پام آئل کے درخت ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Thu 22 Jan, 2015

’ائمہ‘ امام کی جمع ہے اور اس کے الف پر مد یعنی آئمہ نہیں ہے، لیکن بیشتر اخبارات میں آئمہ ہی چھپ رہا ہے، حتیٰ کہ ائمہ مساجد کی تنظیم کی طرف سے موصول ہونے والی پریس ریلیز میں بھی یہ آئمہ ہی ہوتا ہے۔ ایک اخبار میں بڑی سی سرخی ہے ’’جائیداد ضبطگی کا حکم‘‘۔ یہاں صرف ’ضبطی‘ سے کام چل جاتا، ضبطگی کی ترکیب صحیح نہیں ہے۔ شعر ہے: ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں اب تو شاید نصاب میں ایسی کتاب مشکل سے ملے جس کو ضبط نہ کیا جائے، مگر قوم کے صبر و ضبط کو سلام۔ اب اگر ضبط سے ضبطگی ہوسکتا ہے تو خبط سے خبطگی بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح درستی کی جگہ درستگی کا استعمال بھی غلط ہوگا۔ ان شاء اللہ کی جگہ انشاء اللہ اتنا غلط العوام ہوگیا ہے کہ علماء کرام بھی اس سے گریز نہیں کرتے۔ ماہنامہ ’البلاغ‘ جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ہے اور اس میں نہایت قیمتی دینی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ یہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔ دسمبر 2014ء کے شمارے میں خود حضرت مفتی صاحب کا بہت دلچسپ اور طلبہ کے لیے مفید مطلب مضمون ’’طالب علمی کی زندگی مجاہدے کی زندگی ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس کی آخری سطور (صفحہ 95) میں اِن شاء اللہ ملا کر ’’انشاء اللہ‘‘ چھپا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سہوِ کاتب ہے۔ حضرت مفتی صاحب ایسے نہیں لکھ سکتے، کیونکہ اس سے مفہوم بدل جاتا ہے۔ ان شاء اللہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے اور مفتی صاحب اس سے لاعلم نہیں ہوسکتے۔ اسی شمارے میں سینئر صحافی جناب نصیر احمد سلیمی کا ایک مضمون جامعہ دارالعلوم کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ’’پیشہ ورانہ‘‘ کو دو جگہ ’’پیشہ وارانہ‘‘ لکھا گیا ہے (صفحہ 129)۔ اگر یہ پیشہ سے ہے تو پھر ’’پیشہ وار‘‘ بھی ہوگا جیسے دیوانہ وار، پروانہ وار۔ جب کہ کوئی پیشہ وار نہیں لکھتا بلکہ پیشہ ور لکھا اور کہا جاتا ہے۔ جانے یہ الف بیچ میں کہاںسے آگیا۔ شاید فرقہ وارانہ سے۔ ’’وار‘‘ کا مطلب ہے: طرح، مثل۔ یعنی دیوانہ وار کا مطلب ہوا: دیوانے کی طرح۔ وار ہی سے ایک لفظ ہے ’’وارا‘‘۔ ہم نے یہ جملہ تو کئی بار سنا کہ وارا نہیں کھاتا۔ یعنی سودے میں منافع نہیں۔ ہم سمجھتے رہے کہ یہ ’’وارا‘‘ عوامی زبان ہے لیکن اس کا مطلب ہے: نفع، فائدہ۔ اور کلیاتِ میرؔ میں شعر ہے: جان اپنا جو ہم نے مارا تھا کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا اب یہاں ہماری پریشانی یہ ہے کہ ’جان مارا‘ صحیح ہے یا جان ماری۔ عام بول چال میں تو یہی ہے کہ ہم نے بہت جان ماری، مگر اب میرؔ صاحب کا کیا کریں؟ لیکن انہی میر صاحب کا ایک اور شعر ہے: وفاداری نے جی مارا ہمارا اسی میں ہو گا کچھ وارا ہمارا ایک اور لفظ ہے ’’وارفتہ‘‘۔ سب ہی جانتے ہیں یعنی شیفتہ، وہ شخص جو شیفتگی اور چاہت میں اپنے آپے میں نہ رہے۔ آتشؔ کا شعر ہے: کوئی وارفتہ نہیں تیری طرح داری کا حوصلہ سب کو ہے یوسف کی خریداری کا اب کیا یہ وارفتگی ’’وار‘‘ اور وارانہ سے ہے یا یہ ایک الگ لفظ ہے؟ بہرحال ’پیشہ وارانہ‘ صحیح نہیں ہے خواہ پیشہ کچھ ہی ہو۔ لیکن ہم نے اخبارات میں متعدد بار ایسے ہی پڑھا ہے۔ ’البلاغ‘ میں تصحیح کردینی چاہیے تھی۔ ایک مزے کی سرخی 19 جنوری کے ایک اخبار میں دیکھی ’’40 کروڑ کی لاگت سے لگے پام آئل کے درخت، تباہ‘‘۔ یہ انکشاف پہلی بار ہوا کہ ’’آئل‘‘ کے بھی درخت ہوتے ہیں۔ ناریل کے درختوں کی جگہ کوکونٹ آئل کے درخت ہونے چاہئیں۔ ارے بھائی، پام کے درخت ہوتے ہیں جن سے آئل یعنی تیل بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ دئے، لئے، کئے تو چل ہی رہا ہے بجائے دیے، لیے، کیے کے۔ ہم نے سطورِ بالا میں ’’چاہئیں‘‘ لکھا ہے۔ ایک نوجوان صحافی اعظم طارق کوہستانی نے توجہ دلائی ہے کہ آپ ہمزہ سے چاہئیں لکھتے ہیں، وہ صحیح ہے یا ’’چاہییں‘‘ (دو ’ی‘ کے ساتھ)۔ مولانا مودودیؒ نے دوسرے طریقے سے لکھا ہے چنانچہ ہم رجوع کرلیتے ہیں ’’چاہییں‘‘ ہی صحیح ہے، لیکن ایسے لکھنے میں ذرا دشواری ہوتی ہے۔ ایک اور لفظ بھی ایسا ہی ہے ’’تعیین‘‘۔ یعنی تعین سے ہٹ کر۔ اس میں بھی دو ’ی‘آتی ہیں۔ تعین اور تعیین کے معانی میں ذرا سا فرق ہے۔ ٹی وی پر خبریں پڑھنے والے عموماً تعینات (تعی نات) کی جگہ تعیّنات بولتے ہیں۔ ہم تو بغیر تشدید کے یعنی ’’تعی نات‘‘ ہی سنتے اور بولتے آئے ہیں۔ لغت میں تعیّنات (تشدید کے ساتھ) ہے، تاہم تعیناتی (تعی ناتی) بغیر تشدید کے ہے۔ تعیین (دو’ی‘ والا) عربی کا لفظ ہے اور مونث ہے۔ مطلب اس کا ہے: مقرر کرنا، معین کرنا، مخصوص کرنا، تقرر وغیرہ۔ تعیّن مذکر ہے لیکن معانی یکساں ہیں یعنی: مخصوص ہونا، مقرر ہونا، تقرر، ہستی، وجود (افعال: کرنا) یعنی تعیین کے مطلب میں ’’کرنا‘‘ اور تعین میں ہونا پایا جائے گا۔ ایک اور لفظ ہے ’’تغیّر‘‘ اور ’’تغییر‘‘۔ اس میں بھی ایسا ہی کچھ پھیر ہے۔ پرانی بات ہے، ایک شاعر نے تغییر باندھا تو ہم نے اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے مذاق اڑانے کی کوشش کی، لیکن ہمارا ہی مذاق بن گیا۔ ہماری کوشش ہے کہ کمپوزنگ یا پروف ریڈنگ کی غلطیاں پکڑنے کے بجائے زبان و بیان کی غلطیوں کی نشاندہی کریں اور یہ نشاندہی ہمارے ہم پیشہ ساتھیوں کے لیے ہے۔ جہاں تک مشینی کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیوں کا تعلق ہے تو یہ ہر اخبار، رسالے میں بے شمار مل جائیں گی۔ شاید ہی کوئی اخبار ، رسالہ اس سے مستثنا ہو۔ nn