Insani Jazbat . By Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:59AM Wed 12 Jun, 2024

 

آ ج سے ۲۰۔۲۲سال قبل جب میری علمی اور قلمی زندگی کی ابتداء تھی، د ل طرح طرح کے پُرغرور جذبات سے لبریز تھا، اور اپنے متعلق ایک عجیب حُسن ظن قائم تھا۔ جی چاہتاتھا کہ اپنی کوئی سی بھی تحریر ضائع نہ ہو۔ کٹے پٹے مسودات تک جی میں آتاتھا، کہ محفوظ ہی رہ جائیں، تو اچھاہے۔ معمولی اور خانگی خطوط تک کی اہمیت دل میں رچی ہوئی تھی۔ اسپنسرؔ کی ’’لائف‘‘ لکھی گئی، ملؔ کے خطوط (Letters) کا مجموعہ شائع ہوا۔ اپنی شخصیت بھی اپنی نظر میں ان لوگوں سے کچھ کم نہ تھی۔ ہم بھی بڑے آدمی ہونے میں کیا ان سے کچھ کم ہیں؟ ایک دن ہماری بھی سوانح عمری ایسی ہی مفصل لکھی جائے گی، ہمارے بھی خطوط شائع ہوں گے، ہماری بھی ایک ایک سطر کی قدر ہوگی، عزت ہوگی، قیمت ملے گی، پُرسش ہوگی، پرستش ہوگی! لوگ آنکھوں سے لگائیں گے، سند پکڑیں گے، حوالہ میں پیش کریں گے!……یہ احمقانہ خیالات دوچار دن نہیں، چند ہفتے نہیں، سالہا سال قائم رہے……پانی کے بُلبلے میں ، دَم کے دَم ،خودی کی ہوابھری، تو سوچنے لگا کہ میں بھی کچھ ہوں، میری بھی ایک مستقل زندگی ہے، میں بھی دریا کی طرح ایک مضبوط وقوی ہستی کا مالک ہوں! برسات کے پتنگے کو یہ سودا سوار ہوا، کہ عمر نوحؑ، حیات خضرؑ، مُلک سلیمانؑ لے کر آیاہوں!

رفتہ رفتہ آنکھین کھُلیں، پردے ہٹے، ہوش آیا۔ اپنی کج روی اور کج رانی خود اپنے اوپر روشن ہوکر رہی۔ اپنے بے بساطی اور نااہلی کے جلوے خود اپنی آنکھوں نے دیکھے۔ بے علمی کا علم، اور جہل کا احساس ہوا۔ جن کارناموں پر فخر تھا، اُن حرکتوں پر شرم آئی۔ کل تک جو ہُنر تھے، وہ آج عیب نظرآئے۔ اور رات کی تاریکیوں میں جن اعمال کے چمکانے کی تمناتھی، دن کی روشنی میں اُنھیں کے چھپانے اور ڈھانپنے کی کوشش شروع ہوئی! اللہ اللہ! کسی کی شان کریمی اور شیوۂ ربوبیت کے صدقہ جائیے،کہ اُن عیبوں کی کس کس طرح پردہ پوشی کردی گئی! سیکڑوں ہزاروں غلطیوں ، غلط کاریوں، کو خلقت کی نظر سے مخفی کردیاگیا، حماقت کی دستاویزوں کو سرے سے گم کردیاگا، نافہمی اور نااہلی کے اشتہارات کے نقوش لوگوں کے حافظہ سے سنادئیے گئے! آج وہ ساری تقریریں ، وہ ساری تحریریں لوٹا کر سامنے لائی جائیں، جو کچھ زبان سے، اور جو کچھ قلم سے نکلاہے، سب کو دُہرا کرسامنے لایاجائے، تو قلب کو کس درجہ ندامت، اور روح کو کتنی اذیت ہو، لیکن اس کا سامان از خود اُس نے کردیا، جوہرسامان پر قادر ہے! انسان اپنی والی لاکھ کوشش کرڈالتا، یہ کہیں اُس کے بس کی بات تھی؟ بندہ اس آرزو میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا، جب بھی کہیں اس پر قدرت رکھ سکتاتھا؟ یہ قوت اور یہ قدرت تو صرف اُسی میں تھی، جو مجازًا اور استعارۃً نہیں، لفظًا وحقیقۃً بندہ پرور، اور بندہ نواز، اور ادنیٰ سے ادنیٰ بندوں کا کفیل وکارساز ہے!

جس نے دنیا میں اتنی رسوائیوں سے محفوظ رکھا، ایک ایک تفضیح سے بچائے رکھا، کیا آخرت میں اُس کا فضل وکرم ایسی ہی دستگیری نہ فرمائے گا؟ کیا جس نے ربنا لا تحزنا یومَ القیامۃ کی دعا کی تلقین کی ہے، وہ اس دعا کو قبول نہ فرمائے گا؟ دنیا کی رسوائیاں تھی ہی کیا، درحقیقت فضیحت اور رسوائی تو اسی کو یوم آخرت کی ہے۔ محفوظ وہی ہے، جو اُس روز محفوظ رہا، اور خوش نصیب وہی ہے، جس پراُس روز کرم ہوا۔ جس خطاکار کی لغزشیں اور خطائیں، حماقتیں اور نادانیاں، جہالتیں اور شرارتیں، آج دس بیس، سوپچاس، ہزار دوہزار، کی نظروں سے مخفی کردی گئی ہیں، شان رحمت ومغفرت کا تقاضا تو یہ ہے، کہ کل جب نامہ اعمال ، کروروں اور اربوں، اور ہرگنتی اور شمار سے بڑھ کر ہم جنسوں کے سامے کھُلے، تو اُس وقت بھی اُن کے نقش معدوم ہوں، اور فردجرم کی ہرسیاہی پروانۂ عفو کی تابش میں تبدیلی ہوچکی ہو! وما ذلک علی اللہ بعزیز۔