نیو کالج ،پریسیڈینسی کالج اور مدراس  یونیورسٹی  میں پڑھتے پڑھاتے گذری تھی ،  (ان کی زندگی بھی ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتی ہے)۔ *مولانا بڑےمخیر اور عوامی لہجے میں ایک  چندہ باز انسان تھے،صبح وشام لوگ ضرورتیں لے کر ان کے پاس آتے تھے، مولانا  ملنے کے لئے آئے ہوئے بڑے بڑے لکھ پتی شاگردوں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بے تکلفانہ انداز سے  پیسے نکال کر حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے مناظر ہمیں صبح وشام  دیکھنے کو ملتے تھے*، آپ کے بھٹکل کی تاجر برادری سے بڑے گہرے مراسم تھے، جس کی وجہ سے یہ حضرات بھی مدراس کے ملیّ اور تعلیمی اداروں میں بڑے فعال اور متحرک ہوگئے تھے، مولانا ہم سے مزاحاً  ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ* بھٹکل والوں  کو کیا چاہئے  روٹی اور کپڑے کے کاروبار پر ان کا قبضہ ہے، ابھی مکان کا کاروبار ان کے ہاتھ میں نہیں آیا ہے*۔ اس وقت تک بھٹکل کے نوائط برادری کی شناخت تجارتی برادری کی حیثیت ہی سے تھی۔  

جب ہمارا حضرت قاضی محمد حبیب اللہ علیہ الرحمۃ کے یہاں آنا جانا شروع ہوا، اور ان کے خانوادےکے نوائط برادری سے تعلق اور بھٹکلی نوائط کے برخلاف  ان کی علم وکتاب کی شناخت سامنے آتی تو بڑی حیرت ہوتی، یہی زمانہ تھا کہ ۱۹۷۲ء میں مدرسہ جمالیہ کے طلبہ کاسالانہ مجلہ نکلا، جس میں ہمیں پر بھی ایک مضمون لکھنے کی ذمہ داری آئی، انہی دنوں  تاریخ خانوادہ قاضی بدر الدولۃ ہمارے ہاتھ لگی، جس میں اس خانوادے کا  نسب نامہ درج تھا، جو کہ  * قاضی رضی الدین مرتضی بن قاضی محمود کبیر (۹۹۵ھ )بن قاضی احمد بن فقیہ ابو محمد بن فقیہ محمد اسماعیل  ( ف ۸۷۹ھ ) سے جا ملتا تھا*۔ یہ دونوں باپ بیٹے قاضی رضی اور قاضی محمود  ۱۵۱۰ء میں  گوا پر پرتگالی قبضے سے پہلے عادل شاہی دور میں  یہاں کے قاضی رہے تھے، یہ دیکھ کر ہمارا  ذہن ٹھٹھک گیا ،اور حضرت قاضی  محمدحبیب اللہ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفسار کیا کہ بھٹکل میں مخدوم فقیہ ابو محمدؒ  اور مخدوم فقیہ محمد اسماعیلؒ نامی دو بزرگوں کے مزارات پائے جاتے ہیں، یہ دونوں یہاں کے مرجع خلائق بزرگ ہیں، ہمیں شک ہورہا ہے کہ آپ کا خانوادہ ان بزرگوں سے جا ملتا ہے۔ تو قاضی صاحب نے جواب دیا کہ آپ کی  بات درست ہے، یہ ہمارے جد اعلی ہیں، اور ان کے مزارات کی زیارت کے لئے میں بھٹکل جاچکاہوں،انہی معلومات کی بنیاد پر الجمالیہ میگزین میں ہماری زندگی کا پہلا مضمون (قبیلۃ من جنوب الھند) کے عنوان سے شائع ہوا تھا، پھر بھٹکل میں قاضی صاحب کے شاگرد خاص مولانا قاضی محمد احمد خطیبیؒ سے گفتگو پر معلوم ہوا، کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒبھی اس بات کو مانتے تھے، اور وہ قاضی صاحب کی طرح اپنے جد اعلی کے مزار کی زیارت کے لئے  بھٹکل تشریف لاچکے تھے، اس کی تصدیق مولانا علی سکری اکرمی مرحوم نے یہ کہ کر کی کہ  یہ بات انہیں اچھی طرح یاد ہے،یہ  ان کے بچپن کی بات ہے، ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کا شرف ان کے بزرگوں  کو حاصل ہوا تھا،  اور ایک ملاقات میں مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم نے فرمایا کہ مولانا  قاضی محمد حبیب اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مولانا  قاضی محمد عبیدا للہ رحمۃ اللہ علیہ بھی بھٹکل کے مخدو،م فقیہ اسماعیلؒ کو اپنا جد اعلی مانتے تھے،اور اسی تعلق اور صلہ رحمی  کے جذبے سے بھٹکلی نوائط برادری کے جو طلبہ مدرسہ محمدی میں داخلہ لیتے تھے  آپ ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ اس کفالت سے خواجہ صاحب  بھی فیض یاب ہوچکے ہیں۔

اس وقت سے یہ بات دل میں  پھانس بن کر رہ گئی کہ *ٹھیک ہے تجارت وکاروبار اور دوسرے میدانوں  میں بھٹکل کے نوائط کو ناموری  اور شناخت ملی ہے، لیکن خانوادہ قاضی بدر الدلۃ جیسا علم وکتاب کی شناخت رکھنے والا خانوادہ جن سے منسوب ہے، اگر وہی علم وکتاب کی شناخت سے محروم  رہیں ، تو چاہے دوسرے میدانوں میں ان کی  ترقیاں آسمان کی بلندیوں کو چھو جائیں، مگر علم وکتاب کی شناخت ان کو کونہ مل سکے تو دوسری قابل فخر  سمجھی جانے والی باتیں اس کے سامنے ہیچ  ہوجائیں گی *۔

یہی فکر تھی جو ایک عشرے تک دل ودماغ میں پلتی رہی، یہاں تک کہ میرے سرپرست الحاج محی الدین منیری مرحوم جب ۱۹۸۱ء میں ناظم جامعہ منتخب ہوئے، اور پھر ایک دو سال میں  جامعہ آباد میں کتب خانے کی نئی عمارت تعمیر ہوئی تو آپ نے اس عاجز کو ہدایت کی کہ اللہ تعالی نے تمہیں کتابوں کا ذوق دے کر اس  میدان سے وابستہ کیا ہے، کتب خانے کی نئی  وسیع عمارت کھڑی ہے، جس میں ایک دو ٹوٹی پھوٹی الماریوں میں چند پرانی کتابیں پڑی ہیں ، اس کتب خانے کو آباد کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لو، شاید یہ قبولیت کا وقت تھا یا منیری صاحب کے اخلاص کا اثر ، کہ اللہ تعالی نے اس عاجز کو ایک عظیم مقصد کے لئے اپنی کچھ توانائیاں صرف کرنے کے لئے قبول کیا۔

اللہ تعالی  نے اس کتب خانے کی جو خدمت نصیب میں لکھی تھی اس کی توفیق تو مل گئی ،باوجود اس کے کبھی خیال آتا ہے کہ کتب خانے کے اس کام کو اور بھی زیادہ وسعت مل سکتی تھی، لیکن کیا کیا جائے اداروں کے اپنے اپنے انتطامی مسائل ہوتے ہیں، باہر  رہ کر ےاداروں کی خدمت اور تعاون  تو ہوسکتا ہے،  لیکن ان پر اختیار نہیں ہوا کرتا ، عہدے داران کے  اختیارات  کا ایک منطقی تسلسل ہوتا ہے، جگہ جگہ اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے، لہذا دانش مند اپنی فکر اور سوچ کے مطابق خود اپنے ادارے بناتے ہیں، اس سے ناموری  اور شہرت بھی ملتی ہے، اور  بانی اور موسس کی حیثیت سے نام بھی باقی رہتا ہے، لیکن جو افراد یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اداروں میں پڑھنے والے نونہال قوم کی امانت ہیں، اداروں سے وابستہ افراد کو ان کی عمروں کی حفاظت اور ان کی صلاحیتوں کو فروغ دینا اولین ترجیح ہونی چاہئے، اور کسی نیک کام کے تسلسل کو باقی رکھنا ہے تو پھر ہمارے ہاتھ میں پلنے والی ان نسلوں پر اپنی توجہات مرکوز کرنے کے سوا چارہ نہیں، شمع سے شمع جلانے کی جو بات ہوتی ہے، وہ  ان نونہالان قوم کی صحیح تربیت اور ان کی صلاحیتوں کی نشو و نما اور  فروغ میں اپنی ساری صلاحیتیں اور توجہات  صرف کرنے سےہی ممکن ہوسکتی ہیں، کیونکہ زیادہ تر افراد کے قائم کردہ ادارے ان کی زندگی تک ہی نام کر پاتے ہیں، پھر ایک دو نسلوں کے بعد زیادہ تر وہ  تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، کیونکہ تازہ خون کی مسلسل سپلائی  جس  طرح ہمارے دارالعلوم اور جامعات اجتماعی طور پر  کرسکتے ہیں وہ انفراد ی اداروں سے انجام پانا آسان کام نہیں۔

کسی ادارے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے، اس کے تعلیمی اور علمی معیار کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بلند کرنا ضروری ہے، اس کے لئے کتب خانے کو ترجیحات میں شامل کئے بغیر  چارہ نہیں۔ اب انہیں کون بتائے کہ تعلیمی اداروں میں کتب خانے کی حیثیت دل کی ہوتی ہے،ان  اداروں کے  جسم  کی نالیوں میں تازہ  خون یہیں سے دوڑتا ہے، تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم مقصود نہیں ہوا کرتا، بلکہ اس کی حیثیت بنیاد  اور  پھر وسیلے کی ہوا کرتی ہے، جس پر علم ومعرفت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، دینی اداروں کے نصاب تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے  علوم وفنون کی ترقی میں جو عمریں صرف کی ہیں  ، اپنی راتیں جاگ کر اور  آنکھوں کا پانی خشک کرکے ابتک  جو انمول لٹریچر کا خزانہ  تیار کیا ہے انہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا  کی جائے ، پھر ہماری نسلیں ان صلاحیتوں کو سیڑھی  کا پائیدان بنا  کر خود بھی اپنے اسلاف کی طرح علم  ومعرفت کے خزانے بھرنے اور انہیں اوپر اٹھانے کی فکراور جد وجہد کریں،  اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر جاری وساری رہیں تو ہمارے مدرسین و اساتذہ کے علم وفہم کی صلاحیتوں کا معیار  وقت کے تقاضوں کے مطابق قدم بہ قدم بڑھنا ضروری ہے ۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے تعلیمی ادارے جمے ہوئے تالاب کی طرح ہو جائیں جہاں پانی ٹہرا رہتا ہے،اور اس میں حرکت نہ ہونے کی وجہ سے سرانڈ پیدا ہوجاتی ہے۔ اس وقت ہمارے اداروں کی عمومی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ہمارے اساتذہ اور ذمہ داران کو سستی شہرت کی کی خواہش نے گھیر لیا ہے،انہیں شاعروں کی طرح ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع کی واہ واہ کی چاٹ لگ گئی ہے، ان کی دلچسپیاں ایسی سرگرمیوں میں  بڑھ گئی ہیں، جن میں زیادہ جانفشانی کے بغیر شہرت وناموری ملتی ہے، ،کتاب ومطالعہ سے ان کا رشتہ ٹوٹ رہاہے، جس کا نتیجہ یہ ہے عمر اور صحت کے تقاضوں سے  جو اساتذہ سبکدوش ہوجاتے ہیں، ان کی جگہیں خالی رہتی ہیں پر نہیں ہوتیں،جس کی وجہ  آگے آنے والی نسلوں کا معیار  روز  انحطاط اور تنزل کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ہمارے دینی اداروں کے  حالات  بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کی طرح بنتے جارہے ہیں، جہاں پروفیسر حضرات  اپنے بچوں کو داخل کرنے کے بجائے انہیں انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دے  رہے ہیں ، اب ہمارے علماء وفارغین کی توجہات بھی عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف زیادہ ہو رہی ہے، یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں، اسلامی مزاج و ماحول  کے  حامل ہمارے عصری تعلیمی ادارے زیادہ سے زیادہ  کھولنا وقت کا تقاضا ہے، لیکن  ہمارے دینی اداروں کے ہمدردان  اور وابستگان جب محسوس کرنے لگیں کہ جن اداروں کے لئے انہوں نے وقت اور قربانیاں دی ہیں، وہاں علم  او ر معلومات  کا معیار گھٹ رہا ہے تو پھر یہ خطرے کی گھنٹی ہے، حالات جس طرف جارہے ہیں اس سے خوف سا لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں علمی ماحول اور کتاب سے مناسبت ختم ہونے کی وجہ سے ان اداروں سے قوم کی توجہات ہٹنے لگیں، اور انہیں بھی عصری اداروں میں بدلنے  کی باتیں ہونے لگیں، اس کی مثالیں اب  سامنے آنے لگی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اب جسے  تاثر بتلا کر  شاذ ونادر کے کھاتے میں ہم ڈال رہے ہیں کل کلاں وہ حقیقت واقعہ نہ بن جائے۔ اس کے لئے سنجیدگی سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، اور یہ لائحہ عمل کسی کتب خانے  کے ماحوال میں بیٹھ ہی کر طے پاسکتا ہے، واللہ ولی التوفیق۔

2023-12-20