Jalwah Hai Pa Ba Rikab(28) Dr. F Abdur Rahim

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:10PM Tue 26 Nov, 2024

  ہائی اسکول کے زمانے میں مجھے عربی زبان کے بنیادی قواعد کا علم ہو چکا تھا۔ عربی سے دلچسپی کی وجہ سے میں علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔ ایک امام صاحب تھے جن سے میں بہت زیادہ ملا کرتا تھا، وہ اردو میں اصلاحی رسالے لکھ کر شائع کرتے تھے اور ان کو عربی سے بھی خاص لگاؤ تھا۔

 ان سے بار بار ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے پاس عربی کی مشہور ڈکشنری ))المنجد (( ہوتی تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک دن میں نے ان سے کہا: لفظ ))هر قل(( غیر منصرف ہے نا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر میں نے کہا: کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عجمی علم ہے ؟ وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔

 ایک دن انہوں نے اپنا تازہ رسالہ عنایت فرمایا۔ میں نے اس کا پیش لفظ پڑھا۔ اس کے آخر میں لکھی ہوئی ایک عبارت نے مجھے چونکا دیا۔ صفحے کے آخر میں ان کا نام لکھا ہوا تھا، اور نام سے پہلے یہ عبارت تھی ((عبد الفقير)) ۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا: مولانا یہاں ایک چوک ہو گئی ہے۔ ((عبد الفقیر)) سے پہلے جو «ال» ہونا چاہیے وہ لکھا نہیں گیا ہے۔ صحیح عبارت تو((العبد الفقير)) ہے نا؟ آپ " فقیر بندہ " کہنا چاہ رہے ہیں۔ «ال» کے بغیر اس کا مطلب ہو جائے گا "فقیر کا بندہ " جو بالکل غلط ہے۔ میری اس بات سے امام صاحب خفا ہو گئے، بولے: یہاں «ال» کی کوئی ضروت نہیں میں نے عرض کیا: مولانا یہاں «عبد» موصوف ہے اور موصوف اور صفت کے در میان مطابقت چاہیے جو یہاں مفقود ہے، اس حذف کی وجہ سے «عبد» موصوف نہیں رہا، بلکہ مضاف بن گیا اور عبارت کا مطلب ہوا " فقیر کا بندہ" جو غلط ہے۔ اب امام صاحب کی خفگی بڑھ گئی، انہوں نے کہا کہ میں فلاں مشہور اسلامی درسگاہ کا فارغ التحصیل ہوں، اور میری تحریر میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔ میں ان کی محفل سے مایوس ہو کر نکل گیا، شہر کے بعض علماء سے ملاقات کی، اور اس موضوع پر ان سے مشورہ کیا۔ ان سب نے کہا: امام صاحب عالم ہیں، جس کو تم غلط سمجھ رہے ہو، ان کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہو گی۔ بر صغیر میں موصوف پر سے «ال» گرانے کی غلطی بہت عام ہے۔ جیسے صراط المستقيم باقيات الصالحات، إخوان المسلمين وغيره۔

 ایک بار میرے پاس بر صغیر کے ایک صاحب آئے، ان کو ایک کتاب خریدنے میں مدد چاہیے تھی۔ انہوں نے چٹھی دکھائی جس پر کتاب کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ نام اس طرح لکھا ہوا تھا: ((بحر الرائق)) میں نے کہا: یہ نام غلط ہے، صحیح نام اس طرح ہے: «البحر الرائق»۔ انہوں نے کہا: یہ چٹھی مدرسے کے بڑے استاذ نے لکھی ہے۔ میں نے کہا: سوال لکھنے والے کا نہیں، یہ نام جس نے بھی لکھا ہے غلط لکھا ہے۔

 یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ زبان سیکھنے کے لیے دو چیزیں درکار ہیں: پہلی چیز یہ کہ زبان کا جو مسئلہ آپ سمجھنا چاہتے ہیں، اس کا قاعدہ سمجھ جائیں۔ لیکن یقین جانیے کہ قاعدہ کو سمجھنا سیکھنے کے عمل کا صرف آدھا حصہ ہے۔ دوسرے حصے کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جس قاعدہ کو ابھی آپ نے سمجھا ہے، اس کی مشق کریں۔ ماہرین تعلیم نے ہر قاعدہ کے لیے مختلف مشقیں تیار کی ہیں۔ مشقوں پر محنت کرنا اور وقت لگانا ضروری ہے۔ قاعدہ سمجھنے میں اگر آپ کو پانچ منٹ لگے ہیں تو قاعدہ کی مشقوں پر آپ کو کم از کم میں منٹ لگانا ضروری ہے۔ میں نے اپنی ایک کتاب میں اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے قليل من التقعيد، وكثير من التمرين يعنی قاعدہ کو مختصر طور پر سمجھانے پر اکتفا کرنا، اور مشقوں پر کافی وقت لگانا۔ بر صغیر کے مدارس میں طلبہ نحو کی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کے باوجود اگر وہ قواعد میں سنگین غلطی کرتے ہیں تو اس کی وجہ مشق کا فقدان ہے۔