Jahilat Arab Aur Jahilyat Farang

Abdul Mateen Muniri

Published in - Sachchi Batain

01:10PM Sun 13 Jul, 2025

 

’’ہٹلر کو بڑا ناز اپنے طیاروں اور اپنی برق رفتاری پر ہے نہ ؟ سمجھتاہے کہ آندھی کی طرح آئے گا، اور طوفان کی طرح ہمیں اُکھاڑتا پکھاڑتا، ہمارا قلع قمع کرتا، آنًا فانًا گزر جائے گا۔ اس بھول میں نہ آئے ! ہم جم کر اور ڈٹ کر تین تین برس تک مقابلہ کریں گے، اور ہرطرف سے ناکہ بندی کرکے اُسے بھوکوں مارکر اور اُس کا زور توڑ کر دَم لیں گے!‘‘……اتحادیوں کے سرداروں نے کہا، اور یہ سوچ سمجھ کر کہا، کہ جنگ میں استقامت واستقلال ہی تو فتح وظفر کی کُنجی ہے۔

اتنی ہی ہمت ! بس کُل تین ہی برس! میں پانچ برس تک لڑوں گا۔ لڑوں گا اور لڑے جاؤں گا، جب تک اتحادیوں کو نیچا نہ دکھادوں، اور ان کا گھمنڈ خاک میں ملاکر نہ رکھ دوں‘‘!……ہٹلر نے اپنے کَس بَل پر ناز کرکے تعلی اور فخریہ کے اونچے سُروں میں جواب دیا۔

عرب جاہلی کے شاعر نے کیامہذب فرنگیوں کے اِس رجزخوانی اور مبارز طلبی سے زیادہ کچھ کہہ لیاتھا، جب یہ کہاتھا ؎

ألا لا یجھل أحدٌ علینا

 

فنجھل فوق جھل الجاھلین

خبردار! کوئی ہم سے اُلجھن نہ مول لے، نہیں تو ہم بتادیں گے کہ ہم جاہلوں سے بڑھ کر جاہل ہیں!

یہ پنج سالہ جنگ کا دَم خم، ’’تہذیب جدید‘‘ کی تاریخ میں کوئی نیا باب ہے؟ یہ پانچ پانچ سال تک گتھے رہنے، مارنے اورمرنے، اور خون کی ہولی کھیلتے رہنے کا فخریہ اعلان، جاہلیت افرنگ کے دَور میں کوئی انوکھا، نرالا، پہلا واقعہ ہے؟ آخر یہ پچھلی جنگ عمومی (1914ء تا 1919ء )۔ کیا پانچ سال سے قبل ختم ہوئی تھی؟ اور یہ پانچ سال کی مدت تو پھر کم ہے، جنگ ہفت سالہ(1756ء تا 1757ء ) اورآپ وہم وگمان سے بھی بڑھ کر جنگ صد سالہ (1347ء تا 1453ء) آخر کس قوم کی تاریخ حربی کے جلی عنوانات ہیں؟……عرب جاہلیت کی فردِ جرم میں سب سے زیادہ سیاہ وتاریک یہی جُرم ہے نہ، کہ

نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے

 

سلجھتے نہ تھے جب بگڑ بیٹھتے تھے

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے

 

درندے ہوں جنگل میں چالاک جیسے

بلند ایک ہوتا اگر واں شرارا

 

تو اُس سے بھڑک اُٹھتا تھا ملُک سارا

اُ س ماضی اور اِس حال میں کچھ فرق ہے؟ وہ ’’شنید‘‘ آج کی ’’دید‘‘ سے کچھ بڑھ چڑھ کر تھی؟ خون کی پیاس میں کیا عرب کا جاہلی، فرنگستان کے مہذب سے بازی لے گیاتھا؟……قتل وہلاکت کے جو جو نازک ولطیف طریقے، جو جو بدیع صنعتیں ، مہذب فرنگی کو معلوم ہیں، وہاں تک کب عرب جاہلی کے ذہن کی رسائی ہوپائی تھی؟

بھولا بھال مشرقی ، یہ سمجھے ہوئے ہے کہ عرب، بے بات کی بات پر لڑاکرتے تھے

اب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا

 

کہیں پہلے گھوڑا بَڑھانے پہ جھگڑا

لیکن آج کیا حال ہے؟ جہاز، فلاں آبنائے سے اس قوم کے گزر سکیں گے یا اُس قوم کے۔ آج بھی لڑائی ایسی ہی باتوں پر چھڑجاتی ہے یا نہیں؟ اور اگر لکڑی میں لپیٹے ہوئے فلاں رنگ کے اور فلاں نشان پڑے ہوئے کپڑے کی طرف کسی نے آنکھ بدل کردیکھ لیا، تو لیجئے ، ’’قومی جھنڈے‘‘ کی توہین ہوگئی، اور الٹی میٹم پر الٹی میٹم ، اڑنے لگے!……کہتے ہیں کہ عرب کی سرزمین مختلف قبیلوں میں بٹی ہوئی تھی، یہ ٹکڑی اُس کی حلیف، اور یہ ٹکڑی اس کی حریف۔ گویا آج کے فرنگستان کا ہوبہ ہو نقشہ! ساری سرزمین ایک مستقل مسلّح کیمپ بنی ہوئی۔ یہ اُس کے جوڑ پر اس کا شریک، اور وہ اِس کی ضد میں اُس کے ساتھ گٹھاہوا……تاریخ اپنے کو دوہراتی ہویا نہ ہو، لیکن کیا خوب جاہلیت عرب اپنے کو جاہلیت فرنگ میں دوہرارہی ہے، اور جاہلیت اولیٰ کن کن لطافتوں اور نزاکتوں کے ساتھ اپنا جلوہ جاہلیت اُخریٰ کے اندر دکھارہی ہے!

(یہ تحریرمولانا دریابادی کے جریدہ سچ، صدق اور صدق جدید کی پون صدی قدیم فائلوں سے پیش کی جارہی ہیں)