Dr. Muahmmad Ismail Nadwi by Abdul Mateen Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:51AM Sun 11 Aug, 2024

مشہور ماہر لسانیات ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم  صاحب اپنے  ذاتی مشاہدات پر مبنی سلسلہ  جلوہ ہائے پابہ رکاب  کی اٹھارویں قسط میں مصر میں آپ کے پیشرو ہندوستان کے دانشور ڈاکٹر محمد اسماعیل ندوی مرحوم کا تذکرہ کیا ہے، جس میں آپ نے بیان کیا ہے کہ :

"مصر جانے سے پہلے میں نے سنا تھا کہ قاہرہ میں ڈاکٹر اسماعیل نامی ایک بڑے ہندوستانی عالم رہتے ہیں۔ 1964ء  میں جب میں قاہرہ پہنچا تو ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تعلق تمل ناڈو کے شہر میل و شارم سے تھا۔ ہائی اسکول کے بعد انہوں نے ندوۃ العلما میں پڑھائی جاری رکھی۔ ندوہ سے فراغت کے بعد وہ قاہرہ چلے گئے اور قاہرہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ وہیں رہنے لگے۔ جامعہ عین شمس میں مدرسة الألسن کے نام سے ایک ادارہ ہے جہاں دنیا کی مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل صاحب اس میں اردو پڑھاتے تھے۔ اسماعیل صاحب لوگوں سے بہت کم ملتے تھے ، ان کا اکثر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا، وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے جس میں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی۔ ان دنوں مصری وزارۃ ثقافت سے ایک وقیع ادبی رسالہ شائع ہوتا تھا جس کا نام ہی ((المجلة))  تھا۔ اس کے ہر شمارے میں "میری محبوب کتاب" کے نام سے کسی کتاب کا تعارف شائع ہوتا تھا۔ اس مجلہ کے ایک شمارہ میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون "میری محبوب کتاب" کے صفحے میں شائع ہوا۔ ان کا مضمون "راماین" پر تھا جو بہت مشہور بھی ہوا اور مقبول بھی۔ اس مضمون سے ہندوستان کا سفارت خانہ بہت خوش ہوا۔ ان کی تعظیم و تکریم میں اہل علم کی بیٹھک بلانا چاہتا تھا لیکن اسماعیل صاحب اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ سرکاری اداروں سے دور ہی رہنا چاہتے تھے۔ میں نے کبھی ان کو سفارت خانے کی تقریبات میں نہیں دیکھا"۔

چونکہ ڈاکٹر محمد اسماعیل ندوی مرحوم آج کی نسل میں غیر معروف ہیں بلکہ ہمارے خیال میں ندوے کے فارغین کی  بھی بڑی تعداد نے آپ کا نام نہ سنا ہو ،لہذا آپ کے حالات وکوائف کی تلاش میں دلچسپی پیدا ہوئی، ویسے ڈاکٹر اسماعیل کے حالات جاننےمیں  یہ دلچسپی ہمارے لئے کچھ نئی نہیں ہے، ۱۹۷۰ء کی دہائی میں جب مولانا عبد الماجد دریابادی کا صدق جدید لکھنو سے جاری تھا تو اس میں آپ کے مراسلات وقتا وقتا نظر آتے تھے، جس سے محسوس ہوتا تھا کہ مولانا دریابادی کی تحریروں سے آپ کو بہت لگاؤ ہے اور صدق جدید پابندی سے پڑھتے ہیں ، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب نے عرب دنیا کے مشہور ادیبوں او رمفکروں سے مولانا کے موازنے پر ایک دلچسپ مراسلہ لکھا تھا، جس میں آخر کار آپ کو استاد عباس محمود العقاد سے مشابہت دی تھی، ہماری رائے میں یہ مشابہت مروت میں دی  گئی تھی، کیونکہ مولانا دریابادی کی ٹکر  کا کوئی ادیب و دانشور  آپ کو وہاں تلاش پر بھی نظر نہیں آسکا، مولانا دریابادی کا امتیاز فکر کی بلندی، وسعت مطالعہ کے ساتھ  ساتھ پر اثر  اور سلیس انداز  تحریر  بھی ہے، اب یہ انداز تحریر کوئی کہاں سے لائے۔اس زاوئے سے مولانا  ہمیں  عرب دنیا میں  شیخ علی الطنطاوی اور  استاد احمد حسن الزیات سے  زیادہ قریب لگتے ہیں۔

ڈاکٹر  صاحب ایک ایسے زمانے میں مصر میں اقامت پذیر رہے ہیں، جس دور میں  ہندو مصر تعلقات تاریخ   کی سب سے زیادہ  اونچائی پرتھے ،ہندومصر سیاسی اور ثقافتی تعلقات نہ اس سے پہلے اتنی بلندی پر رہے نہ بعد میں، امریکہ کےسرمایہ دار ارانہ نظام حکومت اور سویت یونین کی کیمونسٹ ریاست  کے برخلاف   ایک غیر جابندار تحریک اٹھی تھی، جس کی قیادت جواہر لال نہرو، جمال عبد الناصر اور مارشل ٹیٹو کررہے تھے، اور یہ تینوں لیڈر اشتراکی اور سوشلسٹ فکر کے علمبردار تھے، یہ تعلقات اس وقت مزید گہرے ہوگئے جب ۱۹۶۱ء میں گوا کے ہندوستان میں ضم کرنے کی جنگ کے دوران مصر ی حکومت نے ہندوستان کی مدد کرتے ہوئے  پرتگالی بیڑے کو نہر سویز کو پار کرکے  گوا جانے سے روک دیا تھا،  اور ہندوستان کومزید خون خرابے کئے بغیر گوا کو ہندوستانی ریاست میں شامل کرنا آسان ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں ہندوستانی فیلموں کی مصر میں بڑی مانگ تھی، راجکپور کی فیلمیں  وہاں بڑی مقبول تھیں، مصریوں کی زبان پر  ہندی گانے آوارہ ہوں، اور میرا نام جوکر چڑھے ہوئے تھے، حالانکہ مصری  ہندی  سے نابلد تھے، بچوں کےنام  گاندھی اور نہرو  کے ناموں پر رکھے جارہے تھے، نہرو کو رسول السلام کا لقب دیا گیا تھا،  لطف کی بات ہوئی کہ اس زمانے میں پڑوس کے ایک مشہور مفکر و عالم دین مصر کے دورے پر گئے تھے، جو نسلا  سید تھے،  نہرو بھی انہی دنوں مصر گئے  ہوئے تھے، سید صاحب کے معتقدین نے واپسی پر دریافت کیا کہ حضرت آپ کو وہاں لوگ کس لقب سے پکارتے تھے؟  تو فرمایا کہ مجھے شیخ کہ کر پکارتے تھے اور نہرو کو سید کہ کر۔ شمالی ہند کےپس منظر میں شیخ اور سید کی یہ تلمیح بڑی معنی خیز ہے۔    

یہی زمانہ تھا جب ڈاکٹر محمد اسماعیل مرحوم مصر میں ڈاکٹریٹ کررہے  تھے، اور مصری قوم ہندوستان کی محبت میں  یہاں کے مذہب ادب تہذیب وثقافت جاننے کی پیاسی ہورہی تھی، اس زمانے میں پڑوسی ملک کی امریکہ اور سینٹو معاہدے سے وابستی کی وجہ سے مصر میں زیادہ اہمیت نہیں  دی جارہی تھی، لہذا اس زمانے میں ٹیگور ،گاندھی، نہرو وغیرہ ہندوستانی مفکرین اور ادیبوں پر بہت ساری کتابیں اور تحریریں منظر عام پرآرہی تھی، اور عرب  انہیں علامہ اقبال سے زیادہ جانتے تھے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ  پڑوس والوں نے علامہ اقبال کی آفاقیت کو محدود کرکے اپنے ملک کا شاعر بنادیا تھا،   اقبال کی اسی  مظلومیت کے احساس نے ہندوستان کے ایک عظیم مفکر و ادیب کو علامہ کے تعارف میں روائع اقبال لکھنے پر مجبور کیا تھا۔

ڈاکٹر محمد اسماعیل نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، ہندوستان کی تہذیب وثقافت اور ادب پر عربی زبان میں کئی ایک کتابیں لکھیں جو اپنے وقت میں طبع  ہوکر مشہور ہوئیں، یہ اور بات ہے کہ ہندوستان کے اہل علم زیادہ تر اس سے ناواقف ہی رہے۔ ان کتابوں میں آپ کی کتاب (( تاريخ الصلات بين الهند والبلاد العربية: للدكتور ‌إسماعيل ‌الندوي - دار الفتح – بيروت)) ، ((نظرات جدیدۃ فی شعر اقبال)) اور ((الهند القديمة حضاراتها ودياناتها )) بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ان میں سے بعض کتابیں اس قابل ہیں، کہ انہیں اردو میں ترجمہ کیا جائے۔

معارف اعظم گڑھ کی فائلوں٘ میں آپ کے مضامین تلاش کرنے پر ۱۹۵۸ءمیں چار قسطوں پر شائع شدہ مضمون "چند ناسخ ومنسوخ آیات" اور مورخہ ۱۹ دسمبر ۱۹۶۵ء کو لکھا ہوا ایک مراسلہ  دستیاب ہوا۔  آپ کے مراسلے میں آپ کی زندگی کے علمی پہلوں پر روشنی پڑتی ہے، آپ لکھتے ہیں کہ:

"میں نے سیرۃ النبی جلد اول ودوم کاترجمہ مل کر کے ڈیڑھ سال پہلے وزارت ثقافت میں پیش کر دیا ہے ، وزارت والوں نے اردو عبارت کی مراجعت کے لیے ایک قدیم ہندوستانی مقیم قاہرہ اور سابق اردو پروفیسر قاہرہ یونیورسٹی جنب شیخ نعمان صدیقی کے سپرد کیا تھا، ان کی مراحعت کے بعد پھر ترجمہ یہاں کے مشہور پر وفیسر ڈاکٹر یحیی الخشاب کے پاس عربی اسلوب کی مراجعت کے لیے بھیجا گیا، انھوں نے بھی اپنا کام عمل کردیا ، اب آراء و افکار کی مراجعت کے لیے ازہر کے ایک مشہور مولانا الشيخ عبد المتعال الصعیدی کے پاس بھیجا ہے یہ بھی ترجمہ پڑھ رہے ہیں، ان کے پڑھنے کے بعد ہی کتاب چھپے گی۔ باقی میری دوسری کتاب "العلاقات الثقافية بين الهند و البلاد العربي منذ اقدم العصور" کو مصری وزارت تعلیم عالی عن قریب چھپوا رہی ہے۔ عموما مصر کے دفاتر میں کام بہت سست ہوتے ہیں، اس وجہ سے بھی تاخیر ہوگئی، اور دوسری وجہ یہ ہوئی کہ یہاں آج کل کاغذ کا بڑا قحط  ہے، یہاں کے اخبارات نے بھی اپنے کچھ صفحات گھٹادیے ہیں، انہی وجوہ کی بنا پر کتابوں کا جلد چھپنا دشوار ہے ۔

میں نے الحافظ ابن عبدالبر کی کتاب الاستند کار فی مذاہب علماء الامصار کے ایک حصہ کی تحقیق کرلی ہے، مگر اس کا مکمل نسخہ اب تک دستیاب نہیں ہوا، میں نے قاہرہ، لندن وغیرہ  کے قلمی نسخے جمع کر لیے ہیں، یہ کتاب موطا مالک کی شرح ہی نہیں بلکہ مذاہب اربعہ پر اسلامی تاریخ میں پہلی کتاب ہے۔ اسی کےنہیج  پر ابن رشد نے ہدایتہ المجتہد لکھی ہے، چونکہ میں نے "ابن عبد البر و اثرہ فی الحدیث والفقہ" پر قاہرہ یونیورسٹی میں ایم اے  کا مقالہ پیش کیا تھا ، اس لیے اس موضوع پر بہت عادی ہوں، مگر افسوس کہ کتاب مکمل نہیں ہے۔ اس لیے اس کام کو ملتوی کر دیا اور "الموسوعۃ القرآنیۃ " کے نام سے حرورف ابجدی کے مطابق قرآن کی تاریخی، جغرافیائی فقہی حیثیت اور اسکے اسماء اور حیوانات و نباتات وغیرہ قدیم وجدید تحقیقات کی روشنی میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلہ میں کافی مواد جمع کرلیا ہے ، خصوصاً عاد و ثمود کے سلسلہ میں جدید تحقیقات کی روشنی میں نئے نئے نتیجے پر پہنچا ہوں ، اس سلسلہ میں انگریزی میں اچھی اچھی کتا ہیں شائع ہوئی ہیں ، اسی طرح قدیم مصری تاریخ و تمدن پر عربی اورانگریزی میں کافی کتابیں شائع ہوچکی ہیں ان سب سے استفادہ کیا ہے، سید صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آج سے نصف صدی پہلے ارض القرآن میں اپنے دور تک کی تمام تحقیقات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اب واقعی آپ کے پچھلے خط کے مطابق میں نئی باتیں سامنے آگئی ہیں ، خود عراق کے ایک مشہور مورخ  ڈاکٹر جواد علی کی کتاب تاریخ العرب قبل الاسلام جو ۱۹۵۲ء میں چھپی . ارض القران پر  خاصا اضافہ ہے، بابل پر بھی جدید تحقیقات کی روشنی میں کافی معلومات جمع کی ہیں۔  عہد قدیم کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف مصر آئے تھے، اور حضرت موسی کا قصہ بھی معروف ہے مگر فراعنہ کی تاریخ میں ان کا ذکر ہی سرے سے نہیں ہوا، مگر میں نے بڑی محنت و تلاش کے بعد انہی کتابوں سے یہ چیزیں بھی جمع کر لی ہیں ، اگر اللہ تعالٰی نے مجھ سے یہ بڑی خدمت لے لی تو میں اس کو اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھوں گا.

قاہرہ عین شمس  یو نیورسٹی میں عنقریب پی ایچ ڈی کا تھیسس پیش کر رہا ہوں ، میرا موضوع ہے المعاجم العربية في الهند تاريخها ومناهجها ودراسة مقارنة اس سلسلہ میں پہلی دفعہ الصغانی کی العباب الزاخر، التکملہ اورمجمع البحرین پر مکمل تحقیق و بحث کی ہے ، ان سب کتابوں کے  قلمی نسخے قاہرہ میں موجود ہیں"۔(معارف اعظم گڑھ جنوری ۱۹۶۰ء)

آپ نے  ((الهند القديمة حضاراتها ودياناتها ))  میں ہندوستان کی قدیم تہذیب پر معروضی انداز میں بہترین روشنی ڈالی ہے، اس میں آپ نے رامائن کی ادبی خوبیوں کو بھی اجاگر کیا ہے، اور دنیا کی قدیم ادبی کتابوں سے بھی اس کا موازنہ کیا ہے،مصر کے "المجلہ" کا مضمون  تو ہماری دسترس سے باہر ہے، جہاں تک اس کتاب کے مندرجات کا تعلق ہے،تو اس کی بنیاد پر آپ کے سلسلے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی  گنجائش نہیں ہے۔اور کرنا بھی  نہیں چاہئے، بہت ممکن ہے آپ نے ادبی پس منظر میں کوئی بات کہ دی ہو۔

ویسے آپ کی ۱۹۶۰ء کی دہائی میں  جامعۃ القاہرہ اور  جامعہ عین شمس سے ڈاکٹریٹ کوئی آج کی ڈاکٹریٹ نہیں ہے، اس زمانے میں ڈاکٹریٹ کا جو احترام اور مقام ہوا کرتا تھا وہ آج عنقا ہے، امام ابن عبد البر کی الاستذکار تو ابھی ۱۹۹۰ء کی دہائی میں کہیں جاکر شائع ہوئی ہے، لیکن آج سے ساٹھ سال  پیشتر مخطوطات کی بنیاد پر ابن عبد البر پر ڈاکٹریت کرنا پہاڑ کھود کر نہر بنانے جیسا عمل تھا، آج کے زمانے کی سہولتوں پر اس کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر صاحب  کے مراسلہ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ کو موقعہ ملتا تو شاید ندوۃ العلماء کی علمی شہرت میں مزید چار چاند لگ جاتے، اور ڈاکٹر صاحب   یہاں سے نکلنے والے محققین کی سب سے اونچی صف میں شامل ہوتے، بہت ممکن ہے کہ آپ کو پروفیسر عبد العزیز میمن جیسے محققین کے بعد والی  صف  میں جگہ مل جاتی ۔

جس زمانے میں ڈاکٹر محمد اسماعیل مرحوم نے علامہ شبلی نعمانی کی سیرۃ النبی کا ترجمہ شروع کیا ہے، اس کے لئے وہ بہت  مناسب وقت تھا، کیونکہ اس وقت تک پورے اسلامی لٹریچر میں اس پائے کی کوئی اور کتاب سامنے نہیں آئی تھی، اور کئی سارے اہم مصادر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس کتاب کے نتائج تحقیق کو حتمی حیثیت حاصل تھی۔ اس کی عربی زبان پر نظر ثانی کرنے کے لئے شیخ یحیی خشاب اور عبد الفتاح صعیدی جیسے اہل زبان ملے، اگر کتاب شائع ہوجاتی توشاید اصل اردو کتاب کی زبان اور روح کا عکس ہوتی، اور اس ترجمہ کا مقام مولانا مسعود عالم ندوی، سید محمد کاظم سباق، عاصم الحداد  اور مولانا محمد ناظم ندوی جیسے عالی قدر مترجمین کے مساوی شمار ہوتا۔ سیرۃ البنی عربی میں ترجمہ ہوکر کوئی ایک صدی بعد آئی ہے، اب اس کتاب کا وہ درجہ استناد نہیں ہے جو آج سے چالیس سال قبل تھا، اس دوران سیرت النبی کے موضوعات پر بہت سارا قیمتی لٹریچر آچکا ہے۔ آج  مصری ترجموں کا وہ معیار نہیں رہا ہے، جو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں  ہوا کرتی تھی ،اب توزبان میں صحافتی انداز رائج  ہوگیاہے،  آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسماعیل جیسے نابغہ شخص جس نے آج سے ساٹھ پینسٹھ  سال قبل قاہرہ اور عین شمس  یونیورسٹیوں سے ماجستیر اور ڈاکٹریٹ مکمل کی تھی خود اس کی عربی زبان پر قدرت کیسی ہوگی، اس کی زبان پر بھی اپنے دور کے دو ممتاز ماہرین زبان نے نظر ثانی کرکے نوک پلک دور کی ہے تو اس کی زبان کا معیار کتنا بلند ہوسکتا ہے؟۔ بس قسمت میں جولکھا ہے وہ ٹل نہیں سکتا، بہر حال یہ افسوس رہے گا جس شخصیت کو علمی سطح پر برصغیر میں ایک اہم مقام ملنا چاہئے تھا، اس نے پردیس میں تنہائی کی زندگی گذاری، اوراس کی ایسے حالات میں موت واقع ہوئی کہ قریب کوئی نہیں تھا، اور بر وقت آپ کی موت کی خبر بھی کسی کو نہ مل سکی۔ معلوم نہیں اب ان کے آبائی قصبے میل وشارم میں کوئی ان کو یاد کرنے اور پہنچاننے والا بھی پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ۔