Imamat Main Karunga Dr.F Abdrur Raheem

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:20AM Tue 27 Aug, 2024

میں ۱۹۶۶ سے ۱۹۶۹ تک سوڈان کی ام درمان اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ ایک سال چھٹیوں میں میں جنوبی سوڈان کے شہر ملکال گیا۔ ہماری یونیورسٹی کے جنرل سکریٹری نے اپنے بھائی کے ذریعہ میرے رہنے سہنے کا انتظام کیا تھا۔ وہ رمضان کے دن تھے۔ جنرل سکریڑی کے بھائی صاحب نے ایک پر تکلف افطار پارٹی ترتیب دی۔ مدعوین میں ایک ہندوستانی تاجر بھی تھے۔ ان کا نام پر بھا شنکر تھا۔ ظاہر ہے وہ ہندو تھے۔ وہ زمانے سے ملکال میں رہ رہے تھے۔ ان کی وضع قطع، بول چال سب سوڈانیوں جیسی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لڑکے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں، اور وہ سب حافظ قرآن ہیں، اپنے بارے میں بتایا کہ وہ عید کے موقع پر نئے لباس پہن کر نماز کے دوران مسجد کے باہر نمازیوں کے نکلنے کا انتظار کرتے ہیں، اور لوگ جب نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو ان کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مغرب کی اذان ہوئی تو لوگون نے افطار کیا۔ ہمارے ساتھ جناب پر بھا شنکر نے بھی افطار کیا۔ افطار سے فارغ ہو کر ہم لوگ نماز کے لیے صف بستہ ہوئے۔ پر بھا شنکر ایک طرف بیٹھ گئے۔ لوگوں نے کہا: آپ بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھیں۔ بولے: میں تیار ہوں، لیکن میری ایک شرط ہے۔ لوگوں نے پوچھا: کیا ہے وہ شرط ؟ تو بولے: أنا أبقى إمام (یعنی: امامت میں کروں گا(۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ ایک بار دہلی میں پیش آیا۔ ایک زمانے میں ہندوستان میں جامعہ الدول العربية ( عرب لیگ) کے نمائندے کلو فیس مقصود تھے۔ ایک بار انہوں نے مسلمان علما و مفکرین کی ایک بیٹھک بلائی تھی۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو مسلمان نماز گاہ میں صف بستہ ہوئے۔ لوگوں نے بہت اصرار کیا کہ مقصود صاحب نماز پڑھائیں۔ آخر کار انہیں بتانا پڑا کہ وہ عیسائی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ بھی پیش خدمت ہے۔ ایک بار اقوام متحدہ کے ایک بڑے عہدہ دار سرکاری دورہ پر ہندوستان آئے۔ ان کا تعلق برازیل سے تھا۔ ان کا سرکاری طور پر استقبال ہوا۔ جو ہندوستانی اہل کار ان سے ملتے تھے اور میٹنگوں میں ان کے ساتھ شریک رہتے تھے انہوں نے نوٹ کیا کہ ان کے طور طریق عام یورپین عہدہ داروں سے کچھ مختلف ہیں، وہ کھانے پینے کے بارے میں بہت احتیاط برتتے تھے ، ماکولات کے بارے میں سوالات کرتے تھے۔ ایک اعلی ہندوستانی اہل کار نے ان سے اس بارے میں پوچھ لیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور اس وجہ سے وہ کھانے پینے میں احتیاط برتتے ہیں۔ برٹش گیانا میں میرے میزبان نے ان سے میری ملاقات کرائی، اس وقت انہوں نے مجھے یہ بات بتائی۔