Khanwadah Qazi Badrud Daulah kay Do Gul Sar Sabd(01)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:54PM Wed 20 Dec, 2023

*بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( 1)*

*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

 

مورخہ ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۲ء  ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا، اس مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کو یاد کرتے ہوئے ہم نے مسعود احمد برکاتی (مدیر ہمدرد نونہال کراچی ) کا ڈاکٹر صاحب پر لکھا ہوا ایک فراموش شدہ مضمون علم وکتاب گروپ پر پوسٹ کیا تھا، احباب محفل کی پہلے روز کی خاموشی سے تو یہ احساس بن رہا تھا کہ شاید ہم کسی اہم شخصیت کی رحلت پر ابتدائی دنوں میں جذباتی ہوکر ان کے بارے میں چندایک  چیزیں ضرور پڑھ لیتے ہیں، لیکن جیسے جیسے  وقت گذر تا جاتا ہے تو پھر ان شخصیات میں ہماری دلچسپی ختم ہوتی جاتی ہے، لیکن دوسرے روز  احباب کے تاثرات اور انفعال سے محسوس ہوا کہ کم از کم  ہماری اس بزم کے احباب ایسے نہیں ہیں۔ اس رویہ سے واقعی ہمارا حوصلہ بڑھا ہے اور اس کارواں کے لئے مزید محنت کرنے کی تحریک پیدا ہوئی ہے۔

برکاتی  صاحب کے مضمون پر جو تاثرات موصول ہوئے ہیں، ان میں  آمبور سے ڈاکٹر ابوبکر ابراہیم عمری   کا بھی ایک تاثر ہے ،اس میں آپ فرماتے ہیں کہ:

"علامہ حمید اللہ مرحوم کا تعلق شہر مدراس کے علمی خانوادہ "قاضی بدرالدولہ" سے تھا. جس کا تذکرہ مولانا یوسف کوکن عمری نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف خانوادہ قاضی بدرالدولہ میں کیا ہے.... استاد محترم مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی رحمۃ اللہ... جو  جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں... ڈاکٹر حمید اللہ کے شاگرد رہ چکے ہیں.... فرماتے تھے کہ.... آپ بڑے محتاط رہا کرتے تھے کسی کو اپنے زیادہ قریب آنے نہ دیتے اور اپنا کھانا  خود اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے"۔

قاضی بدرالدولۃ کے خانوادے کی جب بات آئی تو ہمارے  حافظے کے دھندلکے سے کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، ان کا ذکر پہلے بھی بارہا  یہاں آچکا ہے، پر بھی تذکیر میں کیا حرج ہے؟، کچھ نئے احباب بھی تو اس بزم میں شامل ہوگئے ہیں، اور بات کو مربوط کرنے کے لئے تکرار کے بغیر چارہ بھی تو نہیں۔خانوادہ قاضی بدرالدولۃ کے مصنف رقم طراز ہیں کہ:

"جنوبی ہند کا یہ مشہور و معروف علمی خاندان قاضی بدرالدولہ ہے۔(شاید) تاریخ میں کوئی ایسا عالی شان خاندان نظر نہیں آتا ہو اس طرح سترہ پشتوں تک اپنی علمی قدر و منزلت کو قائم رکھتے ہوئے دین اور علم کی زرین خدمات کرتا چلا جارہا ہو " ۔مصنف نے یہ بات آج سے کوئی ساٹھ سال قبل کہی تھی، اس دوران مزید کئی نسلوں کا اضافہ ہوچکا ہے،لیکن اس وقت جو حالات سننے میں آرہے ہیں، ان سے تو ایک  دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ سنہری کڑی اب کہیں ٹوٹنے کی کگار  پر تو نہیں ہے،خدا کرے ہمارا یہ صرف  خوف  ہی ہو۔

خانوادہ قاضی  بدر الدولۃ  کی نسبت ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے دادا مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے  جو قاضی بدر الدولۃ کے لقب  سے مشہور تھے، کوکن عمری نے  لکھا ہے کہ ( (جنوبی ہند میں قاضی بدر الدولۃ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے زمانے کی بدعات و سیئات کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کو مٹانے کی کوشش کی(۴۳۷ )۔آپ کی کتاب فوائد بدریہ اردو زبان میں سیرت النبی کے موضوع پر مطبوعہ اولین کتاب مانی گئی ہے۔قاضی بدر الدولۃ کے والد شرف الملک مولانا محمد غوث مدراسی (وفات  : ۱۲۳۸ھ )  سلطنت والاجاہی میں مدارالمہام کے منصب پر فائز تھے، ساتھ ہی ساتھ آپ کا علمی مقام بھی بہت بلند تھا، آپ کی کتاب" نثر المرجان فی رسم القرآن" ، قرآن کریم کے رسم املا پر  ایک عظیم ترین مرجع سمجھی جاتی ہے، اس کتاب کا نیا ایڈیشن (۱۴ ) جلدوں میں ابھی چند سال قبل مصر سے شائع ہوا ہے۔ کوکن عمری نے آپ کی کتاب دوستی کے سلسلے میں واقعہ نقل کیا ہے کہ نواب عظیم الدولۃ (ریاست آرکاٹ) نے   آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی امداد واعانت سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو وہ انہیں ایک لاکھ روپیہ دیں گے۔ جب وعدے کے ایفا کا وقت آیا اور نواب عظیم الدولہ اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو مولوی صاحب نے کہا انہیں ایک لاکھ روپیہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ قاموس کا وہ نسخہ دے دیجئے  جو سرکاری کتب خانے میں موجود ہے۔ چنانچہ نواب عظیم الدولہ نے یہ نسخہ انہیں دے دیا  اور یہ نسخہ  اب تک خاندان میں محفوظ ہے۔ اس پر جو عبارتیں ہیں ان کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن الشیخ حجر الشافعی نے صفحہ صفحہ اور سطر سطر کو  اصل نسخہ سے مقابلہ کیا اور شریف مکہ نے یہی نسخہ سلطان روم(خلیفہ عثمانی ) کو بطور تحفہ بھیجا تھا۔ مولانا عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلویؒ نے اس کا مطالعہ کیا تھا مولوی غلام علی آزاد بلگرامیؒ کی ملکیت میں بھی چند دن یہ نسخہ رہا۔ انہوں نے شعبان۱۱۷۳ھ  کی تاریخ لکھی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد بلگرامیؒ کے ذریعہ یہ نسخہ اورنگ آباد سے مدراس پہنچا اور والا جاہی سرکاری کتب خانے میں داخل ہوا تھا (۱۶۲ )۔

قاضی بدر الدولۃ کے فرزندان میں سے  مولانا قاضی عبید اللہ  مدراس کے چیف قاضی رہے، ان کے دوسرے دو فرزندان نے حیدرآباد دکن ہجرت کی ، جن میں سے ایک مولانا محمد سعیدؒ   یہاں کے مفتی اعظم رہے، اور  دوسرے مولانا ابو  محمد خلیل اللہؒ بھی علمی دنیا سے وابستہ رہے، اور ان تینوں بھائیوں نے کتب خانہ محمد یہ مدراس، کتب خانہ سعیدیہ حیدرآباد، اور کتب خانہ خلیلیہ حیدرآباد کے ناموں سے تین عظیم قلمی کتابوں کے ذخیرے یاد گار چھوڑے، جن کی مجموعی تعداد دس ہزار قلمی کتابوں سے متجاوز تھی، دائرۃ المعارف العثمانیہ کی مطبوعات میں مخطوطات کے انہی  ذخیروں سے  زیادہ تر مدد لی گئی تھی۔ان میں بعض کتابوں کا تو اس وقت  ایک ہی نسخہ دستیاب ہوا تھا، جیسے امام ابن القیمؒ کی کتاب* احکام اہل الذمہ *کا نسخہ جسے  ڈاکٹر صبحی الصالح  مفتی لبنان نے ایڈیٹ کیا تھا، اس کا  قلمی نسخہ صرف مکتبہ محمدیہ مدرس میں اس وقت دستیاب ہوا تھا۔  کوکن عمر ی کے مطابق  اس مکتبہ میں  اسماعیل عادل شاہ (وفات  ۱۵۳۴ء ) کے زمانے سے مسلم سلاطین اور بادشاہوں کے فرامین محفوظ ہیں،( اس ناچیز نے یہاں پر مغل شہنشاہ  شاہجہاں وغیرہ کی دستخط سے جاری شدہ کئی فرامین خود دیکھیں ہیں)۔ سابق ناظر کتب خانہ محمد عبید اللہ مرحوم کے بقول" آج سے تین سال پہلے (۱۹۸۷ء میں)  امریکہ کے شکاگو اسٹیٹ سے ایک خاتون ریسرچ اسکالر ہندوستان آئی تھیں ۔ تاکہ ہندوستان کے کسی ایک مسلم یا ہندو خاندان پر ریسرچ کریں۔ اور اپنا تحقیقی مقالہ  اللی نوائے یونیورسٹی میں داخل کریں۔ انہوں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیں اور اس نائطی خاندان کو اپنے مقالہ کا عنوان بنائی ہیں۔ ریسرچ اسکالر مسز سلویا داتوک نے رائے ظاہر کی ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی مسلم یا ہندو خاندان کے علمی خدمات کا اتنا علمی ذخیرہ محفوظ نہیں ہے ۔جتنا کہ اس نائطی خاندان کے پاس اپنے اسلاف کے علمی خدمات کا ذخیرہ جو کئی صدیوں سے آج تک بھی محفوظ ہے "۔

  ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ ،  قاضی بدر الدولۃ ؒکے پوتے اور مولانا ابو محمد خلیل اللہؒ کے فرزند تھے۔ مولانا ابو محمد خلیل اللہ بھی  خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرح مذہب شافعی کے مستند فقیہ تھے، قاضی بدر الدولۃ ؒ  کی اردو  کتاب ریاض النسوان ( مسائل عبادات پر) ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے، اور مدتوں شامل نصاب  رہی ہے، اسی طرح مسائل معاملات پر مولانا ابومحمد خلیل اللہ کی کتاب تحفۃ الخلان  اردو میں اہم مرجع  کی حیثیت رکھتی ہے، یہ مذہب شافعی کی ایک معتبر کتاب عمدۃ السالک وعدوۃ الناسک کے نصف آخر کا ترجمہ ہے۔

ہندوستان میں مذہب شافعی کے ماننے والوں کی بڑی تعداد کیرالا میں پائی جاتی ہے، ان کی زبان ملیالم ہے، اردو داں حلقے میں مذہب شافعی کی اتباع کرنے والوں کی تعدا د بہت محدود ہے، یہ بھٹکل واطراف ، کوکن، حیدرآباد ، او ر کشمیر کے متعدد علاقوں میں منتشر طور پر پھیلے ہوئے ہیں ، ایک زمانے میں چنئی (مدراس )، بھٹکلی نوائط برادری کا تجارتی مرکز رہا ہے،وہاں ہوٹل اور لنگیوں کے کاروبار میں  ان کی مخصوص شناخت تھی، چنئی کے تمام اہم مسلم علاقوں میں ان کے ہوٹل ہوا کرتے تھے، جن کی اپنے دور میں بڑی شہرت تھی، ۱۹۷۰ء کی دہائی میں صرف پیریمیٹ جامع مسجد کے آس پاس ا ن کے پانچ چھ ریسٹونٹ  ہوا کرتے تھے۔رائے پیٹھ جہاں خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کا دیوان  باغ ہے ، اس کے اطرف بھی کئی ایک ہوٹل تھے، اردو زبان سے تعلق کی وجہ سے بھی بھٹکل والوں کے عقیدت مندانہ روابط اس خانوادے کے ساتھ بڑے مضبوط تھے۔ قاضی بدر الدولۃؒ کے فرزند مولانا قاضی محمد عبید اللہ ؒاوران کے جانشین مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسیؒ کاعہد ان روابط وتعلقات کا سنہرا دور ہے، جس وقت  بھٹکل میں جامعہ  قائم نہیں ہوا تھا، اور  یہاں کے طلبہ کا ندوۃ العلماء اور دوسرے اداروں میں جانا عام نہیں  ہوا کرتا تھا ،تب بھٹکل کے تقریبا سبھی  علماء دستار فضلیت باندھنے، اور مذہب شافعی میں افتاء کی تربیت پانے کے لئے اسی خانوادے کے قائم کردہ مدسہ محمدی، دیوان باغ، رائے پیٹھ ( چنئی )جایا کرتےتھے، قاضی محمد عبیدا للہ مدراسی تو  نسبی تعلق ہونے کی وجہ سے  بھٹکل والوں سے بڑی محبت کا سلوک کرتے تھے، اور یہاں سے آنے والے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے تھے، اور ان کی بھی کیا کرتے تھے، بھٹکل کے عظیم علماء وفقہاء میں سے مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمیؒ،  ان کے برادر مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی پر آپ کا خاص دست شفقت رہا  تھا۔  دیگر اکابر علمائے بھٹکل میں سے مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمیؒ ( دھاکلو بھاؤ خلفو)، مولانا قاضی محمد احمد خطیبی ( کوچو صاحب خلفو)، مولانا قاضی محمد حامداکرمی (صاحبو خلفو ) وغیرہ کونسے قاضی و عالم ایسے نہ تھے جنہوں نے خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے اکابر وقاضیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو، اور ان  سے علمی فیض اورفقہ شافعی میں مہارت حاصل نہ کیا ہو، اور ان کے عظیم کردار ، اور ان کے زہد وتقوی اور للہیت کو مشعل راہ نہ بنایا ہو۔   (جاری )