Ittifaq Alfaz wa Maani By Dr. F Abdur Raheem

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:31PM Sat 3 Feb, 2024

جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 8) اتفاق الفاظ و اختلاف معانی ۔۔۔ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم

 

کوئی چالیس پینتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ حج کے ایام تھے اور میں منی میں تھا۔ آج کل حاجیوں کے لیے جو سہولتیں میسر ہیں اس زمانے میں ان کا خواب و خیال میں ہی تصور کیا جاسکتا تھا۔ ان دنوں منی میں پانی کی بہت قلت ہوتی تھی اور یمنی لوگ ٹینوں میں پانی لا کر بیچتے تھے۔ میں اپنے خیمے میں بیٹھا ہوا تھا۔ خیمے میں اردو اور تمل بولنے والے حاجی تھے، ایک یمنی سقا پانی بیچتے ہوئے وہاں پہنچا، اس نے آکے پوچھا: تبعون مویا؟ یعنی کیا پانی چاہیے ؟ وہاں بیٹھی مستوارت نے کہالایعنی پانی لے آؤ۔ مستورات نے اردو کا لفظ بولا تھا۔ اس نے عربی والا لفظ"لا" سمجھا یعنینہیں“، اور واپس جانے لگا۔ عور تیں کہنے لگیں۔ اس شخص کی بے وقوفی دیکھو ہم اسے پانی لانے کو کہہ رہے ہیں اور وہ واپس جارہا  ہے۔

زبانوں کے در میان اتفاق الفاظ اور اختلاف معانی کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں کچھ دردناک ایسے واقع ہوئے ہیں وہیں کچھ دلچسپ اور مضحکہ خیز لطیفے بھی رونما ہوئے ہیں۔ ابن بطوطہ نے اپنی کتاب «تحفة النظار» میں اس قسم کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ ترکیا میں پیش آیا۔ ابن بطوطہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ترک میزبان سے گھی کی فرمائش کی۔ اس وقت وہ سب کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میزبان نے کہا کہ میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو اس کا حکم دیا۔ کافی دیر کے بعد دولوگ واپس آئے۔ میزبان نے ابن بطوطہ کو خوشخبری دی کہ آپ کی فرمائش آگئی ہے۔ وہ ان کو لے کر گھر کے باہر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ گھاس سے لدی ہوئی ایک گاڑی کھڑی  ہے۔ ابن بطوطہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میزبان نے کہا یہی سمن ہے جس کی فرمایش آپ نے کی تھی۔ اس لطیفے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جانا چاہیے کہ ابن بطوطہ نے «سمن» کی فرمایش کی تھی جو عربی میں بمعنی گھیہے۔ میزبان نے اسے ترکی کا لفظ saman سمجھا جو بمعنی گھاسہے۔