"وجدان نے چودہ سو سال کی الٹی زقند لگا کر پہلے زمانہ کے واقعات کو تخیل کی نظر سے دیکھا۔ دنیا بداعمالیوں سے ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی۔ کفر کی کالی گھٹا ہر طرف تلی کھڑی تھی۔ عصیاں کی بجلیاں آسمان پر کوندتی تھیں۔ نیکی، نفس کی طغیانیوں میں گھری ہوئی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ راه راست سے بھٹکی ہوئی آس اور یاس کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ کہیں روشنی کی کرن پھوٹے اور اسے سلامتی کی راہ مل جائے۔ وہ کفر کے اندھیرے میں ڈرتے ڈرتے قدم اٹھا رہی تھی۔ دیکھو وہ چند قدم چل کر رک گئی۔ سر راه دو زانو ہوکر عالم یاس میں سینے پر ہاتھ باندھے گردن جھکائے، مصروف دعا ہو گئی اور نہایت عجز اور الحاح سے بولی، اے نور وظلمت کے پروردگار! میں غریب اس پر ہول اندھیرے میں کب تک بھٹکتی پھروں۔ اے آقا! اپنے کرم سے اس نور کا ظہور کر، جوظلمت کدہ دہر کو منور کر دے۔ وہ نور پیدا کر جو بے بصر کو طاقت دید بخشے۔ اس نے آمین آمین کہہ کر سر جھکایا۔ یک بیک اس کے دل میں خوشی کی لہر اٹھی اور اس کے رخسار نو شگفتہ گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح شاداب نظر آنے لگے کیونکہ اسے قبولیت دعا کا القاء ہورہا تھا۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ ستاروں سے زیادہ روشن آنکھیں اٹھائیں، کفر کی گھٹائیں چھٹ رہی تھیں۔ افق مشرق پر محبت کی کہانی سے زیادہ دلکش پو پھٹ رہی تھی۔ آفتاب ہدایت کے طلوع کی تیاریاں ہورہی تھیں!
۲۰/اپریل ٥٧١ ھ بمطابق ۹ ربیع الاول دو شنبہ کی مبارک صبح کو قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشیوں میں مصروف تھے کہ آج دعائے خلیل اور نوید مسیحا مجسم بن کر دنیا میں ظاہر ہوگی۔ حوریں جنت میں تزئین حسن کیے بیٹھی تھیں کہ آج صبح کائنات کا غازہ نمودار ہو گا ، جس کے عالم وجود میں آتے ہی شرک اور کفر کی ظلمت کافور ہوجائے گی۔ لوگ اپنے پروردگار کو جاننے لگیں گے نسل اور خون کے امتیاز کی لعنت مٹ جائے گی۔ غلام اور آقا ایک ہو جا ئیں گے، شبنم نے سے عالم ملکوت کی ان باتوں کو سنا اور یہ پیام مسرت کرہ ارض کے کانوں تک پہنچا دیا۔ وہ خوشی سے کھل گئے، کلیاں مسکرانے لگیں۔ دن کے دس بجے بی بی آمنہ کے بطن سے وہ لعل جہاں تاب پیدا ہوا، جس کے لئے قصر مذلت میں گری ہوئی انسانیت کو اٹھانا ، غریب اور غلام کو بڑھانا عورت کو مرد کے برابر کر دکھانا، ازل سے مقدر ہو چکا تھا۔
وہ نو مولود زچہ خانہ میں مسکرایا ۔ اس کائنات ارضی کا ذکر کیا، فضائے ملکوت میں بھی مسرت کی لہر دوڑ گئی، کیوں کہ دنیا کی سچی خوشی کا سبق اس سے ملنے والا تھا۔ کفر سجدہ میں گر گیا، ادیان باطلہ کی نبضیں چھوٹ گئیں، عبداللہ کا بیٹا، آمنہ کا جایہ، دنیا میں کیا آیا، دنیا پر مستقل ترقی کے دروازے کھل گئے، کائنات کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہو کر مصروف عمل ہو گئیں۔انسانیت کی تعمیر اخوت و مساوات کی خوشگوار بنیادوں پر شروع ہوئی۔ متلاشیان حق کو ایسا عرفان الٰہی عطا ہوا کہ ما سوی اللہ کا خوف خود دل سے جاتا رہا۔
عبدالمطلب کو جب معلوم ہوا کہ عمل و اخلاق کی حد کمال نے انسانی پیکر اختیار کر لیا ہے تو دل نے دعاؤں کی پرورش کی۔ اس خیال سے کہ یہ مولود انسان کا ممدوح ہے، اس کا نام محمد رکھا۔ انسانیت کے اس کمال کا عالم وجود میں آنا انسانوں کے لئے کس قدر باعث برکت ہوا اس کا حال دنیا میں پھیلی ہوئی روشنی علم اور ترقی تہذیب سے پوچھو۔ مسلمان اس دن کو یاد کرکے جتنا مسرور ہوں کم ہے کیوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے دنیا کو مسرتوں سے بھر دیا ، لیکن مسلمانوں نے اس خوشگوار یاد کو دل میں تازہ رکھنے کے لئے کیا کہا؟ مولود پڑھا، نعتیں سن کر رات آنکھوں میں کاٹی، لیکن جب عین نماز فجر کا وقت ہوا تو سو گئے، ہمارے ملک میں میلاد کی محفلوں پر اربوں روپئے صرف ہوئے، مگر مسلمانوں کے پاس اپنی اور انسانیت کی تعمیر کے لئے پائی تک نہیں۔ کاش! مسلمان اس دن اپنے چندوں سے تربیت اطفال کے لیے مرکز قائم کریں تاکہ اولوالعزم بچے پیدا ہوں، جو تعلیم اسلام کو عام کریں اور دنیا سے اپنا لوہا منوائیں۔ دنیا کے سب سے بڑے خادم کی یاد تعمیری کام سے منانی چاہئے، صرف نعتیں پڑھ دینے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو تقویت نہیں پہنچ سکتی، باتوں سے نہیں، عمل سے اسلام کا بول بالا کرو، مخلوق کی خدمت کے لئے مواقع تلاش کرو۔"