Hafiz Sajjad Ilahi by Abdul Mateen Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:28AM Tue 25 Jun, 2024

آج علی الصبح اس خبر نے دل اداس کردیا کہ حافظ سجاد الہی صاحب نے  لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا غائبانہ تعارف گذشتہ پندرہ بیس سال سے تھا، جبکہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ وغیرہ میں آپ کا نام پاکستان میں نمائندے کی حیثیت سے کئی سال سے نظر سے گذرتا تھااس دوران آپ سے فون پر کبھی کبھار بات بھی ہوتی رہی، اور ایک دو بار دبی میں عمرہ سے واپسی پر مختصر ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔

مرحوم سے ملاقات اور بات چیت میں ایک سادگی، اپنائیت ، اخلاص اور اہل علم کی خدمت کی خواہش کا احساس پایا جاتا تھا،جو آپ کی عزت واحترام کو دل میں بسا لیتا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ دارالمصنفین جیسا ادارہ کسمپرسی کے عالم میں ہے، غیر کیا اپنوں کے لئے بھی یہ ادارہ نامانوس ہوتا جارہا ہے، اور اس کی مطبوعات کے غیر قانونی ایڈیشن چھاپ چھاپ کرناشرین لکھ پتی بن رہے ہیں، آپ نے پاکستان میں اس ادرارے کی شائع کردہ اصل مطبوعات کو خرید خرید کر انہیں پاکستان کے اہل علم اور کتب خانوں تک پہنچانے میں ربع صدی تک محنت اور کوشش کی، اور ہم  آج کہ سکتے ہیں کہ اس ادارے کی مطبوعات اور اس کے ماہنامہ معارف کی مانگ اور تعارف پاکستان میں اپنے ملک سے زیادہ ہے۔ لیکن برا ہو ابن الوقت سیاست کا کہ گذشتہ چھ سات سال سے دو پڑوسی ملکوں میں  ڈاک کا سلسلہ مکمل بند ہے، اورقدردان اہل علم یہاں کے علمی وتحقیقی میدان میں ترقی کی رفتار کو دیکھنے کے لئے  ترس رہے ہیں۔

بات صرف دارالمصنفین کی نہیں ہے، مجلہ علوم القرآن علی گڑھ، تحقیقات اسلامی علی گڑھ،  بحث ونظر پٹنہ، اور احوال وآثار کاندھلہ اور ان جیسے مجلات جن سے عموما ہمارے علمی و دینی حلقے بھی عموما غیر متعارف رہتے ہیں،  انہیں اور ان کے ناشرین کی کتابوں کو آپ نے یونیورسٹیوں، کالجوں اور کتب خانوں کی میزوں تک پہنچانے میں انتھک محنت کی۔ آج ان کی رحلت پر محسوس ہوتا ہے کہ بر صغیر کے علمی وتحقیقی حلقوں کے درمیان ایک پل ٹوٹ گیا ہے، اور کوئی یہ مشن لے کر آگے بڑھے اس کے آثار کم ہی نظر آرہے ہیں۔

ہمارے جن دانشوران اور مصنفین نے اس دوران پڑوسی ملک کا سفر کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مرحوم ان کے لئے فرش راہ بنے رہتے تھے، اور ان کی خاطر داری میں کوئی کسر نہیں رکھتے تھے۔

مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات میں گریجویشن کیا تھا، جس کے بعد وہ اپنے والد ماجد کے سریوں اور لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے، والد ماجد کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے چار بھائیوں کی رفاقت اور باہمی افہام وتفہیم سے اس کاروبار کو چارچاند لگادئے، اپنے بچوں کو اعلی  عصری تعلیم دلائی، اس مادی پس منظر کے باوجود وہ کتابوں سے محبت اور ذوق مطالعہ رکھنے والے طلبہ اور اہل علم کی خدمت کے لئے پہنچانے گئے۔

مرحوم نے تحفظات اور تعصبات سے بلند ہوکر اپنے وسائل سے دینی اداروں کی خدمت کو اپنا وتیرہ بنایا تھا، آپ کے دیگر بھائیوں نے آپ پر اعتماد کا ثبوت دیا، اور کاروبار کی جو سالانہ لاکھوں زکوۃ بنتی تھی مستحق اداروں تک بلاتفریق پہنچانے میں ان پر اعتماد کیا ، انہوں نے حاجتمندوں کی ذاتی طور پر مدد میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، آپ کے والد ماجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی دینداری اور مذہب سے تعلق کی وراثت اپنے بچوں کے لئے چھوڑی۔

ہندوستانی مجلات کے فروغ کے شوق کے بارے میں آپ کے یار غار ڈاکٹر سجاد چترالوی  (اسلامی یونیورسٹی۔ اسلام آباد  ) بتاتے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں انہیں قاضی اطہر مبارکپوریؒ اور الحاج محی الدین منیریؒ کی ادارت میں جاری ماہنامہ البلاغ بمبئی میں شائع شدہ دارالارقم پر ایک تحریر کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے اس کے لئے ادارہ ثقافت ، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کئی ساری اہم لائبریریاں چھان ماریں، لیکن مطلوبہ مضمون نہ مل سکا، تو آپ نے سجاد الہی صاحب کو مشورہ دیا کہ ہندوستان کے علمی مجلات اور یہاں کی مطبوعات کی پاکستان کے محققین ، دانشوروں اور مصنفین کے لئے فراہم کرنے کی کوشش کریں، مرحوم کو یہ بات بھا گئی، اور پھر انہوں نے ہندوستان کے علمی وتحقیقی اداروں کے مجلات اور مطبوعات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا، اور اس کے لئے انہوں نے اپنا گھر کھول دیا، اللہ نے ضروریات زندگی  پوری کرنے کے لئے بہت کچھ دے دیا تھا، انہوں نے کسی  علم کے پیاسے کو محروم نہیں کیا، جو بھی ان کے یہاں علم کی پیاس لے کر آیا، انہوں کبھی رعایتی شرح پر اور کبھی للہ فی سبیل اللہ ان کی پیاس بجھائی، اب ایسے دیوانے کہاں ملیں گے؟۔

واقعی سجاد الہی کی رحلت برصغیر کے تشنگان علم کے لئے بہت بڑا نقصان ہے، آپ کی کمی علم وتحقیق کے متلاشیوں کو مدتوں ستایا کرے گی۔

مرحوم نے اپنی زندگی کی ۶۲ بہاریں دیکھیں، ابھی رمضان مبارک میں عمرے سے لوٹے تھے، کورونا کے بعد ہی سے وہ کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے، لیکن  پھر شوگر کا حملہ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا، اللہ آپ کی بال بال مغفرت کرے، اور مرحوم نے جو خلا چھوڑا ہے، اسے بھرنے کے اسباب پیدا کرے۔ آمین