جب حضور آئے (۳ )قیصر و کسریٰ کے خود ساختہ نظاموں میں زلزلہ۔۔۔۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح

Mohammed Mateen Khalid

Published in - Seeratun Nabi

08:16PM Tue 26 May, 2020

" انسانیت سرد لاشہ تھی جس میں کہیں روح کی تپش، دل کا سوز اور عشق کی حرارت باقی نہیں رہی تھی۔ انسانیت کی سطح پر خود رو جنگل اگ آیا تھا، ہر طرف جھاڑیاں تھیں، جن میں خونخوار درندے اور زہریلے کیڑے تھے یا دلدل تھیں، جس میں جسم سے لپٹ جانے والی اور خون چوسنے والی جونکیں تھیں۔ اس جنگل میں ہر طرح کا خوفناک جانور، شکاری پرندہ اور دلدلوں میں ہر قسم کی جونک پائی جاتی تھیں لیکن آدم زادوں کی اس بستی میں کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا۔

دفعتاً انسانیت کے اس سرد جسم میں خون کی ایک رو دوڑی، نبض میں حرکت اور جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ جن پرندوں نے اس کو مردہ سمجھ کر اس کے بے حس جسم کی ساکن سطح پر بسیرا کر رکھا تھا، ان کو اپنے گھر ہلتے ہوئے اور اپنے جسم لرزتے ہوئے محسوس ہوئے۔ قدیم سیرت نگار اس کو اپنی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ کسریٰ شاہ ایران کے محل کے کنگرے گرے اور آتش پارس ایک دم بجھ گئی۔ زمانہ حال کا مورخ اس کو اس طرح بیان کرے گا کہ انسانیت کی اندرونی حرکت سے اس کی بیرونی سطح میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس کی ساکن و بے حرکت سطح پر جتنے کمزور اور بودے قلعہ بنے ہوئے تھے، ان میں زلزلہ آیا۔ مکڑی کا ہر جالا ٹوٹتا اور تنکوں کا ہر گھونسلا بکھرتا ہوا نظر آیا۔ زمین کی اندرونی حرکت سے اگر سنگین عمارتیں اور آہنی برج خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ سکتے ہیں تو پیغمبر کی آمد آمد سے کسریٰ و قیصر کے خود ساختہ نظاموں میں تزلزل کیوں نہ ہوگا"۔