Insani ijadat Ki Bay Basi
طیّارہ، یا عوامی زبان میں، ہوائی جہاز بھی اب کوئی نئی یا نامانوس چیز رہے ہیں؟ جیسے ریل، جیسے موٹر، جیسے لاری، جیسے ٹرام، جیسے موٹر سائکل، جیسے اسٹیمر، جیسے جہاز، ویسے یہ ہوائی جہاز۔ ہرروز، ہروقت اِدھر سے اُدھر اُڑتے پھرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تو ڈاک اورمسافر جہازوں کا ، ’’بادِ ہوائی ‘‘ نہیں، باضابطہ ہوائی سلسلہ مدت سے قائم ہے۔ یکم مارچ کو ایک طاقتور سرکاری ہوائی جہاز ، ہینی بال نام، ایک نہیں، چارچار پُرقوت انجن رکھنے والا، کراچی سے لندن کے لئے روانہ ہوا۔ روانگی سے قبل ہرانجن کے کل پُرزوں وغیرہ کی پوری دیکھ بھال، جانچ پرتال، بڑے بڑے انجینیروں اور ماہرینِ فن کے ہاتھوں ہولیتی ہے، اس کی بھی ہوئی۔ جہاز کے چلانے والے چار افسر تھے، اور اپنے اپنے فن کی سندیں اور ڈگریاں پائے ہوئے، خوب اُڑے اور اُڑائے ہوئے، اناڑی اور نوآموز نہیں، آزمودہ کار، ہرطرح قابِل اعتبار۔ ان کے علاوہ چار ہی مسافر بھی ، تین انگریز اور ایک ہندوستانی۔ انگریز تینوں معزز، اور ایک تو ہوائی فوج کا افسر۔ ہندوستانی، مدراس کے مشہور بیرسٹر، ’’سر‘‘ کے خطاب سے سرافراز، اور ابھی حال ہی میں وزیرِ ہند کے مشیر مقرر ہوکر لندن اپنے عہدہ کا چارج لینے جارہے تھے۔
دوپہر کے قریب تک، یعنی 11بج کر 3منٹ تک، جہاز کی خیریت ملتی رہی۔ 2بج کر 51منٹ پر جہاز کو اگلے اسٹیشن شرجبؔ پر ٹھہرنا تھا، اس سے 13منٹ قبل 2بج کر 38منٹ پر اسٹیشن مذکور کو جہاز سے لاسلکی پہونچا ، مگر الفاظ سمجھ میں نہ آئے۔ (لاسلکی کا انتظام ہر طیارہ میں رہتاہے، تاکہ جس منٹ چاہے، اپنی خبر زمین والوں کو دے سکے، اور اوقاتِ مقررہ پر اطلاع دیتے رہنا تو لازمی ہے)۔ شرجب اسٹیشن برابر دریافت کرتارہا، مگر جہاز سے کوئی جواب نہ ملا۔ اور چند ہہی منٹ بعد، جب وقت مقررہ پر جہاز نہ آیا، تو شرجب نے کراچی کے بڑے اسٹیشن کو رپورٹ کی۔ معًا خبریں آس پاس کے سارے ہوائی اسٹیشنوں اور فوجی چھاؤنیوں، اور بندرگاہوں میں دوڑادی گئیں اور چند ہی گھنٹے بعد برّی اور بحری اور فضائی۔ ہر ممکن طریقہ سے تلاش شروع ہوگئی۔ اور 3؍مارچ کی صبح سے 6؍مارچ کی شام تک ایران کے جنوبی علاقہ کا کونا کونا، اور خلیج عمان اور خلیج فارس کا چپّہ چپّہ چھان ڈالا گیا۔ اکیلے بصرہ اور کراچی کے ہوائی جہازوں ہی نے اس چھان بین، تک ودَو میں کوئی 25ہزار میل کی، یعنی سارے کرۂ زمین کے محیط کے برابر مسافت طے کرڈالی، لیکن سواری اور سواروں کا محفوظ رہنا الگ رہا، کسی کی لاش تک کا پتہ نہ لگا! اور ’’قدرتِ مطلقہ‘‘ کے مقابلہ میں بشری عقل کی، سائنس کی، آلات وایجادات کی شکست فاش کی کرورہا کرور، اربہا ارب ، بیشمار مثالوں میں ایک مثال کا اضافہ اور ہوکر رہا!
طیارے اب تو جزوِ تمدن بن چکے ہیں، جب نئے نئے نکلے ہیں، اکبرؒ ؔکی زبان الہام ترجمان نے اُسی وقت کہاتھا ؎
ایرشپ پر چڑھے تو ایسے کہ بس ہمیں ہیں، خدا نہیں ہے
ایرشپ سے گرے تو ایسے کہ لاش کا بھی پتا نہیں ہے!
اتنی ساری ترقیوں کے بعد آج بھی یہ مضمون جُوں کا توں، صحیح ہے یا نہیں؟ غافل اور مغرور انسان، دھوکے میں پڑاہوا اور خود فریبی میں مبتلا انسان، روزمرہ اپنی آنکھوں سے یہ تماشے دیکھتارہتاہے، اور پھر بھی زعم اور بھروسہ اپنی عقل ودانش پر ، اپنے ہی جیسے بے بساطوں کی قوت وتدبیر کا رکھتاہے، اور ’’مسبب الاسباب‘‘ سے کہیں زیادہ دل ’’اسباب‘‘ سے اٹکائے اور اُلجھائے رکھتاہے!