جب حضور آئے (۴) عروس کائنات کی مانگ میں موتی بھر گئے۔۔۔۔ مولانا ابو الکلام آزاد

Mohammed Mateen Khalid

Published in - Seeratun Nabi

08:19PM Tue 26 May, 2020

"رات لیلۃ القدر بنی ہوئی نکلی اور خیرمن الف شہر کی بانسری بجاتی ہوئی ساری کائنات میں پھیل گئی۔ موکلان شب قدر نے من کل امر سلام کی سیجیں بچھا دیں۔ ملائیکان ملاء اعلیٰ نے تنزیل الملائکۃ والروح فیہا کی شہنائیاں شام سے بجانی شروع کر دیں۔ حوریں باذن ربہم کے پروانے ہاتھوں میں لے کر فردوس سے چل کھڑی ہوئیں اور ھی حتی مطلع الفجر کی میعادی اجازت نے فرشتگان مغرب کو دنیا میں آنے کی رخصت دے دی۔ تارے نکلے اور طلوع ماہتاب سے پہلے عروس کائنات کی مانگ میں موتی بھر کر غائب ہو گئے۔ چاند نکلا اور اس نے فضائے عالم کو اپنی نورانی چادر سیمیں سے ڈھک دیا۔ آسمان کی گھومنے والی قوسین آپ اپنے مرکز پر ٹھہر گئی۔ بروج نے سیاروں کے پاؤں میں کیلیں ٹھونک دیں۔ ہوا جنبش سے، افلاک گردش سے، زمین چکر سے، دریا بہنے سے، رک گئے اور کارخانہ قدرت کسی مقدس مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لئے رات کے بعد اور صبح سے پہلے بالکل خاموش ہو گیا۔ انتظام و اہتمام کی تکان نے چاند کی آنکھوں کو جھپکا دیا۔ نسیم سحری کی آنکھیں جوش خواب سے بند ہونے لگیں۔ پھولوں میں نکہت، کلیوں میں خوشبو، کونپلوں میں بو محو خواب ہو گئی۔ درختوں کے مشام خوشبوئے قدس سے ایسے مہکے کہ پتا پتا مخمور ہو کر سر بسجود ہو گیا۔ ناقوس نے مندروں میں بتوں کے سامنے، سر جھکانے کے بہانے آنکھ جھپکائی۔برہمن سجدے کے حیلے سر بہ زمین ہو گیا۔ غرضیکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور قطرہ قطرہ ایک منٹ کے لئے غیر متحرک ہو گیا۔ اس کے بعد وہ منٹ آ گیا جس کے لئے یہ سب انتظامات تھے۔ فرشتوں کے پر خوشیوں سے بھرے آسمانوں سے زمین پر اترنے لگے اور دنیا کے جمود میں ایک بیدار انقلاب پوشیدہ طور پر کام کرتا ہوا نظر آنے لگا۔ ملہم غیب نے منادی کی کہ افضل البشر، خاتم الانبیاء سرا پردہ ٔ لاہوت سے عالم ناسوت میں تشریف لانے والے ہیں۔ رات نے کہا: میں نے شام سے ایک سا انتظار کیا ہے، اس گوہر رسالت کو میرے دامن میں ڈال دیا جائے۔ دن نے کہا: میرا رتبہ رات سے بلند ہے، مجھے کیوں محروم رکھا جائے۔ دونوں کی حسرتیں قابل نوازش نظر آئیں۔ کچھ حصہ دن کا لیا، کچھ رات کا۔ نور کے تڑکے نور علی نور کی نورانی آوازوں کے ساتھ دست قدرت نے دامن کائنات پر وہ لعل با بہار رکھ دیا، جس کے ایک سرسری جلوے سے دنیا بھر کے ظلمت کدے منور اور روشن ہو گئے۔ سر زمین حجاز جلوہ حقیقت سے لبریز ہو گئی۔ دنیا جو سرور و جمود و کیفیت میں تھی، ایک دم متحرک نظر آنے لگی۔ پھولوں نے پہلو کھول دیئے، کلیوں نے آنکھیں وا کیں، دریا بہنے لگے، ہوائیں چلنے لگیں، آتش کدوں کی آگ سرد ہو گئی، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، لات و منات، ہبل و عزات کی توقیر پامال ہو گئی۔ قیصر و کسریٰ کے فلک بوس بروج پاش پاش ہو گئے، درختوں نے سجدہ ٔ شکر سے سر اٹھایا، رات کچھ روٹھی ہوئی سی، چاند کچھ شرمایا ہوا سا، تارے نادم و محجوب سے رخصت ہوئے اور آفتاب شان و فخر کے ساتھ مسرت و مباہات کے اجالے لئے ہوئے کرنوں کے ہر ہاتھ میں، قرس نور تھال میں، ہزاروں ناز و ادا کے ساتھ افق مشرق سے نمایاں ہوا، حضرت عبداللہ کے گھر میں، آمنہ کی گود میں، عبدالمطلب کے گھرانے، ہاشم کے خاندان میں اور مکہ کے ایک مقدس مکان میں خلاصۂ کائنات، فخر موجودات، محبوب خدا، امام الانبیاء، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین یعنی حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما کے عز و جلال ہوئے۔ کتنا مبارک تھا جس میں حضور نے نزول و اجلال فرمایا: فتبارک اللہ احسن الخالقین!