جناب محمد رحیم الدین انصاری کی یاد میں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:18AM Sat 1 Oct, 2022

۲۷ ستمبر کو حیدرآباد سے جناب محمد رحیم الدین انصاری صاحب کی رحلت کی خبر آئی ہے،مرحوم گذشتہ کئی سالوں سے بیمار تھے، انہیں گردوں کی تکلیف لاحق تھی، آپ کی پیدائش تلنگانہ کے ایک سرحدی قصبے میں ہوئی تھی، آپ نے گریجویشن نظام کالج حیدرآباد میں مکمل کیا اور پھر یہیں کے ہورہے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر (۶۸) سال تھی۔

آپ دکن کے مایہ ناز خطیب اور مصلح مولانا حمید الدین عاقل حسامی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد تھے، آپ سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۸۲میں ہوئی تھی جب آپ پہلے پہل مولانا کے ساتھ دبی تشریف لائے تھے، اس کے بعد بھی دبی ہی میں مولانا مرحوم کی رفاقت میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔حیدرآباد میں بھی ایک دوبار ملنے کا موقعہ ملا۔

مولانا حسامی مرحوم بنیادی طور پر واعظ ،داعی واصلاح معاشرہ سے وابستہ صوفی صافی شخصیت کے مالک تھے، اور رحیم الدین انصاری صاحب دینی مزاج کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم یافتہ اور بہترین منتظم تھے۔وہ مولانا کی تقاریر اور مجالس سے متاثر ہوکر آپ کے معتقد بنے تھے، اور جب یہ عقیدت رشتہ داری میں بدل گئی تو الگ الگ خداداد صلاحیتیں یک ساتھ جڑنے سے حیدرآباد ، تلنگانہ اور آندھر ا کے مسلمانوں کا بڑا فائدہ ہوا، انصاری صاحب نے مولانا مرحوم کی وجاہت، آپ کے اثر و رسوخ ، اور عامۃ الناس کی  آپ سے عقیدت کو مسلمانان دکن کے فائدے کے لئے خوب استعمال کیا، جس کے اثرات تادیر باقی رہیں گے، اور اس کا اجر وثواب تاقیامت ان حضرات کو ملتا رہے گا۔

ء۱۹۷۵میں انجمن حسامیہ حیدرآباد کے زیر انتظام دارالعلوم حیدرآباد کا قیام عمل میں آیا اور پھر انصاری صاحب اس ادارے کے انتظام وانصرام سے منسلک ہوگئے تو آپ نے اس کی ترقی وبہبود کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں نچھاور کیں۔ اس زمانے میں حیدرآباد میں قائم زیادہ تر مدارس  جامعہ نظامیہ اور پیر نوری شاہ بابا مرحوم  جیسی  روحانی شخصیات کے زیر اثر تھے، اور ان کا میلان خوش عقیدگی کی طرف بڑھا ہوا تھا،جسے بعض حضرات بدعت سے بھی تعبیر کرتے ہیں، مولانا حسامی مرحوم کا گھرانہ بھی ان  سے متاثر تھا ، آپ کے بھائی جلال الدین کامل حسامی مرحوم نہ صرف اس مسلک کے علمبردار تھے بلکہ ان میں بریلوی انداز کی شدت پسندی بھی سرایت کرگئی تھی۔ لیکن مولانا عاقل صاحب نے خود کو مسلک دیوبند سے قریب رکھا ، اور یہاں کے بدعتی تصوف زدہ ماحول میں ایک حد تک توازن باقی رکھنے کی کوشش کی، انہوں نے اپنی افادیت کو پانی کے جھرنے کی طرح عام رکھا،لوگوں نے مسلک کی حدبندیوں سے بلند ہوکر آپ پر عقیدت کے پھول نچھاور کئے، آپ کا قائم کردہ دارالعلوم حیدرآباد بنیادی طور پر مسلک دیوبند سے قریب رہا۔اور اسے علمائے دیوبند سے نزدیک لانے میں  انصاری صاحب کا بڑا ہاتھ رہا۔

یہاں بر سبیل تذکرہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ جب آنجہانی اندراگاندھی برسریر اقتدارتھیں، تو ان کی سیاست کا ایک انداز یہ  بھی تھا، کہ وہ اپنے سے بڑوں کے زیر اثر رہنا  پسند نہیں کرتی تھیں، اسی طرح جنہوں نے انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی تھی ، اور وہ کسی وقت اسے چیلنج دینے یا دباؤ میں لانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے ، ان کا پتہ بھی کاٹ دیتی تھی۔ دیکھا گیا ہے کہ اندراجی کے دور اقتدار میں چند ایک ملی قائدین کانگرس سے جڑے ہوئے تھے، سیاست کی راہ داریوں میں کہیں نہ کہیں ان کا بھی اثر محسوس ہوتا تھا، اس زمانے میں

ملی قیادت اور اداروں میں چند ایسے قائدین بھی نظر آئےجو ملت کی اجتماعی اور تعلیمی زندگی سے وابستہ انتظام و انصرام کے معاملات میں دریا کے دوپاٹ جیسے تھے، جو ساتھ ساتھ چلتے تو ہیں، لیکن کبھی آپس میں نہیں ملتے، لیکن  جہاں تک اندراجی کی مزاج کا یہ پہلو ہے، اسے انہوں نے خوب نبھایا تھا، سنہ ۱۹۸۰ء کی دہائی  کے آغاز میں جب بہار کے بعض مرکزی دینی وملی اداروں کی ڈور نوجوان قیادت کے ہاتھوں میں سونپی جاری تھی تو ، ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہاں پر تدریس و انتظام و انصرام سے وابستہ کہنہ مشق اور قدیم نسل سے اس تازہ دم قیادت سے ٹکراو کی صورت حال پیدا ہوئی،  اور وہاں پر ایک گھٹن کا ماحول پیدا ہوگیا،  اس وقت کے بعض کہنہ مشق اور تجربہ کار بزرگوں نے ان تاریخی اداروں کو انتشار سے بچانے کے لئے ان سے علحدگی میں عافیت سمجھی، اور نامعلوم مستقبل کی طرف رواں دواں ہوئے، اور بعضوں نے آفاقیت میں اپنی خداداد صلاحیت اور تجربات کے استعمال میں بہتری سمجھی اور اپنے ان اداروں میں جہاں انہوں نے جوانی کا خون خشک کیا تھا، اپنی توجہات کو محدود کردیا،انہوں نے دریا کی روش کو اپنایا جو راستے میں کوئی چٹان یا پہاڑی آنے پر اس سے ٹکرانے کے بجائے اپنے لئے نیا راستہ چن لیتا ہے، لیکن بہنا بند نہیں کرتا، اس وقت دارالعلوم حیدرآباد کے ابتدائی دن تھے، اور یہ ادارہ گھٹنوں چل رہا تھا، بہار کے بعض اداروں کی اس صورت حال سے جن اداروں کو استفادے کا بھرپور موقع ملا ان میں دارالعلوم حیدرآباد سر فہرست رہا، ان  ہنر مند اور تجربہ کار اساتذہ اور علمائ پر حیدرآباد دکن نے اپنی باہیں کھول دیں۔

 نئی نسلوں تک علم تو یہ تجربہ کار اساتذہ  ہی  سینہ بہ سینہ منتقل کرسکتے تھے جنہوں نے بیس ،پچیس سال قال اللہ اور قال الرسول کی مسند امانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ سنبھالی ہو، ایسوں سے جب تعلیمی ادارے خالی ہوجائیں تو تاج محل اور لال قلعہ جیسی درسگاہوں کی عمارتیں کس کام کیں؟۔ایک درخت کے سائے میں بچھائی گئی مسند کامقام ان جیسی مسندوں سے بلند ہے جو محلات میں بچھائی جاتی ہیں، لیکن تجربہ اور روح سے خالی ہوتی ہیں،ریاست بہار باصلاحیت اور محنتی افراد کی جگہ ہے، لیکن کچھ عرصہ سے وطن کے ملی اداروں میں یہاں کی باوزن ملی قیادت کا جو تناسب تھا وہ ماند پڑتا چلا جارہا ہے،اب  یہاں کے ملی اداروں میں سرپرستوں اور ناظموں کی دوڑ میں کئی ایک  افراد مل جاتے ہیں،لیکن ان عہدوں کا جو وزن پہلے محسوس ہوتا تھا، اب عنقا ہورہا ہے، جب اعلی معیار کا تسلسل ٹوٹ جائے تو پھر ان کڑیوں کو جوڑنے میں زمانے لگتے ہیں، اورکبھی یہ کڑیاں ٹوٹی ہی رہتی ہیں۔

مولانا محمد رحیم الدین انصاری مرحوم دارالعلوم حیدرآباد کے منصب نظامت پر فائز رہے، اور جب تک جان میں جان رہی اس کے علمی وقار کو بلند کرنے کے لئے کوشاں رہے۔آپ کی دلچسپیوں سے امارت شرعیہ بہار کے طرز پر امارت ملت اسلامیہ کا قیام بھی عمل میں آیا،اور اس کے امیر شریعت کے طرز پر امیر ملت اسلامیہ کا عہدہ بھی تخلیق کیا گیاا،  اگر اس ادارے کی مؤسساتی حیثیت کو امارت شرعیہ کے  طرز پر مضبوط کرنے کے لئے مزید توجہ دی جاتی تو یہ ادارہ ارض دکن کی کئی ایک بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا تھا۔ یہ سب پیدا کرنے والے کی حکمتیں ہیں وہی انہیں بہتر جانتا ہے۔

انصاری صاحب جب تک زندہ رہے، دارالعلوم  کے ساتھ ساتھ ملت کی سربلندی کے لئے بھی  میں بھی کوشاں رہے، آندھرا وتلنگانہ میں مسلمانوں کی آواز کو ایک موقف پر اکٹھا کرنے کے لئے متحدہ محاذ قائم کیا، انہوں نے اردو زبان کی ترقی کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں، آپ متحدہ ریاست آندھرا پردیش اردو اکاڈمی کے صدر نشین رہے، اس طرح دوسری مرتبہ تلنگانہ کی علحدگی کے بعد بھی اس کے  صدر منتخب کئے گئے، اور انتقال کے تین ماہ قبل تک اس منصب پر فائز رہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ ،مجلس شوری دارالعلوم ندوۃ العلمائ لکھنو جیسے باوقار اداروں کے ممبر رہے۔

آپ کی زندگی حرکت اور عمل سے مزین تھی، بحیثیت انسان کس میں خامیاں نہیں ہوتیں، وہ بھی ایک انسان تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں ملت اور قوم کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لئے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ ان کی یہ کوششیں وہاں پر ان کے کام آئیں گی جہاں کچھ اور کام نہیں آتا۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے،

Whatsapp:00971555636151

2022-10-01