Ghaddari Ka Silah

سچی باتیں (22؍دسمبر 1933ء۔۔۔ غداری کا صلہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اٹھارویں صدی کے وسط کا زمانہ ہے۔ عیسوی سَن 1757ء ہے۔ علاقہ بنگالہ نواب سراج الدولہ کے زیر حکومت ہے۔ پایۂ تخت مرشدآباد ہے۔ نام نائب السلطنت کاہے، لیکن عملًا بادشاہ وہی ہیں۔ اتنے میں یورپ سے خبر آتی ہے، کہ فرانسؔ اور انگلستانؔ میں جنگ چھڑ گئی ہے۔ انگریزوں کا کارندہ ہندوستان میں کلایوؔ نامے ہے۔ وہ جھٹ فرانسیسیوں کے شہر چندر نگرؔ پر قبضہ کربیٹھتاہے۔ فرانسیسی، قدرۃً حاکم وقت کے دربار میں فریادی بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ سراج الدولہ کہتاہے’’میں تمہاری دادرسی کروں گا، اور غاصب وظالم انگریزوں سے تمہارا حق تمہیں دلاؤں گا‘‘۔ کلایوؔ ، ہندوستان کی سیاسیات کے سبق اپنے فرانسیسی حریف ڈرپلےؔ سے سیکھ چکاہے۔ چَٹ سراج الدولہ ہی کے امراء سے ایک امیر جعفرؔ کو توڑ، انھیں تخت وتاج کا دعویدار بنا کھڑا کرتاہے، اور یہ کاروائی بھی اس قدر خفیہ ہوتی ہے کہ سراج الدولہ کو عین معرکہ کے وقت تک بھی اس کی خبر نہیں ہوتی! پلاسی کے مقام پر رن پڑتاہے کلایو عین غفلت میں حملہ کرتاہے، اور غنیم کوعین وقت تک دھوکے میں رکھنے کے لئے، خود میر جعفر کے رسالہ پر بھی فیر کرتاجاتاہے۔ میر جعفر مع اپنی فوج کے الگ کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں، اور جب سراج الدولہ کی فوج کے پَیر اُکھڑ لیتے ہیں، تو آکر کھلّم کھلّا انگریزوں کے شریک ہوجاتے ہیں!
میر جعفر اب تخت نشین ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ 24؍جون 1757ء کاہے۔ہندوستان میں انگریزی حکومت کی تاریخ اسی دن سے شروع ہوتی ہے۔ انگریز ایک ہاتھ سے میر جعفر کو مسند حکومت پر بٹھاتے ہیں، اوردوسرے ہاتھ سے، اپنا ’’بل ‘ ‘ پیش کرتے ہیں:-
انگریز گورنر ، مسٹر ڈریک کے لئے 2 لاکھ 80 ہزار کا نذرانہ
انگریز کرنل، کلایو کے لئے ؍؍ ؍؍
تین اور انگریز افسروں کے لئے فی کس 40 ہزار کا نذرانہ
کلکتہ کی انگریز آبادی کے لئے 50 لاکھ نذرانہ
؍؍ ہندو ؍؍ 20 لاکھ ؍؍
؍؍ آرمینی ؍؍ 10 ؍؍ ؍؍
انگریزی فوجی نقصانات کا معاوضہ 1 کرور
کل ملا کر 26 لاکھ 98 ہزر پونڈ کا مطالبہ ، جس کے کوئی 4 کرور روپیہ سے زائد ہوتے ہیں! میر جعفر سمجھتاتھا، کہ غدّاری کرکے چَین اُٹھا ئے گا! اَب آنکھیں کھُلیں۔ ہوش اُڑ گئے۔ آدھی ہی رقم میں خزانہ خالی ہوگیا۔ 24 پرگنہ کا ضلع اس کے علاوہ نذر کیا۔ پھر بھی پیچھا نہ چھوٹا، 61 ء میں کلایوؔ نے یہ دیکھ کر کہ دودھاری گائے سے اب دودھ نہیں نکلتا، ان حضرت کو بھی تخت سے اُتارا ، اس پر میر قاسم کو بٹھایا، اور بردوان، چاٹگام ومدنا پور کے اضلاع، اور حاصل کرلئے!
یہ تصریحات ، کسی مشرقی مؤرخ کے قلم سے نہیں۔ سرولیم ہنٹرؔ ، ایک مشہور انگریز مدبّر اورمؤرخ ہوئے ہیں۔ انھوں نے تاریخ ہند پر ایک درسی کتاب لکھی تھی۔ یہ جو کچھ درج ہوا، تقریبًا اسی کا ترجمہ ہے! عاقبت میں جو کچھ گزرے، اور گزر رہی ہو، اُسے چھوڑئیے، دنیا میں جعفر غریب پر کیا گزریَ کے دن لطف زندگی اُٹھا سکا؟ کے راتیں عیش ومسرت کے گزار سکا؟ ہندوستان کے ہندو مسلمان کن الفاظ میں یاد کررہے ہیں؟ ہندوستانیوں کو بھی الگ کیجئے۔ خود انگریز مؤرخ کیا اس نامراد کا نام، عزت ووقعت کے ساتھ ، ادب واحترام کے ساتھ، ممنونیت وشکر گزاری کے ساتھ لے رہے ہیں، یا اس کے برعکس…کے ساتھ؟ ملّت کا ساتھ چھوڑنے والوں کا، ’’وہاں‘‘ نہیں ، ’’یہیں‘‘، ہمیشہ کیا انجا ہواہے؟’’کل‘‘ نہیں، ’’آج‘‘ ہی کیا حشر ہوتے دیکھاگیاہے؟