جب حضور آئے (۲) تمام انسانوں کے لئے رحمت۔۔۔۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح

Mohammed Mateen Khalid

Published in - Seeratun Nabi

08:11PM Tue 26 May, 2020

" ١٢/ ربیع الاول اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جنم دن ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت بن کر آئے، اور وہ اصول اپنی ساتھ لائے جن کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم و ملک اور تمام نوع انسانی کے لئے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگر چہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کے سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں مسٹر برنارڈ شا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بغیر جانے بوجھے۔ مگر جو کچھ اس نے کہا وہ بالکل سچ تھا کہ " محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس وقت دنیا کے ڈکٹیٹر ہوتے تو دنیا میں امن قائم ہو جاتا" میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ اصول تو بے کم کاست موجود ہیں، ان کے اصولوں کو بھی اگر ہم راست بازی کے ساتھ ڈکٹیٹر مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل آدم کا گھر جہنم بنا ہوا ہے۔

اب سے چودہ سو برس پہلے جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت خود ان کا اپنا وطن اخلاقی پستی، بدنظمی اور بد امنی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن نے اس وقت کی حالت پر ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ " تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڈھے کے کنارے کھڑے تھے جس سے خدا نے تمہیں بچایا"۔ اس سے کچھ بہتر حالت دنیا کے دوسرے ملکوں کی نہ تھی۔ ایران اور مشرقی رومی سلطنت اس وقت انسانی تہذیب کے دو سب سے بڑے گہوارے تھے اور ان دونوں کو ایک طرف آپس کی پیہم لڑائی اور دوسری طرف خود اپنے گھر کے معاشرتی امتیازات، معاشی ناہمواری اور مذہبی جھگڑوں نے تباہ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ٢٣ برس کے اندر انہوں نے نہ صرف عرب کو بدل ڈالا، بلکہ ان کی رہنمائی میں عرب کی جو تحریک اٹھی تھی اس نے ایک چوتھائی صدی کے اندر ہندوستان کی سرحدوں سے شمالی افریقہ تک، دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اخلاق، تمدن، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی میں درست کرکے رکھ دیا۔

آج ہم نئے نظام کی آوازیں ہر طرف سے سن رہے ہیں، لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخر کار فتنہ بنا کر چھوڑا، وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہو تو وہ نیا نظام ہوا کب۔ وہ تو وہی پرانا نظام ہوگا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہو جانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں۔ انسانی اقتدار اعلیٰ، خدا سے بے نیازی و بے خوفی، قومی و نسلی امتیازات، ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی و معاشی خودغرضیاں اور نا خدا ترس افراد کا دنیا میں بر سر اقتدار ہونا، یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو نوع انسانی کو تباہی کرتی رہی ہیں اور آئندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انہیں خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اصلاح اگر ہو سکتی ہے تو ان ہی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے سچے بہی خواہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اب سے صدیوں پہلے ہماری محض رہنمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملا اصلاح کرکے دکھا دی تھی۔