Dr F Abdur Raheem

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:27AM Mon 23 Oct, 2023

  گزشتہ ماہ رمضان المبارک میں عمرہ جانا ہوا تو خیال تھا کہ ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب سے مدینہ منورہ میں ایک بار پھر شرف ملاقات حاصل ہوگا،لیکن فون پر آپ کا پیغام آیا کہ وہ اپنے آبائی قصبے وانمباڑی میں برادر خورد احمد اقبال صاحب کے یہاں ٹہرے ہوئے ہیں، غالبا اس وقت وہ علاج معالجہ کے لئے ہندوستان آئے تھے، اور آج مورخہ ۱۹ اکتوبر رات گئے خبر آگئی کہ ڈاکٹر صاحب مدینہ منورہ میں اپنے خالق  حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعوں۔

ڈاکٹر صاحب نے امام نوویؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی طرح  ایک مجرد زندگی گذاری، اور اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ زبان وحی اور قرآن کریم کی خدمت میں صرف کیا، وہ ارض ہند سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہاں والوں کی معلومات آپ کے بارے میں بڑی محدود رہیں، وہ نام ونمود اور شہرت سے زندگی بھر دور رہے، اور جنوبی ہند کے بہت سے انمول رتنوں کی طرح یہاں پر زیادہ تر گمنام ہی رہے، بس ان کا تذکرہ کبھی کبھار عربی ریڈروں کے مصنف کی حیثیت سے آتا رہا، یا کچھ جاننے والوں نے شاہ فہد قرآن کامپلیکس سے ان کے تعلق کا ذکر کردیا۔ حالانکہ وہ مسلمانان ہند کے لئے ایک قیمتی علمی سرمایہ اور دنیا بھر میں ان کا نام سربلند کرنے والی ایک عظیم شخصیت۔ اور ان کے لئے اللہ تعالی کا ایک  بہت بڑا انعام تھے۔

ڈاکٹر صاحب کو ہم نے آج سے نصف صدی پیشتر  ۱۹۷۱ء میں پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب کہ ابھی  وہ عمر کے چالیسویں دہے میں تھے، ہمارے استاد مولانا عبد الرافع نائطی باقوی نے ہمیں آپ سے ملایا تھا، ڈاکٹر صاحب جب بھی وطن آتے تو ہمارے مادر علمی  جمالیہ عربی کالج چنئی (مدراس ) ضرور تشریف لاتے، یہاں پر ہمارے مشفق پرنسپل مولانا سید عبد الوہاب بخاری مرحوم سے ان کےبڑے گہرے مراسم تھے، غالبا پریسڈنسی کالج میں انہیں آپ سے شرف تلمذ بھی حاصل ہوا تھا۔ ہمارے استاد نے اس وقت ہمیں بتایا تھا کہ چند سالوں سے آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورۃ میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ ہمارے لئے اس وقت بھی آپ کی ملاقات بڑے فخر کی بات تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے ۷ مئی ۱۹۳۳ء  میں آرکاٹ کے قصبے وانمباڑی میں  آنکھیں کھولیں تھیں، اس لحاظ سے آپ نے نوے (۹۰ ) سال کی عمر پائی جو آج کے لحاظ سے ایک طویل عمر شمار ہوتی ہے۔ ارکاٹ کا یہ علاقہ طویل عرصے سے مسلم اکثریتی علاقہ  اور دیرینہ اسلامی روایات کا امین  رہاہے۔ آپ کے والد ماجد کا نام عبد السبحان تھا، جو ایک تاجر پیشہ شخص تھے۔وانمباڑی نام  کے پہلے انگریزی حرف((V جسے عربی میں (ف) لکھا جاتا ہے، اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ اپنے نام سے آگے جنوب کی روایت کے مطابق یہ حرف بڑھا کر ف عبدا لرحیم لکھا کرتے تھے۔ چند سال قبل جب آپ کے توسط سے ہمیں شاہ فہد مصحف کامپلیکس جانا ہوا تو، آپ کو سعودی اسٹاف میں بڑے احترام سے دکتور ف کہتے سنا۔

مسجد میں ناظرہ قرآن پاک سے حسب روایت آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ، پھر آپ نے وانمباڑی کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے بارہ سال تک ثانوی تعلیم حاصل کی، اس دوران ذاتی محنت سے عربی سیکھنی شروع کی،  اس کے لئے آپ نے عربی زبانوں کی آسان کتابوں،پھر سفارت خانوں سے عربی اخبارات اور مجلات منگوا کر، اور صوت العرب القاہرہ، نداءالاسلام جدہ وغیرہ سے پروگرام سن سن کر عربی زبان سے مانوسیت حاصل کی۔اس دوران آپ کو مدینہ منورہ سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت سے اور بحرین سے آئے ہوئے ایک فقیر کی صحبت بھی ملی،جس سے آپ کو عربی بول چال کی شد بدھ ہونے لگی۔

پی یوسی کے بعد آپ نے باوقار پریزیڈنسی کالج چنئی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔ اور پھر اسلامیہ کالج وانمباڑی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے، اس کالج کے قیام میں مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ اور ڈاکٹر عبد الحق کرنولیؒ کا بڑا ہاتھ رہا تھا۔

جب اسلامیہ کالج میں عربی زبان کا ڈگری کلاس شروع کرنے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء کا امتحان پاس کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر عربی زبان میں یم اے کی سند حاصل کی۔

۱۹۶۳ء میں آپ کو عالم عرب کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا، اور آپ نے عید الفطر کی مناسبت سےصدر مصر کرنل جمال عبد الناصر کو پیغام تہنیت بھیجا، جس میں آپ نے ازہر شریف میں اپنی عربی تعلیم مکمل کرنے کے اشتیاق کا اظہار کیا، یہ مبارک باد ایسی نہیں تھی کہ اسے یاد بھی رکھا جاتا، لہذا اسے بھیج کر بھول گئے، لیکن آپ کو اچانک دو ہفتے بعد  مصر کے نائب صدر حسین الشافعی کا ایک جواب موصول ہوا، جس میں آپ کو مصری سفارت خانے میں اپنے تعلیمی اسناد اور کاغذات پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔آپ نے ضروری سفر کی کاروائی کی اور جنوری ۱۹۶۴ء میں ازہر شریف میں تعلیم کا آغاز کردیا، آپ کا قیام اس وقت مدینۃ الناصر للبحوث میں تھا۔ چونکہ اس وقت تک علی گڑھ یونیورسٹی کی اسانید کا یہاں اعتراف نہیں ہوا تھا، لہذا آپ کا داخلہ امتحان لے کر کیا گیا۔

۱۹۶۶ء میں آپ کو یم فل کرنے کا خیال آیا، اس وقت شیخ محی الدین عبد الحمید شعبہ کے سربراہ تھے، ان کا اپنا ایک مزاج تھا،  انہوں نے یم فل کے لئے آپ کی سند کو ماننے سے انکار کردیا۔ آپ اسی اڈھیر بن میں تھے کہ آپ نے طے کیا کہ اس سلسلے میں وزیر ازہر شریف شیخ احمد حسن الباقوری سے بات کی جائے، آپ باقوری صاحب کے آفس گئے، وہاں دربان سکریٹری وغیرہ کوئی نہیں تھا، آپ آفس میں سیدھے بلا روک ٹوک داخل ہوئے، وہاں ایک بڑے مرتبے کے فوجی افسر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے آپ کی درخواست ہمت افزائی سھ سنی اورجواب دیا کہ آپ اس کے لئے فلان آفسر کے پاس جائیں، تو ڈاکٹر صاحب نے ہمت کرکے کہا کہ مجھے ثوری  ( انقلابی) جواب چاہئے، تو شیخ صاحب نے فوجی افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام بیٹھے ہوئے انقلابی افسر کرسکتے ہیں۔ تو جواباًاس افسر نے فورا آپ کو کالج کے دفتر جانے کو کہا، جب آپ کالج کے متعلقہ دفتر پنچے تو وہاں افسران  آپ کے لئے نگاہیں بچھائے ہوئے تھے، اور ان میں ایک  کہ رہا تھا کہ جلدی کیجئے ابھی تک آپ نے رجسٹر کیوں نہیں کیا؟، اس طرح آپ نے اپنا یم فل میں داخلہ لیا، اور تحقیقی مقالہ پورا کیا جس کا عنوان تھا (الکلمات الفارسیہ المعربہ ) ۔

اسی سال سوڈان حکومت کا ایک اعلان آپ کی نظرسے گذرا کہ حکومت جامعۃ ام درمان الاسلامیہ کے نام سے ایک نئی  یونیورسٹی قائم کرنے جارہی ہے، جس کے لئے ایک ایسے انگریزی زبان کے استاد کی ضرورت ہے، جسے عربی بھی آتی ہو، موقعہ کو غنیمت جان کر آپ نے درخواست دی جو قبول ہوگئی، ۱۹۶۶ء میں آپ جامعہ ام درمان سے منسلک ہوگئے، یہاں آپ کی گہری دوستی شام کے مشہور اسلامی ادیب استاد محمد المبارک سے ہوئی، جنہوں نے پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھا نا شروع کیا تھا، اور جو شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ کے معتمد دوستوں میں تھے۔

 ۱۹۶۱ء میں شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جب جامعہ اسلامیہ مدینیہ کا قیام عمل میں آیا تھا، تو یہ جامعہ بنیادی طور پر غیر ملکی طلبہ کے لئے تھی، اور یہاں پر تعلیم گریجویشن سے شروع ہوتی تھی، تو اس میں تعلیم پانے کے لئے جو طلبہ اپنے اپنے ملکوں سے ثانوی تعلیم مکمل کرکے آتے تھے انہیں گریجویشن کے لئے عربی میڈیم میں تعلیم پانے کے قابل بنانے کے لئے عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، اس ضرورت کے ماتحت جامعہ نے ((تعلیم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا )) کے عنوان سے ایک تمھیدی درجہ قائم کیا تھا، جس میں غیر ملکی طلبہ صرف عربی زبان کی صلاحیت پیدا کرتے تھے، اس شعبے میں صرف ایک استاد شیخ محمد الاحمد پڑھاتے تھے، اسوقت اس کے لئے کوئی خاص کورس تیار نہیں تھا،جب جامعہ نے اس درجہ کو منظم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو آپ نے اس وقت کے رئیس الجامعۃ شیخ عبد العزیز بن بازؒ کے نام ایک درخواست بھیجی جس میں اس شعبہ کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، شیخ علیۃ الرحمۃ نے اس سلسلے میں استاد محمد المبارکؒ سے رائے مانگی، اور آپ کی بھر پور سفارش پر آپ  ۱۹۶۹ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اس شعبہ سے منسلک ہوگئے، اور جامعہ کے اس شعبہ اور کلیۃ اللغۃ میں اپنی خدمات پیش کیں۔ ۱۹۹۲ء میں جب جامعہ میں سعودیزائشن (Saudization) کا قانون نافذ ہوا، تو آپ کو دوسرے غیر ملکی اساتذہ کے ساتھ  رٹائرڈ ہونا پڑا۔

۱۹۷۳ء میں آپ نے استاد ابراہیم ابو النجا کے زیر نگرانی جامعہ ازہر سے ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی تھی۔ آپ کو بچپن ہی سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا، اردو، ٹامل، انگریزی، عربی، فارسی ، یونانی اور لاطینی زبانوں سے شدھ بدھ وطن قیام ہی کے دوران ہوگئی تھی۔لیکن چونکہ آپ پر دنیا بھر کے غیر ملکی طلبہ کو عربی سکھانے کی ذمہ داری عائد تھی، لہذا ترکی، افریقی، فرانسیسی،جس زبان کے بھی  طلبہ آپ کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوتےآپ  ان کی زبانیں سیکھتے، آپ کو عربی زبان کے مختلف کورسوں کی تدریس کے لئے جرمنی جانا پڑتا تو اس کے لئے آپ نے جرمنی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ اس طرح  آپ کو عبرانی اور سریانی سمیت  جملہ بارہ ( ۱۲) سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔

آپ بنیادی طور پر علم لسانیات کے فرد تھے، اس کا ایک اہم  شعبہ فیلولوجی Philology  کہلاتا ہے، اس شعبے کا عالم مختلف زبانوں سے شامل ہونے والے اجنبی الفاظ کی بنیاد جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس موضوع پر یورپ  نے بڑی ترقی کی ہے، عربی اور اردو میں اس میدان کے ماہر شاذو نادر ملتے ہیں، ڈاکٹر صاحب اس میدان میں اپنی نوعیت کے منفرد عالم تھے۔اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لئے آپ نے ابو منصور جوالیقی کی کتاب ((المعرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم)) کو تحقیق کے لئے منتخب کیا، آپ سے پہلے مشہور محقق شیخ احمد محمد شاکر نے اسے ایڈٹ کرکے شائع کیا تھا، عام طور پر کسی ایڈٹ شدہ کتاب کو وہ بھی احمد شاکر جیسے محقق کی قلم سے ہو ، ڈاکٹریٹ میں دوبارہ تحقیق کے لئے قبول نہیں کیا جاتا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس میں استثناء مل گیا، وہ اس لئے کہ ایک تو احمد شاکر قدیم عربی زبان میں دوسری زبانوں سے شامل  الفاظ کی شمولیت کو نہیں مانتے تھے، لہذا انہوں نے کتاب کی صحت عبارت پر اکتفا کیا تھا، دوسری زبانوں کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، یہ ف عبد الرحیم کا میدان تھا، لہذا آپ نے اپنی کتاب میں ایک ایک لفظ کی تحقیق پیش کی ، اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے اسکا موازنہ پیش کیا ہے۔

قرآن کریم میں کیا دوسری زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں؟، یہ ایک دقیق علمی بحث ہے، جس میں علماء کا موقف یہ ہے کہ اسلام سے پہلے غیر زبانوں کے  جو الفاظ داخل ہوکر عربی زبان  میں گھل مل گئے ہیں، اب ان کے ساتھ  معاملہ عربی زبان  کے الفاظ ہی کی طرح ہوگا۔ اور انہیں غیر عربی الفاظ نہیں کہا جائے گا، اس سے ((بلسان عربی مبین ))کے دعوے کی درستگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔اس موضوع پر امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب ((المهذب فيما وقع في القرآن من المعرب)) کو بڑی شہرت حاصل ہے، علاوہ ازیں مستشرقین نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے،ان میں ارتھر جفری کی کتاب ((معجم الالفاظ الغربیۃ فی القرآن)) کو شہرت حاصل ہے، لیکن چونکہ اس مصنف کی نیت صاف نہیں ہے اور اس کا رویہ  حضور اکرم اور قرآن کے تئیں معاندانہ ہے، لہذا  کتاب کی تیاری میں انتھک محنت کے باوجود یہ کتاب قابل قدر نہیں رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی اس موضوع پر ((معجم الدخیل فی اللغۃ العربیۃٰ الحدیثہ ولہجاتھا)) اور((سواء السبیل الی ما فی العربیۃ من الدخیل،الاعلام باصول الاعلام))، مستقل اور بڑی قابل قدر کتابیں ہیں۔ آپ نے ان کے علاوہ بھی بہت ساری قابل قدر تصنیفات یاد گار چھوڑی ہیں، اس موضوع پر اردو میں بھی آپ کی دو یادگار کتابیں ہیں ،(( پردہ اٹھادوں اگر چہرہ الفاظ سے ))اور دوسری کتاب ہے ((گلستان الفاظ ومعانی))۔

ہندوستانی علماء میں آپ کو مولانا سید ابوالحسن ندویؒ سے بڑا تعلق خاطر رہا، اور سعودی علماء میں شیخ عبد العزیز بن بازؒ سے وہ بڑے متاثر تھے۔ شیخ بن بازؒ کی زندگی کے چند ایک پہلؤوں سے تو وہ  بڑے متاثر تھے، جنہیں جان کر شیخؒ میں کبھی حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ روح چلتی پھرتی نظر آتی ہے، ایک چشم دید واقعہ کو وہ بیان کرتے ہیں کہ:

"جنوبی کوریا کے ایک طالب علم مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے آئے تھے، اس ملک کے پایہ تخت سیول میں ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی تھی، جس کے بارے میں اس طالب علم نے بتایا  کہ یہاں نماز وماز کا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا، ہفتے کے چھ روز یہاں کے لوگ کام میں مصروف رہتے ہیں، البتہ اتوار کے روز چھٹی ہوتی ہے، بہت سارے کوری باشندے اس روز  شراب لے کر آتے ہیں، اور مسجد کی چھت اور منڈیر پر بیٹھ کر اسے پیتے ہیں، یہ سن کر میرا دل کھول گیا، اورشدت جذبات سے بے قابو ہوگیا، جب شیخ بن بازؒ نے میری یہ حالت دیکھی تو قریب بلا کر سمجھایا کہ یہ لوگ کفر س نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، شراب پینا معصیت ہے،اور معصیت کفر سے ہلکی چیز ہے،ایمان ہے تو معصیت سے توبہ ہوسکتی ہے، اور وہ دھل سکتی ہے، لیکن کفر  ہے تو کوئی گناہ نہیں دھل سکتا، اس پہلو سے بھی کبھی سوچنا چاہئے"۔

اسی طرح ایک امریکن طالب علم آپ کے پاس   جامعہ میں داخلہ کا مقررہ وقت گذرنے کے بعد آیا ، شیخ بن بازؒ نے آپ کو ترجمانی کرنے کے لئے کہا، اور اس کی بات سن کرشیخ  صاحب نے معذرت کرتے ہوئے اسے آئندہ سال آنے کو کہا، تو اس  امریکی نے جواب دیا کہ کیا آپ آئندہ سال تک میرے زندہ رہنے کی ضمانت دے سکتے ہیں، اگر میں اس دوران دین کو جانے بغیر دنیا سے گذر گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ۔ یہ سن کر شیخ کی آنکھیں  آنسؤوں سے ڈبڈبا گئیں، اور اس کے داخلہ کی ہدایت کردی"۔

آپ نے جامعہ میں عربی نہ بولنے والوں کو عربی زبان سکھانے کے لئے ( دروس اللغة العربية لغير الناطقين بها) کے عنوان سے جو نصاب تیار کیا ہے، اسے بڑی پذیرائی ملی، اور کئی سارے ملکوں میں  آپ کی اطلاع کے بغیر بھی یہ مقبول ہوئیں، کئی ایک ظالموں نے آپ کا کتاب سے نام حذف کرکے بھی  انہیں شائع کیا۔

امام مسجد نبوی شریف شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ شاہ فہد قرآن شریف پریس کے سربراہ ہیں، ۱۹۹۲ء میں جامعہ اسلامیہ سے ڈاکٹر صاحب  کو رٹائرڈ کیا گیا تو  آپ نے فورا ہی آپ کو شاہ فہد پریس میں قرآنی تراجم کے شعبہ  کا سربراہی پر نامزد کردیا، جس عہدے پر آپ وفات تک تیس سال سے زیادہ عرصہ فائز رہے، اور آپ کی سرپرستی میں  ( ۷۶) سے زیادہ زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے شائع ہوئے۔ یہ ایسا عزت کا مقام ہے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔

ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب زندگی بھر وحی الہی کی زبان سیکھتے اور سکھاتے، اور قرآن پاک کی تعلیمات کو دنیا بھر میں قابل فہم بناتے بناتے اپنے خالق حقیقی سے جاملے، انہوں نے شہرت  اور ناموری سے بلند ہوکر، ایک گمنام سپاہی کی طرح اللہ کے کلام کی سربلندی کے لئے زندگی لگادی، اب آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن آپ کی پھیلائی ہوئی خوشبو تا قیامت فضاؤں میں بکھرتی رہے گی۔ کتنا خوش نصیب تھا وہ شخص، ظاہری نظروں میں  اپنی کوئی آل واولاد نہیں چھوڑی، لیکن دیکھا جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی ہزاروں لاکھوں  روحانی اولاد نصف صدی سے زیادہ عرصے سے قرآن کا نور، اور علم کی روشنی  دنیا بھر میں پھیلارہی ہے، ان شاء اللہ نور کی یہ شعاعیں تا قیامت بڑھتی رہیں گیں، اور بارگاہ خداوندی میں  آپ کے درجات بلند کرتے رہیں گی۔ آمین

2023-10-22