jadeed Jahiliyat

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

08:33PM Sun 27 Jul, 2025

 وَما کانَ صَلاتھم عِند البَیتِ الَّا مُکائً وَتصدِیۃً (سورۂ انفال ، آیت 35)

ایک چَوکور مکان کی گِرد اُچھلتے ، کودتے، زمین پر پَیر پٹختے چلے جارہے ہیں۔ سیٹیوں پر سیٹیاں بج رہی ہیں، ہاتھوں سے تال دیتے جاتے ہیں۔ یوں سمجھئے ، کہ ناچ کی جگہ ناچ، باجے کی جگہ باجہ! اور ہیں کون کون؟ مرد بھی اور عورتیں بھی، لیڈیز بھی جنٹلمین بھی، باپ بھی بیٹیاں بھی، مائیں بھی لڑکے بھی۔ آج کی اصطلاح میں مجمع پوری طرح ’’مخلوط‘‘ ۔ آزادانہ اختلاط کامکمل مرقع۔ چہرے نقاب سے ڈھکے ہوئے نہیں، جسم لباس سے چھپے ہوئے نہیں، گویا ’’آرٹ‘‘ اور ’’نیچر‘‘ دونوں کی کھُلی ہوئی نمائش گاہ!آنکھ، آنکھ سے لڑرہی ہے، جسم ،جسم سے مَس ہورہاہے۔ ’’خداکے گھر‘‘ اور ’’خدا کی شان‘‘ دونوں کے نظارے کے موقع ایک ہی وقت میں حاصل!……یہ عبادت ہورہی ہے خدا کی! یہ اداہورہاہے زندگی کا سب سے زیادہ سنجیدہ ومقدس فریضہ!

نقشہ آج ساڑھے تیرہ سو، چودہ سو برس پہلے کی عبادت کا ہے۔ جمہوریۂ مُلکی کے سردار شرماتے نہیں فخر کرتے تھے اپنی تمدنی ’’آزادی‘‘۔ شرفاء قوم کو ناز تھا اپنی ان ’’روشن خیالیوں ‘‘ پر۔ دلیل عزت وشرف نہیں۔ یہ ’’مخلوطی‘‘ بے باکیاں، کہ غیبی انقلاب کا زلزلہ آیا، اور اس نے دم بھرمیں تہس نہس کرڈالا ذوقِ عبادت اس تماشگاہ کو، نوچ کراور مَسَل کر رکھ دیا’’تہذیب ‘‘ و ’’شائستگی‘‘ کے اس کاغذی گلدستہ کو، اور زیروزبر کرڈالا ’’عقل‘‘ جاہلی کے اس طلسم زارکو!……انقلاب غیبی کی تاریخ یہاں بیان کرنی مقصودنہیں۔ سوچئے اور دیکھئے صرف اتناکہ رعایت آج تقویم ہجری کے تیرہ سوساٹھ سال بعد آج کس چیز کی ہورہی ہے؟ شوق اور حرص اوررغبت آج پھر کس نظامِ معاشرت کی دلائی جارہی ہے؟ پکار آج ہر اونچی کرسی اور باعزت مسند سے کس منزل مقصود کی طرف ہورہی ہے؟ پروپیگنڈہ آج اسکول سے اور کالج سے، تھیٹر سے اورسنیما سے، آرٹ سے اور سائنس سے، اخبار سے اور ریویو سے، تصویروں سے اور تقریروں سے، لکچروں سے اور تحریروں سے، اور خدامعلوم اور کن کن واسطوں سے، کس طرز زندگی کے حق میں ہورہاہے؟

’’مخلوط‘‘ تعلیم جس کا آج اس زور وشور سے غلغلہ بلند ہے، اسی ’’مخلوط‘‘ عبادت اور ’’مخلوط‘‘ تمدن کا پیش خیمہ ہے یا نہیں؟ اور پیش خیمہ کیامعنی، یہ ’’مخلوطیت‘‘ بجائے خودآج زندگی کے کسی شعبہ اور معاشرت کے کس میدان اور کس گوشہ میں نمایاں نہیں؟ ناچ، گانے، باجے کی فسوں کاریاں آج پھر اسی طرح زوروں پر ہیں یا نہیں؟ بے لباسی اور عریانی کی تحریک آج اُسی طرح زور پکڑ رہی ہے یا نہیں؟ بے حیائی اور فحش منظری آج پھر داخل فیشن ہوچکی ہے یا نہیں؟ غرض تہذیب جاہلی کے ایک ایک عنصر کو تحلیل کرکے دیکھ لیجئے۔ اور ’’تعلیم‘‘ ’’ترقی‘‘ ، ’’ترقیِ تعلیم‘‘ ، ’’حریت نسواں‘‘ ’’مساوات حقوق‘‘ کے منتروں سے ڈرے اور جھجکے اور سہمے بغیر، خوب غوروفکر کرکے سمجھ لیجئے، کہ اس سارے سبزباغ کے عقب میں حقیقت کہیں اُسی فرسودہ جاہلیت کی تو نہیں، جس کی حکومت انقلاب الہی کے دَور سے قبل دنیا پر قائم تھی؟ اور ’’تجدد‘‘ کہیں عین ’’رجعت‘‘ کے اور ’’روشن خیالی‘‘ کہیں’’عین تاریک خیالی‘‘ اور ’’اوہام پرستی ‘‘ کے مترادف تو نہیں؟