۔۔۔۱۲ربیع الاول کو صرف ظہور قدسی نہیں ہوا بلکہ عالم نو طلوع ہوا۔ اس تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہان خاکی میں قدم رکھا اور تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس روز ایک ماں نے سعادت مند بیٹے ہی کو جنم نہیں دیا؛ بلکہ مادر گیتی نے ایک انقلاب کو جنم دیا۔ اس دن محض آمنہ کا گھر منور نہیں ہوا؛ بلکہ تیرہ و تار خاکدان ہستی روشن ہوا، جس کے قدم رنجا فرمانے سے زندگی پر شباب آگیا اور صدیوں سے دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر مل گئی۔ اس کی تاب رو سے شش جہت کائنات کو روشنی ملی اور اس کے حلقہ نو میں حیات منتشر کو آسودگی نصیب ہوئی۔ آپ کی تشریف آوری سے دنیا کو شرف انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا، ورنہ اس سے پہلے حضرت انسان کو دوسری ہر چیز کی عظمت و سطوت کا احساس تھا؛ لیکن وہ اپنی حرمت اور اپنے مقام سے بے خبر تھا۔ اسی بے خبری کے نتیجے میں وہ سورج، چاند اور ستاروں کی چمک سے مرعوب ہو کر انہیں معبود بنائے ہوئے تھا، پہاڑوں کی بلندی اور غاروں کی گہرائی سے متاثر ہو کر انہیں خدا کا درجہ دیئے ہوئے تھا، راجوں، مہاراجوں، نوابوں، سرداروں، شاہوں اور رہبانوں کی جلالت و حشمت سے مسحور ہو کر انہیں خدا کا اوتار مانے ہوئے تھا، انسان اتنا دبا ہوا تھا کہ ہر ابھرتی چیز کے سامنے جھک جاتا تھا، اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ہر ڈراونی شیئ کی بندگی پر آمادہ ہو جاتا تھا، اتنا سہما ہوا تھا کہ ہر ایک کا زور اس پر چلتا تھا، اتنا سمٹا ہوا تھا کہ اسے اپنی وسعت کا ادراک ہی نہ ہوسکا، اتنا مبہوت تھا کہ جن بھوت اس کے سجدوں کے حقدار قرار پائے، اتنا گھٹا ہوا تھا کہ اس بیکراں کائنات میں سانس لیتے ڈرتا تھا اور اتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لیے تقدیر سمجھتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آکر اسے بتایا کہ تیری حرمت کعبہ سے افضل ہے، تیری ذات راز الٰہی ہے، تیری تخلیق صرف ”کن“ سے نہیں خاص دست قدرت سے ہوئی ہے، تو امانت الٰہی کا حامل ہے، تجھے ارادہ و اختیار کا وصف عطا کیا گیا ہے، اپنے ذرہ ہستی میں صحرا ہے اور قطرہئ وجود میں قلزم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم اور خود آگہی کے اس درس کا یہ نتیجہ نکلا کہ جو انسان پہلے مٹی کے مادھو (بت) کے سامنے سمٹا ہوا ہوتا تھا، آج اس کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بنے ہوئے ہیں، جو انسان مورتیوں، بھوت،پریتوں اور واہموں کے خوف سے نیم جان تھا، اب صحرا ور دریا اس کی ٹھوکر سے دو نیم ہوئے جا رہے ہیں، جو انسان دیوی دیوتا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا تھا، آج وہ ”یزداں بکمند آور“ کا نعرہ مستان لگاتا نظرآتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ کائنات کا اعتبار ہو کہ انسانیت کا وقار یہ سب کچھ صاحب لولاک ﷺ کے دم قدم سے ہے۔ ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے آپ کی ولادت باسعادت اور بعث با کرامت سے پہلے، یہی معمورہ ہستی جہان خراب کا منظر پیش کر رہا تھا، یونان اپنی عظیم الشان تہذیب کے کھنڈر پر یکہ و تنہا کھڑا آنسو بہا رہا تھا اور اہل یونان اس کھنڈر تلے دبے ہوئے کراہ رہے تھے، یونانی حلماء نے اپنے فلسفہ کے زور پر ہر مسئلہ حل کرنا چاہا، اس دور کا یونان فلسفیوں سے بھرا پڑا تھا، یہ ارشمیدس، یہ اقلیدس، یہ بطلیموں، یہ سقراط اور بقراط، یہ ارسطو اور افلاطون جس طرف نگاہ اٹھتی، فلسفیوں کی قطار بندھی نظر آتی؛ مگر بات پھروہی ہے جو حکیم الامت اقبال ؒ نے کی ہے۔ اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ہوا آج تک فیصلہ نفع و ضرر کرنہ سکا یونان کی چمکتی دمکتی اکیڈمیوں نے اندھیرا اور گہرا کر دیا، یہ دنیا منور ہوئی تو غار حرا کے گوشے سے طلوع ہونے والے آفتاب نبوت سے ہوئی۔ رومتہ الکبری کے قیصر اور فارس کے کسریٰ بھی انسانیت کی پیٹھ پر بوجھ ہی رہے؛ اگر کسی نے آ کر انسان کو سبکدوش کیا تو آغوش امنہ ؓ کے پروردہ نے کیا، یہ فغفور وخاقان انسانیت کے لیے نادان ثابت ہوئے، دنیا کو امان ملی تو پیغمبر ﷺ کے گوشہ وامان میں نصیب ہوئی، شاہی عبا و قبا انسانی آبادی کے لیے وبا نکلی، وہ کالی کملی تھی جو گرفتاران بلا کے لیے نسخہ شفا بنی، بادشاہوں کی وسیع سلطنتیں اپنے باشندوں کے لیے سخت اور تنگ شکنجے تھے جب کہ یتیم مکہ کی چھوٹی سی کوٹھری دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے اپنے اندر افلاکی وسعتیں رکھتی تھی، حبش سے آنے والے روم سے آنے والے، فارس سے آنے والے اور نجد سے آنے والے آتے گئے اور سماتے گئے، ارقم کے چھوٹے سے گھر میں بحر و بر سمٹ گئے۔ آج ہر آن پھیلتی ہوئی کائنات میں پھر سے تنگی کا احساس ہونے لگا ہے، سائنس کی بے کرانی میں دم گھٹنے لگا ہے، سیٹلائٹ، مریخ و مشتری کو گرفتار کرنے کے مشن پر ہیں مگر بد قسمت انسان ہوائے نفس کا اسیر ہو رہا ہے، نیو ورلڈ آرڈر کے پردے میں قبائے انسانی چاک ہوتی نظر آ رہی ہے، ”انٹرنیشنل ویلیوز“ کے چکر میں انسان اپنی رہی سہی قدر کھو رہا ہے، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ ٹھوکریں کھاتے پھرو گے، ان کے در پر پڑ رہو قافلہ تو اے رضا اول گیا، آخر گیا واقعہ یہ ہے کہ آج کا ”بوعلی“ غبار ناقہ میں گم ہو کر رہ گیا ہے، کوئی ”مجنوں“ ڈھونڈا جائے جو ”محمل لیلیٰ“ کو پا سکے، یہ مجنوں یورپ کی دانش گاہوں میں نہیں ملیں گے، غبار رہ حجاز کو آنکھوں کا سرمہ بنا کر دیکھا جائے تو شاید کہیں مجنوں نظر آ جائیں، وہ کون سا نظام ہے جو دنیا نے آزما کر نہیں دیکھا اور وہ کون سا طرز حیات ہے جو اہل ونیا نے اپنا کر نہیں دیکھا؛ مگر حاصل کیا ہے؟ انسانیت کی بے قدری، ایک دوسرے سے بیگانگی، تری، خشکی اور محض برہمی، انسانی دنیا اگر فی الواقع خلوص دل سے چاہتی ہے کہ وہ مزید ٹھوکروں سے بچ جائے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ وہ اپنا بستراس گلی میں لگا دے جس کوچے کا ہر گدا شکوہ قیصری رکھتا ہے، اس گلی کے پھیرے لگانے والے اپنے سرمیں سکندری کا سودا سمائے رکھتے ہیں، یہ بند اور اندھی گلی نہیں، اس کا ایک سرا دنیا اور دوسرا عقبیٰ ہے، دربار شاہی میں وہ عزت نہیں ملتی، جس قدر اس گلی میں عزت نفس کا احساس نصیب ہوتا ہے کیونکہ حضور انسانیت کی آبرو بڑھانے تشریف لائے تھے، جو آبرو حضرت انسان کو ملی، وہ بھی ان کے کرم سے ملی اور جو آبرو آج بھی ملے گی ان کے دم سے ملے گی، غالب نے تو کہا تھا: ع۔ ”جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“ یہ تو غالب کے عشرہ طراز معشوق کا شیوہ تھا مگر محبوب خدا کا عالم تو یہ ہے کہ ع۔ ”جس کو ہو جان و دل عزیز۔ اس گلی سے جائے کیوں“ ”میں“ اور ”سے“ کے فرق کو اہل نظر خوب جانتے ہیں“۔ https://telegram.me/ilmokitab/