غیر سودی بنک کاری کے اولین داعی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی۔۔۔ از: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:48AM Sun 13 Nov, 2022

آج ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے انتقال سے اسلامی نظام معاشیات کے ایک عظیم داعی اور راہ رو سے دنیائے اسلام محروم ہوگئی، ۱۹۶۷ئ میں جب کہ اسلامی بنکنگ کا واضح تصور فقہائ و دانشوروں کے ذہن میں نہیں تھا،اور سودی بنک کاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بنکنگ کے نظام کو کیسے پیش کیا جائے، اور سودی بنکوں میں مسلم کے نام کا اضافہ عام سے بات تھی، آپ نے اپنی کتاب غیر سودی بنک کاری کے ذریعہ سودی بنک کاری بند ہونے کی شکل میں اسلامی بنکنگ کا نظام کس طرح چلا یا جائے،اس موضوع پر زندگی رامپور، اور چراغ راہ کراچی میں سلسلہ وار مضامین شروع کئے تھے، جو بعد میں غیر سودی بنک کاری کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا پیش کردہ ابتدائی خاکہ آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے اسلامی بنکنگ کے مستقل نظام کی شکل میں سامنے آیا، اسلامی معاشیات آپ کی تحقیقات کا محور رہا اور آپ کے قلم سے اس موضوع پر بڑی قیمتی کتابیں سامنے آئیں، جس نے سود کی لعنت سے دنیا کو پاک کرنے کے لئے ایک نعم البدل کا واضح تصور پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے بیسیوں کتابیں اور مقالات نکلے،جن کا زیادہ تر موضوع اسلامی نظام اقتصادیات اور معاشیات ہی تھا، انگریزی میں آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں۔ Interest,Economic Enterprise in Islam,Riba,Bank Interest, Some Aspects of Islamic Economy, Recent Theories of Profit: A Critical Examination, Muslim Economic Thinking, Issues in Islamic banking : selected papers, Partnership and profit sharing in Islamic law, Insurance in an Islamic Economy, Teaching Economics in Islamic Perspective, Role of State in Islamic Economy,Dialogue in Islamic Economics, Islam’s View on Property اور اردو میں,تحریک اسلامی عصر حاضر میں,اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی,مقاصد شریعت اسلام کا معاشی نظام,مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق, معاش، اسلام اور مسلمان,اسلام کا نظریۂ ملکیت غیر سودی بینک کاری,انشورنس اسلامی معیشت میں ،مشہور ہوئیں۔

آپ کی پیدائش سنہ ۱۹۳۱ئ گورکھپور میں ہوئی تھی، وطن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں ۱۹۶۶ئ میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور پھر وہیں معاشیات اور اسلامی اسٹڈیز کے لکچرر مقرر ہوئے،کچھ عرصہ بعد آپ جدہ کی شاہ عبد العزیز یونیورسٹی سے پروفیسر معاشیات کی حیثیت سے وابستہ ہوئے، یہاں سے رٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں رہے، انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مینجمنٹ اسٹڈیز کے شعبہ میں پروفیسر ایمیریٹس بھی بنایا گیا تھا،۔ تقسیم ہند کے بعد جس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں کمیونسٹ فکر سے وابستہ دانشوروں اور طلبہ کا غلبہ تھا ، آپ نے رفقائ کے ساتھ اس بہاؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اسلامی فکر کو یہاں کے ماحول میں پنپنے کی راہ میں انتھک کوششیں کیں، اس زمانے میں آپ کے رفقائ میں ڈاکٹر ابن فرید، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی، ڈاکٹر سید انور علی، اور قاضی اشفاق وغیرہ قابل ذکر ہیں، یہ سبھی افراد جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے، اور دینی نقطہ نظر سے ان کی کوششیں بہت ہی قابل قدر تھیں۔ تقسیم ہندکے بعد جب جماعت اسلامی ہند کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت جماعت کی قیادت نے طے کیا کہ جماعت سے وابستہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونہار نوجوانوں کو باقاعدہ دینی تعلیم اور عربی زبان سکھانے کا نظم کیا جائے، اس مقصد سے ۱۹۵۰ئ تا ۱۹۶۰ئ تک رامپور میں ثانوی درسگاہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جس کے لئے ایک چار سالہ نصاب تعلیم تیار کیا گیا، جس کے مضامین عربی زبان وادب، قرآن و حدیث اور فقہ پرمشتمل تھے، اس کے ناظم مولانا صدر الدین اصلاحیؒ تھے، اور اساتذہ میں ناظم درسگاہ کے ساتھ ساتھ اس وقت کے امیر جماعت مولانا ابو اللیث ندویؒ، مولانا جلیل احسن ندویؒ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ، مولانا عبد الودود ندویؒ، اور مولانا سید حامد علیؒ قابل ذکر تھے، درسگاہ کے سب سے پہلے طالب علم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند ) تھے۔ یہاں کے فارغین میں مولانا وحید الدین خان، مولانا عرفان احمد ، ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی ، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی جیسی علم ودانش کی نامور شخصیات کا نام آتا ہے۔اس زمانے کی بعض شخصیات سے ہم نے سنا ہے کہ اس درسگاہ کے قیام کا اصل باعث ڈاکٹر نجات اللہ ہی اس میں دلچسپی اور اصرار تھا، جن کے سامنے وسائل کی کمی کےباوجود جماعت نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا۔ ثانوی درسگاہ کے تذکرے کے ساتھ یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ عصری تعلیم کے بعد جب کوئی طالب علم دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالی اس کے دل سے غیر کی مرعوبیت ختم کردیتا ہے، اس کے برعکس کوئی عالم دین فراغت کے بعد عصری تعلیم سے جڑ جاتا ہے تو وہ اپنی تعلیم کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہوکر غیر کی مرعوبیت کا شکار ہوجاتا ہے، استثنا ئ ہر قانون میں پایا جاتا ہے، حکم غالب پر ہوتا ہے ۔ ثانویہ کے فارغین نے دین کی بڑی خدمت کی، اور فکر اسلامی کو اپنی تصنیفات اور تحقیقات سے بہت کچھ مالا مال کردیا۔ ثانوی درسگاہ کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ثانوی درسگاہ کے ابتدائی طالب علموں میں سے ایک بزرگ تھے ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب جو سڈنی ( اسٹریلیا) میں مقیم تھے، آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بی یس سی انجینیرنگ کی تعلیم ترک کرکے ثانوی درسگاہ میں داخلہ لیا تھا، وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: ( (درس گاہ میں داخلہ مل جانے کی منظوری کے بعد میں گھر آگیا۔ پروگرام تھا یہاں سے رام پور جانے کا۔ ہمارا علاقہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کا عقیدت مند تھا اور مولاناجب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے ان کے قیام کے انتظامات کی ذمہ داری ہمارے خاندان کی ہوتی تھی۔ میں جب گھر آیا تو ان دنوں مولانا تشریف لاۓ ہوۓ تھے اور حسب دستور قیام ہمارے یہاں تھا۔ ایک دن میں نے مولانا سے درخواست کی کہ میں تنہائی میں ان سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے،البتہ ان کے ساتھ مولانا محمد زکریا اور مولانا عاشق الہی صاحبان بھی ہوں گے۔ خیر، ان حضرات سے ملاقات میں، میں نے عرض کیا: مولانا میں سخت مخمصے میں ہوں۔ جماعت اسلامی ہند نے یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے ایک چار سالہ کورس تیار کیا ہے جس میں طلبہ کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جارہی ہے۔ مجھے بھی وہاں جاکر علم دین حاصل کرنے کاشوق ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانامودودی کے خلاف آپ کے فتوے ہیں۔ میں فیصلہ نہیں کر پارہاہوں کہ وہاں جاؤں یا نہیں۔ میری بات سن کر مولانا نے فرمایا بیٹے، تم وہاں ضرور جاؤ اور تعلیم حاصل کر وہ اور خوب دل بھی لگا کر وہ تعلیم حاصل کر و،تم وہاں ضرور جاؤ میں تمہیں اس کی تاکید کرتاہوں۔اور جہاں تک فتوے وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ اونچی باتیں ہیں، ابھی ان کی فکر نہ کر و، بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس وقت تو تم وہاں جاکر پوری دلجمعی سے تعلیم حاصل کرو۔ زندگی رامپور جولائی ۲۰۲۰ء)) ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے پھر مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم مکمل کی، اور انہیں عربی زبان پر اتنا عبور ہوگیا تھا، کہ اسلام میں عدل اجتماعی کے نام سے ایک مشہور عرب ادیب ومفکر کی کتاب کا سلیس ترجمہ اور امام ابو یوسف کی کتاب الخراج کا عربی سے ترجمہ کیا۔ اور یہ دونوں ترجمے کافی مقبول ہوئے۔ مطالعات اسلامی کے شعبہ میں سنہ ۱۹۸۲ئ میں آپ کو باوقار شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ خالصتاعلمی و تحقیقی شخصیت کے مالک تھے، اور انہی میدانوں میں آپ نے قابل قدر خدمات انجام دے کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ ہمیں آپ سے ایک مرتبہ اپنی طالب علمی کے دور میں سنہ ۱۹۷۳ئ میں چنئی جماعت کے آفس میں ملاقات کا موقعہ ملا،یہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، آپ کی کتاب غیر سودی بنک کاری کی شہرت کا یہ زمانہ تھا، اس کتاب کی بنیاد پر ہمارے اساتذہ میں سے ماسٹر محمد شفیع شابندری سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل وغیرہ کے رفقائ نے غیر سودی بنک کاری کا ابتدائی تجربے کا آغاز کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی غیر سودی بنک کاری، ان حضرات کی میز پر ہمیشہ نظر آتی تھی، دنیا جیسے جیسے سود کی لعنت سے دور ہوتی جائے گی، اور اسلامی بنکنگ کا نظام فروغ پاتا رہے گا، ڈاکٹر صاحب جیسے مفکرین اور محققین کے اجر میں اضافہ ہوتا رہے گا، ان کی یہ خدمات بلندی درجات کا باعث بنتے رہیں گے ان شائ اللہ۔اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔ 00971555636151