"ابھرتے ہوئے سورج کی نرم سنہری شعاعیں لپک لپک کر اور بڑھ بڑھ کر مقدس کعبہ کے غلاف پر اپنے کنوارے بوسے نچھاور کر رہی تھیں، نیلے آسمان کی نیم قوس میں تنی ہوئی سنہری دھوپ سے بہت اونچے نیلے خلاؤں کے عین وسط میں کعبہ کے مقدس کبوتر نقطوں کی طرح گڑے ہوئے معلوم ہوتے تھے، لیکن مکہ ابھی تک نیم خوابی کے عالم میں اونگھ رہا تھا، آج کسی قافلہ کو نہیں آنا تھا، اس لئے مکہ کی آبادی نے اپنے گھروں سے نکلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، مکے کے امیر تاجر حریر و دیبا کے نرم گدوں پر رات بھر لنڈھائی ہوئی شراب کے کسل پر کروٹیں لے رہے تھے، اور نادار طبقہ اپنی اپنی گندی کوٹھریوں کی سیلی ہوئی ٹھنڈکوں میں پڑا سوچ رہا تھا کہ آج کے کھانے کا انتظام کہاں سے اور کیوں کر کرے، اس لئے بازار خاموش تھا۔
لیکن اس خاموشی، اس پر اسرار سکوت میں ایک عجیب ہنگامہ تھا، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مکہ کسی آنے والے کے انتظار میں ہے اور آنے والا جیسے آسمان کی بلندیوں پر سے اترے گا، جیسے آسمان کی کھڑکیاں کھل گئی ہیں، اور مکہ دم بخود اس آنے والے کے انتظار میں چشم براہ ہے، ابھی ان اثیری بلندیوں میں کھلی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی ظاہر ہوگا اور اپنے راستے میں پھیلی ہوئی دھوپ کی سنہری بانات پر با وقار قدموں سے چلتا ہوا مکہ میں اتر آئے گا، اور جب اس کے قدم مکے کے ریت کو نوازیں گے تو سارا مکہ خوش آمدید کے نعروں سے گونج اٹھے گا، اور یہ عجیب خاموشی، یہ پر اسرار سکوت، یہ امید بھرا سناٹا یک دم فلک گیر شور استقبال میں ڈوب جائے گا۔
اور اس پر اسرار سناٹے سے ہٹ کر ، حرم مقدس کی پاک سر زمین کے اندر جہان تین سو پینسٹھ خدا ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے، ابھرتے ہوئے سورج کی کنواری شعاعوں میں نہاتے ہوئے ابراہیم کے گھر کے بالکل قریب پر جوش غصیلی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، فضا ان کی آوازوں سے گونج رہی تھی۔
"کعبے کے خدا۔۔۔۔۔۔ تونے میرے عبداللہ کو مجھ سے چھین لیا، میرے عبداللہ کو ۔۔۔۔۔۔ میں تجھ سے اس کی نشانی مانگ رہا ہوں، میرے عبداللہ کی نشانی مجھے دو"۔
سردار قریش اسی طرح اپنے حق کا مطالبہ کرتے کعبے کے ارد گرد طواف کرتے رہے، ان کی آنکھیں شب بیداری کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھیں، جسم کے رونگٹے صبح کی غیر مانوس سردی کی وجہ سے کھڑے ہو گئے تھے۔